وزیراعلٰی کا اشارہ انڈیا الائنس میں شامل کانگریس اور عام آدمی پارٹی کیطرف تھا جو دہلی میں الگ الگ الیکشن لڑ رہی ہیں اور اسکا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت اور کانگریس و عام آدمی پارٹی کی ہار پر ایک چبھتا ہوا طنز کیا ہے۔ انہوں نے انڈیا الائنس کی پارٹیوں کے بیچ عدم اتحاد اور نتیجے میں ووٹوں کی تقسیم پر نشانہ لگاتے ہوئے ''مہا بھارت'' سیریل کے ایک مشہور سین کا میمس شیئر کیا۔ انہوں نے اپنے پوسٹ میں لکھا کہ ''اور لڑو آپس میں''۔ اسی کے ساتھ انہوں نے "مہا بھارت" کے اس میمس کو پوسٹ کیا جس میں ایک سادھو کہتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ ''جی بھر کر لڑو، ختم کر دو ایک دوسرے کو"۔ اپنے اس ایکس پوسٹ کے ساتھ عمر عبداللہ نے اسمبلی انتخابات سے متعلق نتائج کو ری ٹوئیٹ کرتے ہوئے اپنا پیغام مزید واضح کیا۔ ان کا اشارہ انڈیا الائنس میں شامل کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی طرف تھا جو دہلی میں الگ الگ الیکشن لڑ رہی ہیں اور اس کا فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے۔ صرف کانگریس اور عام آدمی پارٹی ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے خلاف یکساں موقف رکھنے والی کچھ دیگر پارٹیاں بھی انتخابی میدان میں تھیں جس کی وجہ سے بی جے پی مخالف ووٹوں کے بٹنے کا کام ہوا ہے اور عمر عبداللہ نے ووٹوں کی اس تقسیم پر چبھتا ہوا طنز کیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انڈیا الائنس عمر عبداللہ بی جے پی

پڑھیں:

کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی لیکن کانگریس نے نہیں کی تو یہ کس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے سابق جنرل سکریٹری سیتارام یچوری کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک یادگاری خطبے میں نامور تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے اپنے سامعین پر زور دیا کہ انہیں ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے چند اہم ترین ابواب  کے مارکسی تنقیدوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیئے۔ خاص طور پر ان ابواب کا، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ وہ ہندوستانی کمیونسٹ تحریک کے کردار کو دھندلا کرتے ہیں۔ پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ شاید اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی خامیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ انہوں نے واضح طور پر خود کو بائیں بازو کا دانشور مانا۔ عالمی سطح پر قرون وسطیٰ کے ہندوستان کے ایک انقلابی مؤرخ کے طور پر معروف، لیکن جن کا کام قدیم سے جدید ہندوستان تک کے مختلف ادوار پر محیط ہے، پروفیسر عرفان حبیب اب 90 سال سے زیادہ کے ہوچکے ہیں۔ پروفیسر حبیب نے دہلی میں گزشتہ دہائی کا اپنا پہلا عوامی لیکچر دیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ برطانوی استعمار پر کمیونسٹ تنقید، ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک سے پہلے شروع ہو چکی تھی۔ (کارل) مارکس اور (فریڈرک) اینگلز نے 1840ء کی دہائی میں نو آبادیات پر تنقید کی، لیکن نوروجی اور دت نے ہندوستان میں اس تنقید کو فروغ دیا، ہمیں بھی ان کا احترام کرنا چاہیئے۔ عرفان حبیب نے مزید وضاحت کی کہ کمیونسٹ انڈین نیشنل کانگریس کا ایک اہم حصہ تھے اور وہ اکثر سوشلسٹوں کے ساتھ اتحاد کرتے تھے۔ یہ صورتحال آزادی کے بعد بدلی، جب دونوں کے درمیان اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیونسٹوں نے ایک اسٹریٹجک غلطی کی تھی، جب انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک جیسا مان لیا۔ انہوں نے کہا کہ 1930ء کی دہائی سے لے کر 1947ء تک، کانگریس اور مسلم لیگ دو مختلف سمتوں میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ کانگریس فوری اور مکمل آزادی چاہتی تھی، اور مسلم لیگ مسلمانوں کے لئے علیحدہ حصہ (ڈیویڈنڈ) کا مطالبہ کر رہی تھی۔ عرفان حبیب نے دلیل دی کہ اگرچہ کمیونسٹوں نے کانگریس کے مطالبے کی حمایت کی، لیکن انہوں نے غلطی سے دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک ہی مان لیا۔

پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ مسلم لیگ فرقہ پرست تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس ایک قومی پارٹی تھی، مسلم لیگ نے تقسیم کی حمایت کی، لیکن کانگریس نے نہیں کی، تو یہ کس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک جیسے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم دونوں میں فرق کیوں نہیں دیکھ پائے۔ کانگریس کے پاس پہلے ہی سوشلسٹ پروگرام تھا۔ عرفان حبیب نے یاد کیا کہ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مانتے ہوئے، ایسی پالیسی اپنائی تھی، جس کے تحت اپنے مسلم کارکنوں کو مسلم لیگ  میں بھیجا اور ہندو اراکین کو کانگریس میں، یعنی عملی طور پر کانگریس کو ایک "ہندو پارٹی" مان لیا گیا۔ انہوں نے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا اور یاد کیا کہ کیسے کئی مسلم کمیونسٹوں نے مسلم لیگ کے ساتھ کام کرنے پر مجبور کیے جانے پر مارکسزم سے خود کو دور کر لیا۔ تاہم انہوں نے یاد دلایا کہ جب کمیونسٹ ایک متنازعہ سیاسی موقف اپنا رہے تھے، اس زمانے کے ایک ممتاز کمیونسٹ ترجمان آر پی دت نے اپنی مشہور کتاب انڈیا ٹوڈے (1940ء) میں ایک الگ باب لکھا تھا جس میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کی دلیل کو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے اس وقت کے جنرل سکریٹری پی سی جوشی نے نظرانداز کر دیا، جو مسلم لیگ کے تئیں اپیزمنٹ کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔

متعلقہ مضامین

  • ایئر انڈیا طیارہ حادثہ: جاں بحق مسافروں کے لواحقین نے امریکی کمپنیوں پر مقدمہ دائر کر دیا
  • کنگ عبداللہ یونیورسٹی، سعودی عرب میں مکمل فنڈڈ اسکالرشپ کا اعلان
  • کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک جیسا مان کر کمیونسٹوں نے غلطی کی تھی، پروفیسر عرفان حبیب
  • بہار کے بعد اب دہلی میں بھی ایس آئی آر ہوگا، الیکشن کمیشن تیاریوں میں مصروف
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • ساف انڈر 17 فٹبال چیمپئن شپ: پاکستان نے بھوٹان 0-4 سے شکست دیدی
  • ڈکی بھائی کی طرح انڈیا کے نامور اداکار اور سابق کرکٹرز بھی آن لائن جوئے کی تشہیر پر گرفت میں آگئے
  • کراچی بورڈ کا شفاف نتیجہ میرٹ کی فتح، دباؤ کی شکست
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟علی امین گنڈاپور
  • وزیراعظم شہباز شریف کی دوحہ میں اردن کے شاہ عبداللہ سے ملاقات