WE News:
2025-07-24@06:05:20 GMT

بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ایک پیغام موصول ہوا، ’میری نارمل ڈلیوری ہوئی، تیسرا بچہ تھا، ٹانکے تو لگے مگر شاید ٹھیک سے نہیں لگائے گئے، اب پاخانہ ویجائنا کے راستے آرہا ہے، بتائیے کیا کریں؟‘

کیا کہیں؟ کیسے کہیں کہ یہ نارمل زچگی کا تاوان ہے، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟

عالم یہ ہے کہ نارمل زچگی کیوں نہیں؟ نارمل زچگی ہونی چاہیے، کا وظیفہ ہر طرف پڑھا جارہا ہے اور وہ لوگ بھی پڑھ رہے ہیں جنہیں گائنی کی ’الف ب‘ کا بھی نہیں پتا۔

بس جانتے ہیں تو یہ کہ صدیوں سے یہی ہوتا چلا آیا ہے، صدیوں کی بات کریں تو ہم بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا صدیوں پہلے انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تھا جنہیں آج سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی جدا ہونے کو تیار نہیں، بلکہ اب تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تب زندگی کیسے گزرتی تھی؟

نارمل ڈلیوری اس قدر گلیمیرائزڈ کردی گئی ہے کہ کوئی بھی اس سے وابستہ نقصانات کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ شاید اس لیے بھی کہ جس ہستی کا جسم اس ٹوٹ پھوٹ سے گزرتا ہے اس کی ذات اہم سمجھی ہی نہیں جاتی۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ وہ ویجائنا جو ازدواجی تعلق میں تنگ محسوس ہوتی ہے اور عورت کو تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے وہاں سے تین چار کلو کا بچہ کیسے نکلتا ہوگا؟

ڈھائی تین انچ کا سوراخ اور چھوٹے فٹ بال جتنا سر، کیسے؟ کیا ہوتا ہوگا؟

جواب ہے۔۔۔چھوٹا آپریشن۔۔۔۔اور چھوٹے آپریشن کو تو کوئی کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ زیادہ تر خیال کرتے ہیں کہ شاید جلد پہ کوئی چھوٹا سا کٹ، ایسا ہر گز نہیں۔ اس کٹ کو ویجائنا کی ایک دیوار میں لگایا جاتا ہے اور اس میں صرف جلد ہی نہیں کٹتی بلکہ ویجائنا کی دیوار میں موجود سب مسلز کاٹے جاتے ہیں، چھوٹے آپریشن کا مقصد ویجائنا کے سوراخ کو بڑا کرنا ہے تاکہ بچہ باہر نکل سکے۔

چھوٹے آپریشن کی سلائی تین تہوں میں کی جاتی ہے اور اس میں بھی کچھ تکنیکی معاملات ہوتے ہیں کہ کس مسل کو کیسے سیا جائے؟ ویجائنا کو جوڑنا کیسے ہے؟ لیکن بسا اوقات سلائی ایسی ہوتی ہے کہ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔

کچھ لوگ فوراً یہ پوچھیں گے کہ گاؤں میں رہنے والی عورت کیا کرتی ہوگی جہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے؟ جواب یہ ہے کہ کٹ نہیں دیا جاتا تو زیادہ تر کیسز میں ویجائنا پھٹ جاتی ہے، کبھی باہر سے، کبھی اندر سے اور کبھی اندر باہر سے۔ درد زہ اس قدر تیز ہوتے ہیں کہ بچے دانی بچے کو مسلسل نیچے کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے۔ اب بچے نے تو باہر نکلنا ہی نکلنا ہے سو ویجائنا پھٹ کر بچے کو راستہ دیتی ہے۔

پھٹی ہوئی ویجائنا کی سلائی کون کرتا ہے؟

گھر والے رحم دل ہوں تو شاید کسی نزدیکی کلینک پہ لے جا کر مرمت کروا لیں، ایسا نہ ہو تو دائی ویجائنا میں کپڑا ٹھونس دیتی ہے تاکہ پریشر سے خون کا بہاؤ رک جائے۔ خون تو رک جائےگا لیکن جو کٹی پھٹی ویجائنا وجود میں آئے گی، اسے برت کر شوہر تیوریاں چڑھاتے ہوئے یہ ضرور کہے گا، تم پہلے جیسی نہیں رہیں۔ یہ کوئی سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا کہ ویجائنا ربڑ کی بنی ہوئی تو ہے نہیں کہ اسے کھینچ کر بچہ باہر نکالا اور وہ پھر ویسی کی ویسی۔

اگر ویجائنا کی اچھی طرح سلائی ہو بھی جائے تب بھی ویجائنل مسلز پہلے جیسے ٹائٹ نہیں رہتے۔ ان مسلز کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ شدید ہوتی ہے کیونکہ آخری مرحلے میں بچے کا سر دو سے تین گھنٹے ویجائنا میں رہتا ہے۔ مسلز اس قدر کھنچ جاتے ہیں کہ ان میں کچھ ریشے ٹوٹ جاتے ہیں، کچھ ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور ان میں موجود اعصاب یا نروز nerves مردہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے ویجائنا وہ نہیں رہتی جو کبھی تھی۔

ویجائنا کے ہمسائے میں پیشاب اور پاخانے کے راستے بھی ہیں اور یہ ہمسائے اس قدر نزدیک ہیں کہ ویجائنا میں ہونے والی ہر تبدیلی کا ان پر اثر پڑتا ہے۔ جب بچے کا سر ویجائنا میں ہوتا ہے، اس کے وزن کا پریشر پیشاب اور پاخانے والی جگہ پر بھی پڑتا ہے۔ اس پریشر سے کچھ نہ کچھ اعصاب ( nerves) مردہ ہوتے ہیں اور پیشاب/ پاخانے کا کنٹرول ڈھیلا ہوتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ نقصان اسی وقت ظاہر نہیں ہوتا مگر بڑھتی عمر کے ساتھ بے شمار عورتیں اپنے پیشاب اور پاخانے پہ کنٹرول کھو بیٹھتی ہیں۔

اس سے اگلا اسٹیج پاخانے والی جگہ کے پیچوں کا پھٹنا ہے۔ یہ پیچ عام حالت میں بند رہتے ہیں تاکہ ہوا اور پاخانے کا اخراج وقت بے وقت نہ ہو۔ زچگی کے دوران جب ویجائنا پھٹتی ہے تو صرف دو انچ نیچے مقعد بھی زد میں آ جاتا ہے۔

مقعد کی سلائی تکنیکی طور پہ بہت مشکل ہے اور اسے اصلی حالت میں لانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ کمزوری باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن وہ عورتیں جن میں یہ سلائی نہ ہو سکے یا ٹھیک سے نہ ہو سکے ان کی ویجائنا سے پاخانے کا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے جیسا کہ آپ نے اس پیغام میں دیکھا۔

پیشاب کے راستے کے پیچ عام طور پہ نہیں پھٹتے مگر پیچ ڈھیلے ضرور ہو جاتے ہیں اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کھانسی آئے یا چھینک، پیشاب کے قطرے نکلنے لگتے ہیں۔

ایک اور تکلیف جو زچگی کے فوراً بعد کے برسوں میں عموماً نہیں ہوتی مگر چالیس کے بعد نظر آنے لگتی ہے۔ درد زہ کا پریشر اور بچے کو باہر دھکیلنے کے عمل میں جو زور لگایا جاتا ہے، وہ بچے دانی کو اس قدر ڈھیلا کرتا ہے کہ بچے دانی اپنی جگہ سے کھسکتے کھسکتے ویجائنا کے راستے باہر نکل کر ٹانگوں کے بیچ لٹکنا شروع کردیتی ہے۔ عمر رسیدہ عورتیں گرتی پڑتی اس عالم میں اسپتال پہنچتی ہیں کہ بچے دانی کا گولا ٹانگوں کے بیچ میں ہوتا ہے اور وہ کہانی سنا رہی ہوتی ہیں کہ 6 بچے نارمل پیدا ہوئے مگر اب یہ نجانے کیسے ہوگیا؟

مزید مصیبت یہ کہ بچے دانی جب باہر آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی، اپنے ساتھ اپنے ہمسائیوں یعنی مثانے اور فضلے والی آنت کو بھی کھینچ لاتی ہے۔ اب عالم یہ ہوتا ہے کہ نہ پیشاب کا اخراج ٹھیک سے ہورہا ہوتا ہے اور نہ ہی پاخانے کا، اور اس عالم میں بھی ذہن میں آپریشن کے متعلق بٹھایا گیا خوف اس قدر شدید ہوتا ہے کہ آپریشن نہیں کروانا، کسی اور طرح ٹھیک کریں۔

نارمل زچگی میں بچے کو کس طرح نقصان پہنچتا ہے، وہ اگلے کالم میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

wenews ازدواجی تعلق بچے کو نقصان بڑا آپریشن چھوٹا آپریشن درہ زہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی زچگی نارمل ڈلیوری وی نیوز ویجائنا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ازدواجی تعلق بچے کو نقصان بڑا ا پریشن چھوٹا ا پریشن ڈاکٹر طاہرہ کاظمی زچگی نارمل ڈلیوری وی نیوز ویجائنا ویجائنا میں کہ بچے دانی اور پاخانے ویجائنا کی نارمل زچگی ویجائنا کے پاخانے کا کے راستے جاتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے ہیں اور ہی نہیں ہوتی ہے بچے کو اور اس ہے اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

 بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!

وفاقی بجٹ 2025-26 کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے یہ بلند بانگ دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا یہ بجٹ پاکستان کی کمزور معیشت کو بحال کرنے، مہنگائی کم کرنے اور صنعتی بنیاد کو سہارا دینے کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے دعووں کے برعکس یہ ریلیف اور اصلاحات فراہم کرنے کے بجائے، تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں خاص طورپر ہمارے امپورٹیڈ وزیر خزانہ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسی معیشت کی ضرورت ہے جو اعتماد اور تعاون سے چلتی ہو، نہ کہ دباؤ اور جبر سے بجٹ کے اعلان کے بعد حکومت کے اقدامات درحقیقت ان لوگوں کو ایک پیغامِ عدم اعتماد دے رہی ہے جو طویل عرصے سے قومی آمدنی کا ستون رہے ہیں۔ یہ بجٹ کاروباری برادری کو قومی ترقی میں شراکت دار کے بجائے مشتبہ افراد کے طور پر دیکھتا ہے، جنہیں نگرانی اور سزا کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدنی کا 70 فیصد سے زائد نجی شعبے سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر اس شاندار کردار کو سراہنے کے بجائے، حکومت نے مبینہ طورپر ایک جارحانہ اور مخالفانہ لہجہ اختیار کر رکھا ہے، جو سرمایہ کے انخلاء، سرمایہ کاری میں کمی اور مزید کاروباروں کے غیر دستاویزی معیشت میں منتقل ہونے کے خطرات کو جنم دے سکتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے، حالانکہ یہی معیشت میں روزگار اور جدت کے بنیادی انجن ہیں۔ اس شعبے کو نہ کوئی مؤثر ریلیف دیا گیا ہے اور نہ ہی سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، جو کہ پہلے ہی ایک پیچیدہ اور بوجھل نظام ہے۔ کاروباری برادری کی بار بار اپیلوں کے باوجود صنعتوں اور برآمد کنندگان کے لیے توانائی کی سبسڈی کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔درمیانے طبقے اور کم آمدنی والے گروپوں کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ کم از کم اجرت میں اضافے کی کوئی تجویز بھی بجٹ میں موجود نہیں، نہ ہی بنیادی اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دی گئی ہے، اور نہ ہی بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نجات دی گئی ہے اس کے برعکس بجٹ کے اعلان کے بعد پے درپے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کیاجارہاہے۔ جیسے جیسے مہنگائی گھریلو آمدنی کو کھا رہی ہے، معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک بار پھر سب سے زیادہ کمزور طبقوں پر ڈال دیا گیا ہے۔حکومت اس بجٹ کو شفافیت اور دستاویزی معیشت کی جانب قدم قرار دے رہی ہے، مگر اس کے طریقے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔معاشی بحالی دباؤ سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ اقتصادی حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک ایسا ٹیکس نظام درکار ہے جو دباتا نہیں بلکہ سہارا دیتا ہے، توڑتا نہیں بلکہ تعمیر کرتا ہے۔حقیقی اصلاحات جبر سے حاصل نہیں کی جا سکتیں، بلکہ ان کے لیے احترام، انصاف اور اعتماد ضروری ہے۔اس حقیقت کوتسلیم کرتے ہوئے ٹیکس نظام کو اس انداز میں دوبارہ ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل دستاویزات کے فروغ کے لیے مراعات دے، نہ کہ دھمکیاں۔ توجہ ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے پر ہونی چاہیے، نہ کہ بار بار انہی ٹیکس دہندگان کو نچوڑنے پر۔ ٹیکس تنازعات کا فیصلہ خود ایف بی آر کے بجائے آزاد ٹربیونلز کو کرنا چاہیے۔ اور سب سے اہم بات، کاروباری اداروں کو ایک ایسے ماحول میں کام کرنے دیا جائے جو ان کی رازداری اور مالی وقار کا تحفظ کرے۔جب ہم اپنے خطے پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں اپنے ہمسایہ ممالک کی طرف سے زیادہ ترقی پسند اور کاروبار دوست پالیسیاں نظر آتی ہیں۔ بھارت نے گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (GST) کا ایک مؤثر نظام نافذ کیا ہے جو ایک ونڈو پلیٹ فارم کے ذریعے ٹیکس کی تعمیل کو آسان بناتا ہے۔ بنگلہ دیش نے اپنی برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر ٹیکسٹائل سیکٹر کو عالمی سطح پر نمایاں کیا ہے۔ ویتنام کارپوریٹ ٹیکس کی مراعات اور صنعت و آئی ٹی سیکٹر کے لیے ہدفی امداد کے ذریعے عالمی سرمایہ کاروں کو متوجہ کر رہا ہے۔جب یہ ممالک معاشی ترقی کو فروغ دے رہے ہیں اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم کر رہے ہیں، پاکستان کا نیا بجٹ دونوں کو روکنے کا ہتھیار دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس بہتر آپشنز موجود تھیں۔ وہ SMEs کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کر سکتی تھی، ٹیکس ہالیڈیز اور اسٹارٹ اپ گرانٹس متعارف کروا سکتی تھی، اور مقامی صنعت و پیداوار کو بڑھانے کے لیے GST کم کر سکتی تھی۔ برآمدی صنعتوں کو توانائی کی سبسڈی دے کر سہارا دیا جا سکتا تھا۔ ایف بی آر کو شفاف، خدمت گزار ادارہ بنایا جا سکتا تھا، جس میں مؤثر داخلی احتساب ہوتا۔بدعنوانی کے خلاف اندرونی طور پر لڑنے کے لیے ”وسل بلوئر” نظام متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ صحت، تعلیم اور صاف پانی جیسے بنیادی شعبوں خاص طور پر دیہی علاقوں میں وسائل مختص کیے جانے چاہیے تھے تاکہ انسانی ترقی کو پائیدار بنایا جا سکے۔بدقسمتی سے، بجٹ 2025-26 اصلاحات کا خاکہ نہیں بلکہ مالیاتی آمریت کی طرف ایک قدم دکھائی دیتا ہے۔اس صورت حال کا اگر بروقت ادراک نہ کیاگیااور اصلاحی اقدامات نہ کیے گئے، تو ملک کاروباری طبقے کو خود سے دور کرنے، جدت کو کمزور کرنے، اور معاشی زوال کو مزید گہرا کرنے کے خطرات سے دوچار ہو سکتا ہے۔معاشی بحالی دھونس سے نہیں، بلکہ باہمی اعتماد، ترقی پسند قیادت اور منصفانہ حکمرانی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کو ایسے ٹیکس نظام کی ضرورت ہے جو سہارا دے، نہ کہ دباؤ ڈالے ،تعمیر کرے، نہ کہ توڑے۔ ہمیں ایک ایسے مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے جہاں کاروبار کو سراہا جائے، نہ کہ مجرم ٹھہرایا جائے اور جہاں پالیسی شراکت داری کا عکس ہو، نہ کہ سزا کا۔
پاکستان نے اس ماہ ایک اور مالی سال کا آغاز کرتے ہی بجٹ کے حوالے سے پائے جانے والے وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات کے باوجود، حکمرانوں نے عوامی جذبات کونظرانداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیا۔یہ صحیحہے کہ آج پاکستان2سال قبل کے مقابلے مجیں جب ملک کو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا تھا اور روپے کو شدید اتار چڑھاؤ درپیش تھا کافی فاصلے پر کھڑا ہے، ۔اس کامیابی کا سبب حکمرانوں کی پالیسیوں کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا سبب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام میں واپسی ہے جس نے پاکستان کو وقتی طور پر مالی استحکام دلا دیا۔مگر، عوام کے جذبات اور اقتدار کے ایوانوں کے بیانیے کے درمیان یہ خلیج ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کرتی ہے۔ اگرچہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں، لیکن ایسے نقادوں کی کمی نہیں جو ان دعووں کے خلاف ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔پاکستان کے حکمرانوں نے بارہا انتباہی اشاروں کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً 40 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 10 کروڑ افراد، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ”سب اچھا ہے” کے نعرے پر ملک کی قیادت کرنا مستقبل سے متعلق سنگین غلط فہمیوں کو جنم دے
سکتا ہے۔اس تلخ حقیقت کے ساتھ ساتھ، موسمیاتی تبدیلی کا گہرا چیلنج بھی ہے، جس کی عکاسی پاکستان بھر میں جاری بارش سے جڑے تباہ کن واقعات سے ہو رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بمشکل ہی کوئی علاقہ ایسا ہوگا جہاں مون سون کی بارشوں نے غیر متوقع اثرات نہ ڈالے ہوں۔ بدلتے موسم کے رجحانات اس بات کا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ پاکستان کی غذائی سلامتی اب خطرے میں ہے۔گزشتہ مالی سالجولائی 2024 تا جون 2025کے دوران زرعی پیداوار میں محض 0.6 فیصد کی معمولی شرح نمو اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔زراعت میں جاری نقصانات نے پاکستان کے صدیوں پرانے فصلاتی نظام کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اگر غذائی تحفظ سے جڑے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو ان کے بھیانک نتائج یقینی طور پر سامنے آئیں گے۔زراعت سے منسلک روزگار اور آمدنی کے بے شمار مواقع اس شعبے کو ملکی معیشت کے لیے نہایت اہم بناتے ہیں۔ جب تک غریب کسانوں کی آمدنی میں بہتری نہیں آتی اور انہیں مؤثر تحفظ نہیں ملتا، پاکستان کو آنے والے برسوں میں ایک وسیع تر سماجی و معاشی بحران کے لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں، پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی کہ ان افراد کی حفاظت کی جا سکے جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور جن کے لیے مستقبل کی کوئی امید نہیں۔ پاکستان کا صنعتی شعبہ بھی گہرے سوالات کی زد میں ہے، خاص طور پر اس لیے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار میں 1.6 فیصد کمی آئی۔ فی الحال، پاکستان کے جاری کھاتے میں بہتری بنیادی طور پر دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جس نے ملک کو اب تک بچا کر رکھا ہوا ہے۔ تاہم، پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کی ضمانت بالآخر برآمدات میں مضبوط اور متنوع اضافے سے ہی مشروط ہونی چاہیے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے زراعت سے لے کر صنعت تک برآمدات میں تنوع پیدا کرنا ناگزیر ہے۔آخر میں، اس ہفتے تنخواہ دار طبقے کے لیے نئے سادہ ٹیکس فائلنگ نظام کی رونمائی پر کی گئی سرکاری تشہیر پر بھی نظرثانی ضروری ہے۔ ٹیکس محصولات میں سب سے بڑی کمی پاکستان کے پہلے سے ہی بوجھ تلے دبے تنخواہ دار طبقے میں نہیں بلکہ ان اہم شعبوں میں ہے جو یا تو انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کرتے یا اپنی حیثیت سے کہیں کم ادا کرتے ہیں۔بارہا پاکستان کو ایسے خلا کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جو ریاستی رٹ نافذ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ لیکن اب جب کہ پاکستان کو اقتصادی میدان میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے، ماضی کی غلطیوں کو درست کر کے ایک بہتر مستقبل کی طرف بڑھنا ناگزیر ہے۔بالآخر، پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت کا انحصار ان اصلاحات پر ہے جو طویل عرصے سے التوا کا شکار ہیں۔ یہ اصلاحات اسی وقت کامیاب ہوں گی جب پاکستان کے رہنما واضح رہنمائی فراہم کریں گے اور خود اس پر عمل کر کے مثال قائم کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • کراچی میں بیک وقت پیدا ہونے والے 5 بچوں میں سے 2 انتقال کرگئے
  • کراچی: خاتون کے ہاں 5 بچوں کی پیدائش، 2 انتقال کرگئے
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟
  • شاہ محمود قریشی شیر پاؤ پل کیس میں بری، مقدمے کے دوران کب کیا ہوتا رہا؟
  • گلوبل وارمنگ سنجیدہ مسئلہ، اس سے بچنا ہوگا، ڈاکٹر حاجی حنیف طیب
  • پنجاب اسمبلی کے 26 معطل ارکان کی بحالی، کب کیا ہوتا رہا؟
  • رنگوں کی کاریگری: صحت اور سکون کے لیے کون سا رنگ بہترین ثابت ہوتا ہے؟
  •  بجٹ تشویش اور بے چینی کا باعث بن گیا ہے!