WE News:
2025-06-10@22:17:24 GMT

بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ایک پیغام موصول ہوا، ’میری نارمل ڈلیوری ہوئی، تیسرا بچہ تھا، ٹانکے تو لگے مگر شاید ٹھیک سے نہیں لگائے گئے، اب پاخانہ ویجائنا کے راستے آرہا ہے، بتائیے کیا کریں؟‘

کیا کہیں؟ کیسے کہیں کہ یہ نارمل زچگی کا تاوان ہے، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے؟

عالم یہ ہے کہ نارمل زچگی کیوں نہیں؟ نارمل زچگی ہونی چاہیے، کا وظیفہ ہر طرف پڑھا جارہا ہے اور وہ لوگ بھی پڑھ رہے ہیں جنہیں گائنی کی ’الف ب‘ کا بھی نہیں پتا۔

بس جانتے ہیں تو یہ کہ صدیوں سے یہی ہوتا چلا آیا ہے، صدیوں کی بات کریں تو ہم بھی پوچھ سکتے ہیں کہ کیا صدیوں پہلے انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تھا جنہیں آج سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی جدا ہونے کو تیار نہیں، بلکہ اب تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جب انٹرنیٹ نہیں تھا تب زندگی کیسے گزرتی تھی؟

نارمل ڈلیوری اس قدر گلیمیرائزڈ کردی گئی ہے کہ کوئی بھی اس سے وابستہ نقصانات کو خاطر میں ہی نہیں لاتا۔ شاید اس لیے بھی کہ جس ہستی کا جسم اس ٹوٹ پھوٹ سے گزرتا ہے اس کی ذات اہم سمجھی ہی نہیں جاتی۔

کیا کبھی کسی نے سوچا کہ وہ ویجائنا جو ازدواجی تعلق میں تنگ محسوس ہوتی ہے اور عورت کو تکلیف کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے وہاں سے تین چار کلو کا بچہ کیسے نکلتا ہوگا؟

ڈھائی تین انچ کا سوراخ اور چھوٹے فٹ بال جتنا سر، کیسے؟ کیا ہوتا ہوگا؟

جواب ہے۔۔۔چھوٹا آپریشن۔۔۔۔اور چھوٹے آپریشن کو تو کوئی کچھ سمجھتا ہی نہیں۔ زیادہ تر خیال کرتے ہیں کہ شاید جلد پہ کوئی چھوٹا سا کٹ، ایسا ہر گز نہیں۔ اس کٹ کو ویجائنا کی ایک دیوار میں لگایا جاتا ہے اور اس میں صرف جلد ہی نہیں کٹتی بلکہ ویجائنا کی دیوار میں موجود سب مسلز کاٹے جاتے ہیں، چھوٹے آپریشن کا مقصد ویجائنا کے سوراخ کو بڑا کرنا ہے تاکہ بچہ باہر نکل سکے۔

چھوٹے آپریشن کی سلائی تین تہوں میں کی جاتی ہے اور اس میں بھی کچھ تکنیکی معاملات ہوتے ہیں کہ کس مسل کو کیسے سیا جائے؟ ویجائنا کو جوڑنا کیسے ہے؟ لیکن بسا اوقات سلائی ایسی ہوتی ہے کہ کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔

کچھ لوگ فوراً یہ پوچھیں گے کہ گاؤں میں رہنے والی عورت کیا کرتی ہوگی جہاں ڈاکٹر نہیں ہوتے؟ جواب یہ ہے کہ کٹ نہیں دیا جاتا تو زیادہ تر کیسز میں ویجائنا پھٹ جاتی ہے، کبھی باہر سے، کبھی اندر سے اور کبھی اندر باہر سے۔ درد زہ اس قدر تیز ہوتے ہیں کہ بچے دانی بچے کو مسلسل نیچے کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے۔ اب بچے نے تو باہر نکلنا ہی نکلنا ہے سو ویجائنا پھٹ کر بچے کو راستہ دیتی ہے۔

پھٹی ہوئی ویجائنا کی سلائی کون کرتا ہے؟

گھر والے رحم دل ہوں تو شاید کسی نزدیکی کلینک پہ لے جا کر مرمت کروا لیں، ایسا نہ ہو تو دائی ویجائنا میں کپڑا ٹھونس دیتی ہے تاکہ پریشر سے خون کا بہاؤ رک جائے۔ خون تو رک جائےگا لیکن جو کٹی پھٹی ویجائنا وجود میں آئے گی، اسے برت کر شوہر تیوریاں چڑھاتے ہوئے یہ ضرور کہے گا، تم پہلے جیسی نہیں رہیں۔ یہ کوئی سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا کہ ویجائنا ربڑ کی بنی ہوئی تو ہے نہیں کہ اسے کھینچ کر بچہ باہر نکالا اور وہ پھر ویسی کی ویسی۔

اگر ویجائنا کی اچھی طرح سلائی ہو بھی جائے تب بھی ویجائنل مسلز پہلے جیسے ٹائٹ نہیں رہتے۔ ان مسلز کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ شدید ہوتی ہے کیونکہ آخری مرحلے میں بچے کا سر دو سے تین گھنٹے ویجائنا میں رہتا ہے۔ مسلز اس قدر کھنچ جاتے ہیں کہ ان میں کچھ ریشے ٹوٹ جاتے ہیں، کچھ ڈھیلے ہوجاتے ہیں اور ان میں موجود اعصاب یا نروز nerves مردہ ہوجاتے ہیں۔ اس سے ویجائنا وہ نہیں رہتی جو کبھی تھی۔

ویجائنا کے ہمسائے میں پیشاب اور پاخانے کے راستے بھی ہیں اور یہ ہمسائے اس قدر نزدیک ہیں کہ ویجائنا میں ہونے والی ہر تبدیلی کا ان پر اثر پڑتا ہے۔ جب بچے کا سر ویجائنا میں ہوتا ہے، اس کے وزن کا پریشر پیشاب اور پاخانے والی جگہ پر بھی پڑتا ہے۔ اس پریشر سے کچھ نہ کچھ اعصاب ( nerves) مردہ ہوتے ہیں اور پیشاب/ پاخانے کا کنٹرول ڈھیلا ہوتا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ نقصان اسی وقت ظاہر نہیں ہوتا مگر بڑھتی عمر کے ساتھ بے شمار عورتیں اپنے پیشاب اور پاخانے پہ کنٹرول کھو بیٹھتی ہیں۔

اس سے اگلا اسٹیج پاخانے والی جگہ کے پیچوں کا پھٹنا ہے۔ یہ پیچ عام حالت میں بند رہتے ہیں تاکہ ہوا اور پاخانے کا اخراج وقت بے وقت نہ ہو۔ زچگی کے دوران جب ویجائنا پھٹتی ہے تو صرف دو انچ نیچے مقعد بھی زد میں آ جاتا ہے۔

مقعد کی سلائی تکنیکی طور پہ بہت مشکل ہے اور اسے اصلی حالت میں لانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، کچھ نہ کچھ کمزوری باقی رہ جاتی ہے۔ لیکن وہ عورتیں جن میں یہ سلائی نہ ہو سکے یا ٹھیک سے نہ ہو سکے ان کی ویجائنا سے پاخانے کا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے جیسا کہ آپ نے اس پیغام میں دیکھا۔

پیشاب کے راستے کے پیچ عام طور پہ نہیں پھٹتے مگر پیچ ڈھیلے ضرور ہو جاتے ہیں اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ کھانسی آئے یا چھینک، پیشاب کے قطرے نکلنے لگتے ہیں۔

ایک اور تکلیف جو زچگی کے فوراً بعد کے برسوں میں عموماً نہیں ہوتی مگر چالیس کے بعد نظر آنے لگتی ہے۔ درد زہ کا پریشر اور بچے کو باہر دھکیلنے کے عمل میں جو زور لگایا جاتا ہے، وہ بچے دانی کو اس قدر ڈھیلا کرتا ہے کہ بچے دانی اپنی جگہ سے کھسکتے کھسکتے ویجائنا کے راستے باہر نکل کر ٹانگوں کے بیچ لٹکنا شروع کردیتی ہے۔ عمر رسیدہ عورتیں گرتی پڑتی اس عالم میں اسپتال پہنچتی ہیں کہ بچے دانی کا گولا ٹانگوں کے بیچ میں ہوتا ہے اور وہ کہانی سنا رہی ہوتی ہیں کہ 6 بچے نارمل پیدا ہوئے مگر اب یہ نجانے کیسے ہوگیا؟

مزید مصیبت یہ کہ بچے دانی جب باہر آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی، اپنے ساتھ اپنے ہمسائیوں یعنی مثانے اور فضلے والی آنت کو بھی کھینچ لاتی ہے۔ اب عالم یہ ہوتا ہے کہ نہ پیشاب کا اخراج ٹھیک سے ہورہا ہوتا ہے اور نہ ہی پاخانے کا، اور اس عالم میں بھی ذہن میں آپریشن کے متعلق بٹھایا گیا خوف اس قدر شدید ہوتا ہے کہ آپریشن نہیں کروانا، کسی اور طرح ٹھیک کریں۔

نارمل زچگی میں بچے کو کس طرح نقصان پہنچتا ہے، وہ اگلے کالم میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

wenews ازدواجی تعلق بچے کو نقصان بڑا آپریشن چھوٹا آپریشن درہ زہ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی زچگی نارمل ڈلیوری وی نیوز ویجائنا.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ازدواجی تعلق بچے کو نقصان بڑا ا پریشن چھوٹا ا پریشن ڈاکٹر طاہرہ کاظمی زچگی نارمل ڈلیوری وی نیوز ویجائنا ویجائنا میں کہ بچے دانی اور پاخانے ویجائنا کی نارمل زچگی ویجائنا کے پاخانے کا کے راستے جاتے ہیں ہوتا ہے جاتا ہے ہیں اور ہی نہیں ہوتی ہے بچے کو اور اس ہے اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کو مسلسل بجٹ خسارے کا سامنا کیوں ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بجٹ خسارہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی ملک کے اخراجات اُس کی آمدنی سے زیادہ ہو جائیں۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بجٹ خسارے کا شکار ہے، جو معیشت کے لیے ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس بلاگ میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے جو پاکستان میں مسلسل بجٹ خسارے کا سبب بن رہی ہیں۔

محدود ٹیکس ریونیو

پاکستان میں ٹیکس نیٹ بہت محدود ہے۔ ملک کی بڑی آبادی ٹیکس ادا نہیں کرتی، اور جو ٹیکس ادا ہوتا ہے، اس میں بھی زیادہ تر حصہ بالواسطہ (indirect) ٹیکسز کا ہوتا ہے جیسے سیلز ٹیکس، جو عام آدمی پر بوجھ ڈالتے ہیں۔ آمدنی پر براہِ راست ٹیکس کی وصولی کم ہے، جس کی وجہ سے قومی خزانہ کمزور رہتا ہے۔

غیر ضروری اور بلند اخراجات

حکومت کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، خاص طور پر

سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن

دفاعی اخراجات

سود کی ادائیگیاں

یہ تمام اخراجات آمدنی سے کہیں زیادہ ہو جاتے ہیں، جس سے خسارہ بڑھتا ہے۔

قرضوں پر انحصار

پاکستان نے مختلف ادوار میں اندرونی اور بیرونی قرضے لیے ہیں۔ ان قرضوں پر سود کی ادائیگی بجٹ کا بڑا حصہ لے جاتی ہے، جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں یا عوامی فلاح کے کاموں کے لیے رقم کم پڑ جاتی ہے۔

کرپشن اور ناقص گورننس

بدعنوانی، مالی بے ضابطگیاں اور ناقص گورننس کی وجہ سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں شفافیت کی کمی اور فنڈز کے غلط استعمال سے نہ صرف آمدنی کم ہوتی ہے بلکہ اخراجات بھی بے قابو ہو جاتے ہیں۔

سبسڈیز اور غیر ہدفی امداد

حکومت کئی شعبوں کو سبسڈی دیتی ہے، جیسے بجلی، گیس اور تیل۔ یہ سبسڈیز اکثر غیر مؤثر طریقے سے دی جاتی ہیں، اور ان کا فائدہ مستحق افراد تک نہیں پہنچتا۔ یہ بھی بجٹ پر اضافی بوجھ بن جاتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام

بار بار حکومتوں کی تبدیلی، پالیسیوں میں عدم تسلسل، اور سیاسی انتشار سے معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ سرمایہ کاری کم ہوتی ہے اور بجٹ کی منصوبہ بندی متاثر ہوتی ہے۔

نتیجہ

بجٹ خسارہ پاکستان کی معیشت کا ایک مستقل چیلنج ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ:

ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے،

سرکاری اخراجات پر کنٹرول کیا جائے،

قرضوں پر انحصار کم کیا جائے،

اور شفافیت اور بہتر گورننس کو فروغ دیا جائے۔

جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے، پاکستان کو مسلسل بجٹ خسارے کا سامنا رہے گا، جو ترقی اور خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دیہات کی عید۔سادگی اور اپنائیت کا تہوار
  • بجٹ عوامی فلاح کے بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط کو پورا کرنے کی ایک مشق معلوم ہوتا ہے، اسد قیصر
  • نوجوان معاشی و سماجی مشکلات کے سبب بچے پیدا کرنے سے گریزاں، رپورٹ
  • آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر
  • پاکستان کو مسلسل بجٹ خسارے کا سامنا کیوں ہے؟
  • نان فائلر گاڑی، جائیداد نہیں خرید سکیں گے،بینک اکاؤنٹ نہیں کھلے گا
  • وزیر اعظم کو سب پہلے سے پتا ہوتا ہے، تنخواہوں میں اضافے کی تجویز مسترد کرکے زیادہ اضافہ کرنے پر مفتاح اسماعیل نے اندر کی بات بتادی
  • والدین کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، اریج محی الدین
  • لاہور ریلوے اسٹیشن کے ڈسپیج آفس میں کیا ہوتا ہے؟
  • قائد اعظم کے بعد پاکستان میں بانی پی ٹی آئی جیسا مقبول لیڈر پیدا نہیں ہوا، چوہدری پرویز الہٰی