Nai Baat:
2025-09-18@13:22:17 GMT

کیا حکومت پر یقین کر لیا جائے؟

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

کیا حکومت پر یقین کر لیا جائے؟

ملک میں ٹرانسپورٹ کو بجلی سے چلنے والی گاڑیوں پر منتقل کرنے کی پالیسی کے تحت حکومت نے الیکٹرک گاڑیوں (EVs) کے 57 مینوفیکچررز کو لائسنس دے دیے ہیں، جو کہ گرین ٹرانسپورٹ سلوشنز کی طرف منتقلی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے حکومتی منصوبے میں ایک اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ قدم پاکستان کے لیے ایک صاف ستھرا، کم خرچ اور زیادہ پائیدار نقل و حمل کا نظام حاصل کرنے کے ہدف سے ہم آہنگ ہے۔ حکومت کی نیشنل الیکٹرک وہیکلز پالیسی (این ای وی پی)، جو 2019 میں منظور ہوئی تھی، اور اس کا پہلا ٹار گٹ یہ ہے کہ سال 2030 تک فروخت ہونے والی مسافر گاڑیوں اور ہیوی ڈیوٹی ٹرکوں کا تیس فیصد الیکٹرک گاڑیوں پر مشتمل ہو ا جبکہ سال 2040 تک یہ ٹار گٹ بڑھ کر 90 فیصد ہو جانے کی امید کی جا رہی ہے۔اسی پالیسی کے تحت دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے ساتھ ساتھ بسوں، ٹرکوں اور دیگر گاڑیوں کے لیے بھی اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔
مقامی ای وی کی پیداوار کو فروغ دینے کے لیے، حکومت نے 55 مینوفیکچررز کو دو اور تین پہیوں کی تیاری کے لیے لائسنس جاری کیے ہیں، جبکہ دو مینوفیکچررز کو فور وہیلر اسمبلی کے لیے لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔بجلی کے بڑھتے ہوئے انفراسٹرکچر کو سپورٹ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر چارجنگ اسٹیشن قائم کرنے کے منصوبے بھی جاری کیے گئے ہیں، جن میں فاسٹ چارجرز اور بیٹری سویپنگ اسٹیشن شامل ہیں۔ ایک ماحول دوست اور کم خرچ ٹرانسپورٹیشن کے لیے ایک طرف تو حکومت الیکٹرک گاڑیاں مینوفیکچر کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تو دوسری طرف نئی ای وی پالیسی کے تحت صارفین کو زیادہ سے زیادہ مراعات د ینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ ان مراعات میں مفت رجسٹریشن، سالانہ ٹوکن فیس سے استثنیٰ، اور ٹول ٹیکس میں چھوٹ شامل ہیں۔ای وی کو اپنانے کی مزید ترغیب دینے کے لیے اسلام آباد سمیت ہر صوبے میں الیکٹرک وہیکل زون بھی قائم کرنے کا بھی منصوبہ ہے۔ ان ترقیوں کے باوجود، ای وی کی پیداوار کی رفتار کو تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے حال ہی میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ سال 2024 کے آخر تک پاکستان میں صرف 60,000 ای وی تیار کی گئی ہیں، جو 600,000 کے ہدف سے بہت کم ہیں۔
EV کی مانگ کو بڑھانے کی کوشش میں، حکومت نے EV چارجنگ اسٹیشن آپریٹرز کے لیے بجلی کے نرخوں میں 45 فیصد کی کمی کر دی ہے۔ ٹیرف میں یہ کمی، جو لاگت کو 71.

10 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 39.70 روپے تک لے جاتی ہے، فروری کے آخر تک لاگو ہونے کی امید ہے۔ مزید برآں، وزارت توانائی ملک میں پیٹرولیم پر انحصار کم کرنے پر بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں 30 ملین سے زیادہ دو اور تین پہیوں والی گاڑیاں سالانہ 5 بلین ڈالر مالیت کا پٹرولیم استعمال کرتی ہیں۔ اپنی توانائی کی اصلاحات کے حصے کے طور پر، حکومت 10 لاکھ دو پہیہ والی گاڑیوں کو الیکٹرک بائک میں تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، جس سے ہر سال تقریباً 165 ملین ڈالر کے ایندھن کی درآمدی لاگت کی بچت ہو گی۔

حکومتی سطح پر ہونے والی چکر بازی کا شکار مجھ سمیت لاکھوں پاکستانی ہو چکے ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں اسی کی دہائی کے وسط سے لے کر نوے کی دہائی کے آغاز تک ڈیزل کی قیمت پیٹرول سے کم و بیش نصف ہوا کرتی تھی۔ اسی لالچ کے پیش نظر عوام کو اپنی گاڑیاں ڈیزل پر کنورٹ کرنے کی ترغیب دی گئی۔من پسند افراد کو بیرون ملک سے لاکھوں کی تعداد میں سیکنڈ ہینڈ ڈیزل انجن امپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی اور جب یہ سیکنڈ ہینڈ انجن فروخت کرنے کا ٹارگٹ پورا ہو گیا تو ڈیزل کی قیمت آہستہ آہستہ بڑھانی شروع کر دی گئی اور اب یہ نوبت ہے کہ ڈیزل کی فی لیٹر قیمت پیٹرول سے بھی خاصی زیادہ ہے۔

پھرنوے کی دہائی کے آخر سے لے کر دوہزار کے ابتدائی سالوں تک حکومتی سطح پر عوام کے لیے ڈیزل سکینڈل سے کہیں بڑے سی این جی سکینڈل کا جال پھیلایا گیا۔ ایک مرتبہ پھر سے درآمد شدہ لاکھوں سی این جی کٹس اور سلنڈرز عوام کو فروخت کر کے اربوں روپے بٹور لیے گئے۔ اس ایندھن کی بچت کے چکر میں لوگوں کا ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ سی این جی کی وجہ سے ان کی گاڑیوں کے انجن قبل از وقت ہی خراب ہو ئے اور انہیں انجن اوور ہالنگ کے چکر میں اچھا خاصہ نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ سستے ایندھن کے چکر میں لوگوں نے جو بچت کی تھی وہ انجن اوور ہالنگ پر لگ گئی۔
اس مرتبہ چکر بازی کا دائرہ چونکہ خاصہ وسیع تھا تو ناصرف گاڑیوں اور رکشہ مالکان سے سی این جی کٹس کے نام پرچکر بازی ہوئی بلکہ گیس فلنگ سٹیشنر کے نام پر بھی اربوں روپے وصول کر کے ملک بھر میں جگہ جگہ سی این جی فلنگ سٹیشنز کو لائسنس جاری کر دیے گئے۔ اس تمام کاروائی کے بعد ایک دن بہت مزے سے اعلان کر دیا گیا کہ ملک میں تو گھریلو صارفین اور صنعتوں تک کے لیے مناسب گیس موجود نہیں ہے لہٰذا یہ کیونکر ممکن ہے کہ گاڑیوں کی سی این جی کے لیے گیس فراہم کی جائے۔ تو یوں حکومتی سطح پر سستے ایندھن کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے اور انہیں لوٹنے کی دوسری قسط بھی ختم ہوئی۔

میں چونکہ بنفس نفیس مذکورہ بالا دونوں وارداتوں کا شکار رہا ہوں لہذا کم از کم میں تو حکومتی سطح پر سستے ایندھن اور ماحول دوست صورتحال کی دکھائی جانے والی پر کشش تصویر پر یقین کرنے سے ڈرتا ہوں۔ ماضی میں ہم نے بجلی کے بدترین بحران بھی دیکھے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب ہر ایک گھنٹہ کے بعد دو گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوا کرتی تھی۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ کل کو الیکٹرک گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر لوگوں کے اربوں روپے لگوا کر ایک دن حکومت یہ اعلان کر دے کہ ہمارے پاس تو گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے بھی بجلی نہیں ہے ہم ٹرانسپورٹ کو بجلی کیسے فراہم کر سکتے ہیں؟۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حکومتی سطح پر سی این جی کرنے کی کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

شہر میں قائم پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ

سٹی42: شہر  لاہور میں قائم پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کیا جائے گا۔

 پرائیویٹ پلاٹوں کے اندر پارکنگ سٹینڈز کو لائسنس کا اجراء کیا جائے گا اور پارکنگ لائسنس کی ہر سال تجدید کروانا ہوگی۔ ابتدائی طور پر شہر کے 242 پارکنگ سٹینڈز کی نشاندہی کر لی گئی ہے جبکہ دوسرے مرحلے میں مزید پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کیا جائے گا۔

پاکستان میں مشرق ڈیجیٹل بینک کا آغاز، امارات سے پاکستانی مفت ترسیلات زر بھیج سکیں گے  

 نجی سٹینڈز پر پارکنگ فیس سرکاری نرخ کی نسبت زیادہ ہوگی جہاں موٹرسائیکل کے لیے 30 اور گاڑی کے لیے 50 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔ سرکاری نرخ موٹرسائیکل کے 10 اور گاڑی کے 30 روپے ہیں۔ اس منصوبے سے ایم سی ایل کو لائسنس فیس کی مد میں لاکھوں کی آمدن متوقع ہے۔

 منصوبے سے قانونی و غیرقانونی پارکنگ کی بحث کا خاتمہ ہوگا۔ ایم سی ایل نے تجویز پر ہوم ورک کرکے مسودہ ڈپٹی کمشنر کو ارسال کر دیا ہے اور پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کرنے کے لیے ڈی سی کی حتمی منظوری کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
 
 

کویتی شہریت سے محروم افراد کے لیے بڑی خوشخبری

متعلقہ مضامین

  • ایم جی پاکستان کی بڑی پیشکش: الیکٹرک گاڑیوں پر 13 لاکھ روپے سے زائد کی زبردست رعایت
  • الیکٹرک گاڑیوں کیلئے چارجنگ اسٹیشنز کے قیام پر اے ای آٹو کمپنی حکام کی سندھ کے وزراء سے ملاقات
  • الیکٹرک گاڑیوں کیلیے چارجنگ اسٹیشنز کا قیام، شرجیل میمن کی چینی کمپنی کے حکام سے ملاقات
  • شہر میں قائم پرائیویٹ پارکنگ سٹینڈز کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ
  • کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی،وزیراعلیٰ سندھ
  • اوورسیز پاکستانیوں کیلئے تین استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی کر سکتے ہیں
  • حکومت کی اوگرا اور کمپنیوں کو گیس کنکشنز کی پروسیسنگ فوری شروع کرنے کی ہدایت
  • دہشتگردوں کا ملک کے اندر اور باہر پورا بندوبست کیا جائے گا،راناثنااللہ
  • پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
  • غیر قانونی اور ناقص گیس سلنڈر استعمال کرنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن