Nai Baat:
2025-09-18@12:37:55 GMT

ڈبل ڈاکٹ عدالتی نظام اور فیملی مقدمات

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ڈبل ڈاکٹ عدالتی نظام اور فیملی مقدمات

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ہو یا لوئر جوڈیشری، مقدمات کا التوا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس ’’ بیک لاگ‘‘ کو ختم کرنے کی ضرورت سے کوئی بھی انکاری نہیں ہے۔ معزز چیف جسٹس جناب یحییٰ آفریدی صاحب نے لوئر جوڈیشری میں زیرالتوا مقدمات کا بوجھ کم کرنے کیلئے بین الاقوامی طرز پر ’’ڈبل ڈاکٹ‘‘ کورٹ سسٹم لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب عدالتیں دو شفٹوں میں کام کریں گی ۔شاہ کے وقت بھی عدالتیں لگیں گی جس کا واحد مقصد مقدمات کو نمٹانا ہوگا۔شام کے وقت کا عدالتی سسٹم دیکھنے اور سننے میں تو بہت اچھا لگتا ہے اور چھوٹے اور غیر اہم مقدمات میں کارگربھی ہوسکتا ہے لیکن جب فیملی مقدمات اور ان میں بھی خاص طوپر چائلڈ کسٹڈی کے کیسز میں مقدمات کو جلد نمٹانے کے چکر میں بچوں کی ویلفیئر کا سارا تصور ہی الٹ ہونے کا بہت بڑا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔
اس نئے نظام کے حوالے سے چند تجاویز ہیں جن کو اپنا نے سے یہ نظام بہترطریقے سے کام میں لایا جاسکتا ہے کیونکہ خاندانی مقدمات بہت ہی حساسیت ،توجہ اور خاص حکمت عملی کے متقاضی ہوتے ہیں جن میں بچوں کے مستقبل کا سوال ہی بنیادی سوال بن جاتا ہے۔

خاندانی اور سرپرستی سے متعلق مقدمات، بالخصوص وہ معاملات جن میں بچوں کی تحویل کے مسائل شامل ہوتے ہیں، براہِ راست بچوں کی فلاح و بہبود اور خاندانی رشتوں کے استحکام پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان معاملات میں تیز رفتار فیصلے ضرور اہم ہیں، مگر یہ عمل انصاف کے گہرے اصولوں اور متاثرہ فریقین کے طویل المدتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر نہیں ہونا چاہیے۔ ایک مؤثر اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جو تیزی کے ساتھ ساتھ ہمدردی اور انصاف کے اصولوں پر بھی مبنی ہو۔
خاندانی تنازعات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے مصالحت اور مفاہمت کے مراحل کو مؤثر انداز میں بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ مقدمے سے پہلے اور بعد کے مفاہمتی مراحل کو ایک جامع اور منظم مصالحتی عمل کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ جج صاحبان کو خصوصی تربیت دی جائے تاکہ وہ مؤثر ثالثی اور مصالحتی عمل کو یقینی بنا سکیں۔اس کام کے لیے اے ڈی آر یا متبادل تنازعاتی حل کی تربیت بہت ضروری ہوجاتی ہے ۔فیملی مقدمات میں اے ڈی آر سسٹم کو باقاعدہ عدالتی نظام کا لازمی جز بنانے سے مقدمات کے فیصلوں اور تنازعات کے حل میں تیزی لائی جاسکتی ہے جس سے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔

بچوں کی تحویل اور ملاقات کے حوالے سے ایسے لائحہ عمل کو فروغ دینا ضروری ہے جو عملی اور بچوں کی نفسیاتی ضروریات کے عین مطابق ہو۔ والدین کے درمیان تنازعات کے باوجود بچوں کی جذباتی صحت کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے مصالحت کے ذریعے ایسے ملاقات کے شیڈول بنائے جائیں جو بچوں کے مفادات کو مدنظر رکھیں۔ مزید برآں، عدالت میں بار بار پیشی کے بجائے والدین کو گھر پر ملاقات کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ بچے ذہنی دباؤ اور غیر ضروری نفسیاتی اثرات سے محفوظ رہ سکیں۔
خاندانی مقدمات کا معیار صرف ان کی تعداد کے حساب سے نہیں بلکہ ان کے پائیدار اور مؤثر نتائج کی بنیاد پر جانچا جانا چاہیے۔ بچوں کی تحویل کے معاملات میں فیصلہ سازی محض جلد از جلد کیس نمٹانے کے اصول پر نہیں بلکہ بچے کی بہترین فلاح کو مدنظر رکھ کر ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی فیصلہ عارضی یا ناپائیدار ثابت نہ ہو۔انصاف کی بہتر فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ خاندانی مقدمات کی سماعت کرنے والے جج صاحبان کو خاندانی قوانین، بچوں کی نفسیات اور متبادل تنازعاتی حل کی تکنیکوں کی مکمل تربیت دی جائے۔ اس مقصد کے لیے خصوصی تربیتی پروگرام متعارف کرائے جائیں تاکہ جج صاحبان کو ان معاملات کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے ضروری مہارتیں حاصل ہو سکیں۔

عدالتی ماحول کو بھی مزید خوشگوار اور نفسیاتی طور پر معاون بنانے کی ضرورت ہے۔ عدالتوں میں ایسے آرٹ ورک اور حوصلہ افزا تصاویر آویزاں کی جائیں جو فریقین، بالخصوص بچوں کے لیے ایک مثبت ماحول فراہم کریں۔ انتظار گاہوں میں فریقین کو ایسے ویڈیو کلپس دکھائے جا سکتے ہیں جو انہیں غیر ضروری قانونی چارہ جوئی کے مضمرات سے آگاہ کریں اور باہمی مصالحت کی حوصلہ افزائی کریں۔
ایک مؤثر مانیٹرنگ سسٹم بھی وضع کیا جانا چاہیے جو خاندانی مقدمات کی پیش رفت کا مسلسل جائزہ لے۔ جج صاحبان کے لیے ایک مخصوص پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جہاں وہ اپنے فیصلے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں تاکہ عدالتی عمل میں تسلسل اور قانونی سوجھ بوجھ کو فروغ دیا جا سکے۔

سرگودھا میں خاندانی مقدمات کو مؤثر انداز میں حل کرنے کے جو کامیاب طریقے رائج کیے گئے ہیں، انہیں ایک جامع تحقیق کے ذریعے سمجھنا اور ان کے بہترین نکات کو پورے عدالتی نظام میں نافذ کرنا بھی ایک اہم اقدام ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا فریم ورک تیار کیا جانا چاہیے جو ان کامیاب تجربات کو ملک کے دیگر حصوں میں بھی لاگو کر سکے تاکہ پورے عدالتی نظام کو مؤثر اور فعال بنایا جا سکے۔

ڈبل ڈاکٹ کورٹ نظام خاندانی مقدمات کے حل کے لیے ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جس کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو تیز اور عام آدمی کی دسترس میں لایا جا سکتا ہے۔ تاہم، انصاف کی اصل روح یہ ہے کہ ہر فیصلہ صرف تیزی سے ہی نہیں بلکہ حکمت، شفقت اور بچوں کے بہترین مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ مصالحت کو ترجیح دے کر، تحویل سے متعلق بہتر انتظامات کر کے، اور جج صاحبان کی تربیت میں سرمایہ کاری کر کے، ہم ایک ایسا نظام قائم کر سکتے ہیں جو نہ صرف مقدمات کو جلدی حل کرے بلکہ خاندانوں میں پائیدار استحکام بھی پیدا کرے۔

اگر یہ نیا ڈبل ڈاکٹ سسٹم صرف مقدمات کے نمٹانے کے نام پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کا ہی ذریعہ بنادیا گیا تو اس سے خاندانی نطام اور فیملی مقدمات پر الٹا اثرپڑے گا ۔اس لیے اس نطام کولاگوکرنے میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ڈبل ڈاکٹ کورٹ نظام صرف مقدمات کے بوجھ کو کم کرنے کا ذریعہ نہ بنے، بلکہ پاکستان میں خاندانی انصاف کے بنیادی اصولوں کو مزید مضبوط اور مؤثر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: خاندانی مقدمات فیملی مقدمات عدالتی نظام جانا چاہیے مقدمات کے مقدمات کو مقدمات کا ڈبل ڈاکٹ بچوں کی بچوں کے کو مؤثر کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا

سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ملزم کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ میڈیکل رپورٹ اور گواہ کے بیانات میں واضح تضاد موجود ہے۔

ان کے مطابق میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مدعی کی موت 3 فٹ کے فاصلے سے چلنے والی گولی سے ہوئی، جبکہ عینی گواہ کے بیان اور وقوعہ کے نقشے کے مطابق فائرنگ کا فاصلہ 40 فٹ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ساس سسر کے قتل کے ملزم کی سزا کیخلاف اپیل مسترد، عمر قید کا فیصلہ برقرار

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ واقعہ کب کا ہے اور کیا ملزم اس وقت حراست میں ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ واقعہ 2006 میں پیش آیا اور ملزم 2012 سے حراست میں ہے۔

جسٹس علی باقر نجفی نے ریمارکس دیے کہ ملزم 6 سال تک مفرور رہا، آپ جائے وقوعہ کے نقشے پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ اسی بنیاد پر آپ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ایسا کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں جس میں صرف جائے وقوعہ کے نقشے کی بنیاد پر ملزم کو بری کیا گیا ہو۔

مزید پڑھیں: فخر زمان کو سپریم کورٹ رجسٹرار کا عارضی چارج دے دیا گیا

ملزم کے وکیل نے عدالت سے مہلت مانگی تاکہ عدالتی نظیریں پیش کی جا سکیں۔

عدالت نے وکیل کو ایک ہفتے میں عدالتی نظیریں جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے اپیل پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بری جائے وقوعہ جسٹس علی باقر نجفی جسٹس ہاشم کاکڑ سپریم کورٹ عدالتی نظیر عمر قید میڈیکل رپورٹ

متعلقہ مضامین

  • خیبر پختونخوا بار کونسل کا عدالتی بائیکاٹ کا اعلان
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • سکولز میں بچوں کے موبائل فون استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • کراچی: بچے بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے ملزم کے بارے میں علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • اسکولوں میں بچوں کے موبائل استعمال کرنے پر پابندی کی قرارداد منظور
  • کراچی، 70 بچوں، بچیوں سے زیادتی کرنیوالے سفاک شخص پر ویڈیوز فروخت کرنے کا شبہہ
  • کراچی؛ 70 بچوں، بچیوں سے زیادتی  کرنیوالے سفاک شخص پر ویڈیوز فروخت کرنے کا شبہہ
  • کسی ملزم کو عدالتی پراسیس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس