پاکستان میں صحافیوں پر حملوں اور جرائم میں 60 فیصد اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-08-31
 اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) فریڈم نیٹ ورک نے سالانہ امپیونٹی رپورٹ 2025 جاری کر دی جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں صحافیوں کے خلاف حملوں اور جرائم میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق فریڈم نیٹ ورک کی جاری کردہ سالانہ امپیونٹی رپورٹ 2025 انٹرنیشنل میڈیا سپورٹ (آئی ایم ایس) کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ امپیونٹی رپورٹ 2025: ’پاکستان کی صحافت کی دنیا میں جرم اور سزا‘ کے عنوان سے شائع یہ رپورٹ فریڈم نیٹ ورک کی سالانہ اہم اشاعت ہے، جو صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنا کے مسئلے اور اس کے تدارک کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کی صورتحال مزید بگڑ چکی ہے، صحافیوں اور دیگر میڈیا پیشہ وران کے خلاف حملوں اور جرائم میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز کے خلاف حملوں میں 60 فیصد تک تشویشناک اضافہ ہوا، ایک سال میں کل 142 کیسز دستاویزی شکل میں رپورٹ ہوئے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 60 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ عام انتخابات 2024 کے بعد صحافیوں، میڈیا پروفیشنلز کے خلاف نفرت انگیزی میں بہت اضافہ ہوا، اس کے باعث ملک کے تقریباً تمام خطے صحافت کے لیے غیر محفوظ بن گئے ہیں۔ موجودہ حکومت کے پہلے سال 30 صحافیوں، میڈیا کارکنوں کے خلاف پیکا کے تحت 36 مقدمات درج کیے گئے۔ یاد رہے کہ رواں سال کے اوائل میں پارلیمان کے ذریعے اس قانون میں ترمیم کی گئی جس سے صحافیوں کے خلاف سزا سے متعلق شقیں مزید سخت ہو گئیں۔ 36 مقدمات میں سے (پیکا) کے تحت 22،14 مقدمات پاکستان پینل کوڈ کے تحت درج کیے، ان میں بعض صحافیوں کو ایک سے زائد مقدمات کا سامنا رہا جب کہ پیکا کے تحت زیادہ تر مقدمات پنجاب میں درج کیے گئے، پاکستان پینل کوڈ کے تحت تمام مقدمات بھی پنجاب میں درج کیے گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان میں صحافیوں کے کے خلاف درج کیے کے تحت
پڑھیں:
پاکستان کاموجودہ اقتصادی ماڈل طاقتوراشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے،برطانوی ادارہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ایشیا میں امیر اورغریب کے درمیان تیزی سے بڑھتے ہوئے فرق کے نتیجے میں 50 کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا ہے ۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے امیر 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا 42 فیصد رکھتے ہیں، جو بڑی ایشیائی معیشتوں کی اوسط سے کم ہے لیکن پھر بھی یہ اتنا بڑا فرق پیدا کرتا ہے کہ منصفانہ اور پائیدار معاشرے قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
برطانوی ادارے “ آکسفیم “ جو دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن پر نظررکھتا ہے نے ”غیر مساوی مستقبل ،ایشیا کی انصاف کےلیے جدوجہد “ کے عنوان سے اپنی رپورٹ میںکہا ہے کہ امیر 10 فیصد لوگ قومی آمدنی کا 60 سے 77 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد صرف 12 سے 15 فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر 1 فیصد کے پاس تقریبا آدھی دولت ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہو چکی ہے، جب کہ چین، بھارت، انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔
رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ غریب ترین 50 فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریبا تمام ممالک میں کم ہوا ہے، سوائے بنگلہ دیش، کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، نیپال، پاکستان، فلپائن، سری لنکا، تھائی لینڈ، تیمور-لیسٹ اور ویتنام کے، ان ممالک میں بھی اضافہ کم ہے، تقریبا 1 فیصد، سوائے کمبوڈیا، ملائیشیا، میانمار، فلپائن اورایسٹ تیمور کے۔
آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امیتابھ بہار نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھا سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھا کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے، جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں ۔
ڈاکٹر عابد امان برکی پاکستان میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کےلیے موجودہ اقتصادی ماڈل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل طاقتور اشرافیہ کو فائدہ پہنچاتا ہے، جب کہ ٹیکس کا نظام غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے، جو کم اور متوسط آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب بوجھ ڈالتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوامی اخراجات زیادہ تر قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور اشرافیہ کےلیے سبسڈیوں پر خرچ ہو رہے ہیں، جب کہ صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ کے لیے بہت کم بچتا ہے۔
آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ 2022 میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا 8 فیصد تھی، جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا 2 فیصد سے بھی کم تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے، 2022 میں، جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 30 فیصد یا اس سے زیادہ تھا، جب کہ لاس اور پاکستان میں یہ تقریبا 10 فیصد تھا ۔
دنیا کے5 سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا جو 50 کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں، ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔
رپورٹ میں سی او پی 30 کی تیاری سے قبل کہا گیا ہے کہ آفات سے نمٹنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے ایشیا کو سالانہ تقریبا 1 کھرب 11 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن اسے صرف 333 ارب ڈالر ملتے ہیں اور اس کا بیشتر حصہ قرضوں کی شکل میں آتا ہے۔
امیتابھ بہار نے کہا کہ امیر ممالک اب بھی ان ممالک جیسے پاکستان میں ماحولیاتی نقصان کے لیے اپنے ذمہ داریوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہوں نے پیدا کیا ہے، رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ ڈیجیٹل فرق کو ختم کرنا ضروری ہے، جو بڑی حد تک جغرافیہ، استطاعت اور سماجی حیثیت کے ذریعے متعین ہوتا ہے۔
 استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور شروع، دوحا معاہدے پر پیش رفت کا جائزہ
استنبول میں پاک افغان مذاکرات کا دوسرا دور شروع، دوحا معاہدے پر پیش رفت کا جائزہ