PIA ملازمین کی طرح پنشنرز کا بھی خیال رکھا جائے‘ طاہر حسن
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
PIA ریٹائرڈ ایمپلائز ایسوسی ایشن (پیارے) کے پبلک ریلیشنز / پبلسٹی سیکرٹری محبوب انور نے پیارے اوورسیز کے اراکین اور احباب کے اعزاز میں ملاقات و مشاورت کے لیے عشائیہ کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر لی گئی تصویر میں وسیم اکرم (امریکہ)، سعید احمد (سابق SM دہلی)، سید رضی احمد (سابق SM ایمسٹررڈم)، سید طاہر حسن (صدر پیارے)، محمد زبیر غزالی (کینیڈا)، رحمن علی (ٹیسٹ کرکٹر)، محمد افضل الدین (امریکہ)، شاہد خان (کینیڈا)، میزبان اور ایم ناصر (کینیڈا) نمایاں ہیں۔ صدر پیارے نے PIA ریٹائریز/ پنشنرز کے لیے پیارے کی خدمات اور حقوق کے تحفظ و حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔
پی آئی اے ریٹائر ایمپلائز ایسوسی ایشن (پیارے) رجسٹرڈ کے صدر سید طاہر حسن، سینئر نائب صدر پرویز فرید، سیکرٹری جنرل محمد اعظم چوہدری اور کوآرڈینیشن سیکرٹری نثار احمد شیخ نے PIA ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے تمام ملازمین، سی بی اے یونٹی کے صدر ہدایت اللہ خان، جنرل سیکرٹری علی لاشاری اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی۔ PIA کے CEO، CHRO، CFO، GMFM اور BOD کے چیئرمین اور ممبران کے خیرسگالی جذبات اور مثبت اقدامات کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اب فوری طور پر پورے ملک میں سب سے کم پنشن پانے والے معمارانِ پی آئی کے پنشنرز کی پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے (یاد رہے کہ گزشتہ 20 سالوں میں PIA میں صرف 4 مرتبہ معمولی اضافہ کیا گیا)۔ اور اب بھی یہاں پنشن 2 ہزار روپے ماہانہ (کم از کم پنشن) ہے۔ بیوگان کو اس سے بھی کم ملتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ کم از کم پنشن 15 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی جائے اور کمیوٹ کردہ پنشن واپس کی جائے۔ خیال رہے کہ PIA اور پی آئی اے ہولڈکوکے چکر میں ڈال کر پنشنرز کے جائز حقوق یعنی پنشن، میڈیکل اور پیسج وغیرہ پر قدغن لگانے سے باز رہا جائے۔ انسانی جائز بنیادی حقوق پامال نہ کیے جائیں، PIA کے اپنے سرکلر PIACL,21/2003 (کنورژن) ایکٹ 2016ء اور SECP کے آرڈر مورخہ 3
مئی 2024ء میں حکومت اور PIA کی یقین دہانی کہ ریٹائریز کی سہولیات میں کمی نہیں کی جائے گی اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا اور تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ ان وعدوں کا پاس اور لحاظ کیا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا جائے
پڑھیں:
پاک سعودی دفاعی معاہدہ، لڑائیوں کا خیال بھی شاید اب نہ آئے
قیام پاکستان کے 4 سال بعد 1951 میں سعودی عرب پاکستان نے دوستی کا معاہدہ کیا۔ 1960 میں پاکستان میں سعودی سیکیورٹی اہلکاروں کے لیے ملٹری ٹریننگ پروگرام شروع ہوا۔ 1980 سے دفاعی معاہدوں کی بنیاد وسیع ہونی شروع ہوئی۔ پاکستانی دستوں کی سعودی عرب میں تعیناتی شروع ہوئی۔ 1988 میں پاکستان نے سعودی عرب کو چین سے بلاسٹک میزائل حاصل کرنے میں مدد کی۔
بلاسکٹ میزائل کے حصول کی کہانی بہت فلمی لگتی ہے۔ اس دوران ایک سفارتی بحران بھی پیدا ہوا جب امریکی سفیر کو سعودی عرب سے نکالا گیا۔ اسرائیلیوں کی کانپیں ٹانگتی رہیں جو امریکیوں کو پکڑ کر سیدھی کرنی پڑی تھیں۔ اس بحران کا دونوں ملکوں نے ڈٹ کر سامنا کیا۔ یہ کہانی کبھی پڑھیں تو جانیں گے کہ سعودی-پاکستان تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور یہ اتنے گہرے کیوں ہیں۔
ان میزائلوں کی سعودی عرب نے پہلی بار 2014 میں اپنے قومی دن کے موقع پر نمائش کی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس تقریب میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف مہمان خصوصی تھے۔ یہی جنرل راحیل شریف اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررازم کولیشن کو اب ہیڈ کررہے ہیں اور سعودیہ میں ہی مقیم ہیں۔
پاک سعودی تعلقات صرف دفاعی شعبے اور اسٹریٹجک معاہدوں تک محدود نہیں ہیں۔ پاکستان کو ادھار تیل کی ضرورت ہو، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہوں، زلزلہ سیلاب ہو تو سعودی ایئربرج قائم کردیتے ہیں۔ سعودی عرب میں 22 لاکھ پاکستانی مقیم ہیں۔ یہ پاکستانی سعودی عرب کی تعمیر میں کئی دہائیوں سے حصہ ڈال رہے ہیں۔ پاکستان کو آنے والی ترسیلات ذر میں سعودی عرب پہلے نمبروں پر ہے۔
حالیہ پاک-سعودی دفاعی معاہدے سے پہلے سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے وژن 2030 کو جاننا ضروری ہے۔ وژن 2030 سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا مرکز بنائے رکھنے، عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بننے اور 3 براعظموں کو جوڑنے والے تجارتی حب بننے سے متعلق ہے۔ دفاعی شعبے میں اس وژن کے اہداف بہت اہم ہیں۔
سعودی عرب زیادہ دفاعی اخراجات کرنے والے ملکوں میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ 2023 میں سعودی دفاعی بجٹ 75 ارب 81 کروڑ ڈالر تھا۔ 2030 تک دفاعی اخراجات کا 50 فیصد مقامی دفاعی صنعت سے ہی حاصل کرنے کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے۔
جنرل اتھارٹی فار ملٹری انڈسٹری بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرے گی۔ دفاعی شعبے کی سپلائی چین کا 74 فیصد انحصار مقامی انڈسٹری پر شفٹ کرے گی۔ ڈرون، سائبر سیکیورٹی اور مصنوعی ذہانت پر مبنی دفاعی نظام ترتیب دیے جائیں گے۔
اب تک دفاعی اور اسٹریٹجک معاہدوں میں پاکستان حرمین کے دفاع اور سعودی سیکیورٹی کے لیے دستے فراہم کرنے کا پابند تھا۔ اب نئے معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس ایک جملے نے شریکوں کو اگ لگا دی ہے اور ان کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
انڈیا کا ابتدائی بیان محتاط انداز کا ہے کہ ہم معاہدے کی مانیٹرنگ اور تجزیہ کر رہے ہیں۔ اس کا جائزہ لیں گے اور معاہدے کے علاقائی استحکام پر اثرات کو دیکھیں گے اور اپنے نیشنل انٹرسٹ میں تحفظ کریں گے۔ اس کا جواب جنوبی ایشیا کے امریکی ماہر مائیکل کگلمین کی ٹویٹ سے کچھ یوں آیا کہ اس معاہدے کا کوئی اثر پاک-بھارت تناؤ پر تو پڑتا دکھائی نہیں دیتا البتہ چین، ترکی اور سعودی عرب اب واضح طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کے ساتھ بس اب تیرا کیا بنے گا کالیا ہی لکھنے کی کسر تھی۔
اسرائیلی سائٹ یروشلم پوسٹ نے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ بتاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کس طرح نئے اتحاد بنانے کا سوچ رہا ہے۔ اس معاہدے نے اسرائیل کے لیے صورتحال بہت پیچیدہ کردی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے آنسو ابراہام اکارڈ کے مستقبل کا سوچ کر بہہ رہے ہیں۔ اس سائٹ کا کہنا ہے کہ امن معاہدہ تو امریکا نے کرایا تھا۔ اب مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا نیا پلیئر یعنی پاکستان داخل ہوگیا ہے جو اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔
پاکستان کی ایک سیکیورٹی ڈاکٹرائین بھی ہے۔ آپ کا دھیان اس سے کسی سوہنی مٹیار کی طرف جارہا ہوگا تو بنتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق فارن ریزرو، انرجی، واٹر اور فوڈ سیکیورٹی سب اس ڈاکٹرائن کا حصہ ہیں۔ اب دوبارہ سعودی ویژن 2030 دیکھیں کہ وہ کس قسم کی دفاعی خود کفالت کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ہماری ڈاکٹرائن اور ان کا خودکفالت پروگرام مل کر کس قسم کے چن چڑھا سکتے ہیں۔ ویسے ہی چن جن پر پھر شاعروں نے چن میرے مکھنا قسم کے گیت لکھے ہیں۔
عرض یہ ہے کہ اس معاہدے کے مطابق کسی ایک ملک پر حملہ دونوں ملکوں پر حملہ تصور ہوگا۔ اس کے نتیجے میں جو نیو نارمل سامنے آئے گا وہ یہ ہوگا کہ اب حملے اور جنگ وغیرہ کا کسی کو خواب اور خیال گھٹ ہی آئیں گے۔ اس لیے لڑائی کی باتیں سوچیں اور کام پر توجہ دیں کہ ابھرنے والے نئے امکانات اور معاشی سرگرمیوں میں اپنے لیے گوڈ فٹ قسم کے آپشن تلاش کریں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔