ڈیئر انڈیا! کیا آپ کے میچ میں بھی لائٹس پاکستان نے ہی بند کی تھیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
انڈیا اور انگلینڈ کے دوسرے ون ڈے میچ کے دوران فلڈلائٹس بند ہوگئیں جس کے باعث کھیل کو 35 منٹ تک روکنا پڑا، جو بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا اور اس کو اس پرشدید تنقید کا سامنا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ نیوزی لینڈ کے آل راؤنڈر رچن روندرا کی پاکستان کے خلاف میچ میں ہیڈ انجری کی وجہ قذافی اسٹیڈیم کی ’خراب لائٹس‘ کو قرار دے رہے تھے لیکن انڈیا کی ریاست اڑیسہ میں انڈیا اور انگلینڈ کے درمیان جاری میچ کے دوران فلڈ لائٹس 3 مرتبہ بند ہوئیں۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے انڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
نصیر اعوان لکھتے ہیں کہ لاہور میں پاکستان نیوزی لینڈ والے میچ میں جب نیوزی لینڈ کے کھلاڑی کو ماتھے پر گیند لگی تو انڈین میڈیا نے کہا کہ گراؤنڈ میں لگی فلڈ لائٹس غیر معیاری تھیں۔ اور آج ان کے اپنے گراؤنڈ میں انڈیا اور انگلینڈ کے میچ کے دوران لائٹس کی حالت دیکھیں ذرا۔
کل لاہور میں پاکستان نیوزی لینڈ والے میچ میں جب نیوزی لینڈ کے کھلاڑی کو ماتھے پر گیند لگی تو انڈین میڈیا نے کہا کے گراؤنڈ میں لگی فلڈ لائٹس غیر معیاری تھیں۔
اور آج ان کے اپنے گراؤنڈ میں انڈیا اور انگلینڈ کے میچ کے دوران لائٹس کی حالت دیکھیں زرا —-!
???????????? pic.
— Naseer Awan(نصیر اعوان) (@MNasAwan555) February 9, 2025
سلیم خالق نے طنزاً لکھا کہ ڈیئر انڈیا! کیا آج آپ کے میچ میں بھی لائٹس پاکستان نے ہی بند کی تھیں ؟
ڈیئر انڈیا کیا آج آپ کے میچ میں بھی لائٹس پاکستان نے ہی بند کی تھیں ؟ ????
— Saleem Khaliq (@saleemkhaliq) February 9, 2025
ایک صارف نے لکھا کہ انڈیا اور انگلینڈ کے میچ کے دوران فلڈ لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے میچ روک دیا گیا۔ یہ وہ احمق تھے جو بغیر کسی وجہ کے قذافی سٹیڈیم کی جدید ترین لائٹوں پر تنقید کر رہے تھے۔
Match stopped due to failure of flood lights. These were the idiots crying over state of art Gaddafi stadium lights for no reason. #INDvENG pic.twitter.com/GDCIDz2DIe
— Dr F N. (@boredtweeple) February 9, 2025
کرکٹ کے ایک پیج نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ کیا کوئی کسی الیکٹریشن کو جانتا ہے؟
"If anyone knows an electrician?" ????@Swannyg66 seeing the funny side of a dodgy floodlight stopping play ❌ pic.twitter.com/duJu4kywi7
— Cricket on TNT Sports (@cricketontnt) February 9, 2025
ایک ایکس صارف نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) پرانی فلڈ لائٹس بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کو عطیہ کر سکتا ہے۔
Pcb can donate old floodlights to bcci
— قلندر شریف (@WishMaster_0) February 9, 2025
ایک صارف نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے کہا کہ براہ کرم بی سی سی آئی کو کچھ رقم عطیہ کریں کیونکہ وہ نئی فلڈ لائٹس نہیں خرید سکتے یا پھر انہیں کچھ چینی فلڈ لائٹس بھیجیں جیسے ہم قذافی اسٹیڈیم میں استعمال کر رہے ہیں ۔
.@MohsinnaqviC42, please donate some money to @BCCI—they can’t afford new floodlights. Or maybe send them some Chinese floodlights like the ones we’re using at Gaddafi Stadium.#INDvENG
— The PCT Army.???????? (@thepctarmy0) February 9, 2025
واضح رہے کہ بھارتی ریاست اڑیسہ کے شہر کٹک میں کھیلے جانے والے دوسرے ون ڈے میں اُس وقت فلڈلائٹس بند ہوگئیں جب بھارت 305 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ کررہا تھا۔ 7 ویں اوور کے آغاز سے قبل ہی ایک پول کی متعدد لائٹس بند ہوئیں اور پھر پہلی گیند کے بعد پول کی ساری لائٹس بند ہوگئیں جس کے باعث میچ روکنا پڑا۔
لائٹس بند ہونے کے بعد کئی منٹ تک کھلاڑی فیلڈ میں انتظار کرتے رہے اور لائٹس ٹھیک نہ ہونے پر ڈریسنگ روم چلے گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک میچ رکا رہا اور فلڈلائٹس آن ہونے پر کھلاڑی فیلڈ میں واپس آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈیا بمقابلہ انگلینڈذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میچ کے دوران نیوزی لینڈ لینڈ کے میچ میں کے میچ
پڑھیں:
میری بوا مہرو!
جوں ہی میں بوا کے گھر کے دروازے پہ پہنچا، دروازہ کھلا پایا۔ رات کے پونے تین بج رہے تھے؛ اور، دروازہ کھلا تھا! میں داخل ہوگیا۔ حدِ وحشت کو چھوتی ہوئی خامشی اور رات کا پچھلا پہر، مجھ پر کسی پہاڑ کی طرح ٹوٹتا محسوس ہوا۔
میں گھر کی لابی میں داخل ہوا ہی تھا کہ سرد ہوا کے جھونکے نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا اور مجھے ایک مانوس سی خوشبو اپنے گرد مہکتی محسوس ہونے لگی۔ یہ بوا مہرو کی خوشبو تھی، اس کے گھر کی خوشبو، میرے گھر کی خوشبو، جو مجھ سمیت میرے خانوادے کا اثاثہ رہی ہے۔ سامنے سنگھار تھا، خاموش، اور شاید میں نے اس کی خاموشی کو پڑھ لیا تھا۔
بوا مہرو اپنی آخری سانسیں لے چکی تھیں۔ سنگھار نے مجھے بتایا کہ میں گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ بوا مہرو کے دنیاوی سفر کی آخری ساعتیں تھیں اور وہ اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملیں۔ مجھے لگا کہ شاید ان کو میرے آنے کا ہی انتظار تھا! یا شاید یہ میری خام خیالی تھی اور ان کو اس مخصوص وقت پہ جانا ہی تھا! میرا اُسی وقت گھر میں داخل ہونا محض ایک اتفاق تھا؛ ہاں مگر ایک بات تو طے تھی، بوا مہرو کی ہم بچوں میں جان رہتی تھی اور جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ سب اکٹھے ہوگئے ہیں تو وہ اپنے ابدی زندگی کی طرف چل پڑی ہوں گی۔ بہرحال اس لمحے میری زندگی سمٹ کے ایک نکتے پہ آن کھڑی ہوئی اور یادوں کا تانتا بندھ گیا۔
بڑے علم کے پاس ہمارا آبائی گھر ہے۔ گھر کیا، ہماری جنت! وہ جنت ہماری دادی، جسے ہم اماں مٹھی کہتے تھے، کی وجہ سے جنت تھا۔ میرے گھر میں سورج اماں مٹھی کی آواز سے اُگتا تھا۔ اماں صبح صبح وظائف الابرار سے تلاوت کرتیں اور گھر کو برکتوں سے بھر دیتیں۔ وہ مانوس آواز آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہے اور میرے کانوں میں رس گھولتی ہے۔
کئی بار صبح صبح میرا ذہن، لاشعوری طور پر، میرے آبائی گھر کے صحن کی آغوش بیدار ہوتا ہے؛ وہی دھیمی آواز میں تلاوت، وہی مانوس خوشبو، میرے گھر کی خوشبو! ہماری شامیں بھی منفرد ہوتی تھیں۔ عصر سے مغرب تک محلے کی بچیاں مفت ٹیوشن کےلیے آتیں اور سبق دیا جاتا۔ یہ تھا ہمارا گھر، آپا خیرالنساء کا گھر۔ آپا خیرالنساء جس نے اپنی علم کی وارث بوا مہرو کو بنایا تھا اور وہ وعدہ بوا مہرو اپنی آخری سانس تک نبھاتی رہیں۔ ان دو عورتوں نے اپنی بہنوں، شاہدہ، شہناز اور تسلیم کے ساتھ مل کر علم و شعور کی شمعیں روشن کیں، جن سے کئی خاندان منور ہوئے۔ یوں ہمارا گھر پہلے آپا خیرالنساء اور بعد میں آپا مہرالنساء کے گھر کے طور پر پہچانا جانے لگا اور یہ پہچان آج تک قائم ہے۔
آپا مہرالنساء نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغار درس و تدریس کے شعبے سے کیا۔ ابتدا میں وہ اس وقت کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول اور موجودہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے ایڈمنسٹریشن کے شعبے میں بطور ایس ڈی اِی او قدم رکھا۔ وہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ایس ڈی اِی او کوٹ ڈیجی تعینات ہوئیں۔ کوٹ ڈیجی ایک پسماندہ علاقہ تھا جہاں انہوں نے بچیوں کی تعلیم کےلیے گوناگوں خدمات سرانجام دیں۔ گاؤں گاؤں جانا پرائمری اسکولوں کی انسپیکشن کرنا، اساتذہ کی تربیت اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا اور تعلیمی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرنا، ان کا وتیرہ رہا۔ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے وہ ہر دل عزیز تھیں۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف اضلاع کے شعبہ تعلیم میں بطور ایس ڈی ای او، ڈی اِی او، اِی ڈی او خدمات سرانجام دیں اور آخر 2015 میں ڈائریکٹر کالجز کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔ اس کے علاوہ، آپ نے غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بھی کام کیا؛ بالخصوص بچیوں میں خود انحصاری و خوداعتمادی پیدا کرنے کےلیے اسکاؤٹنگ میں گرلز گائیڈ کے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا۔
بوا مہرو 2015 میں ریٹائر تو ہوئیں لیکن سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی نڈر گزاری۔ ہم بچوں کےلیے وہ جستجو، ہمت اور جدوجہد کے حوالے سے ایک رول ماڈل تھیں۔ مجھے لگتا رہا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا تھا۔ آپ بیمار پڑ جائیں، وہ کوئی ایسا ٹوٹکا بتاتیں کہ بیماری رفوچکر ہوجاتی۔ آپ کسی تقریب میں شریک ہونے جارہے ہوں، کپڑے نہیں ہوں، جادو کرتیں اور مناسب کپڑے آجاتے۔ آپ کی جیب خالی ہوتی، فیس کے پیسے نہیں ہوتے، وہ جادو کی چھڑی گھماتیں، آپ کی جیب میں کالج کا خرچہ بھی آجاتا اور، فیس بھی جمع ہوجاتی۔ سب سے بڑھ کر، آپ اگر کسی پریشانی سے دوچار ہوں، تمام دروازے بند ملیں اور کوئی سبیل نظر نہ آئے؛ آپ کو بوا مہرو کے پاس بیٹھ جانا ہوتا تھا اور تمام مسائل حل ہوتے محسوس ہوتے۔ بند کواڑ کھلنے لگتے اور آپ کی مشکل آسان ہوجاتی۔ یہ تھیں ہماری بوا مہرو۔ سب کی غمگسار، چارہ گر؛ سب کی مشکل کشا!
چند سال پہلے، بوا مہرو کو کینسر کا عارضہ لاحق ہوا۔ کینسر ایک ایسا مرض ہے کہ مریض کے ساتھ ساتھ اس سے پیار کرنے والے بھی شدید کرب سے گزرتے ہیں۔ بوا مہرو کی جب کیمو تھراپی ہورہی تھی تو میرا کلیجہ پھٹا جاتا۔ میں نے کئی بار ان کو دیکھ کر اپنے آنسوؤں کو پیا۔ دل چاہتا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں لیکن میرا عجیب معاملہ ہے؛ جذبات کے اظہار سے میری جان جاتی ہے اور ردعمل میں غائب ہوجاتا ہوں۔ بوا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ادھر اُدھر سے حال پوچھتا اور اپنے آپ کو تسلی دیتا۔ بوا ہمیشہ کی طرح بہادری سے لڑیں اور کینسر کو مات دے دی۔ یوں ان کی زندگی معمول پر آگئی۔ مجھے اطمینان ہوا لیکن گزشتہ سال نومبر میں ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ کینسر کا جن جو بوتل میں بند تھا، اس نے پھر اپنا غلبہ دکھانا شروع کیا اور اس کے بعد طبیعت نہیں سنبھلی، بگڑتی چلی گئی۔ بوا مہرو نے آخری سانس تک ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس بیماری میں بھی ہمیں دلاسہ دیتیں، ہماری دل جوئی کا سامان کرتیں۔ ہم انہیں اپنی آنکھوں سے گھلتا دیکھتے لیکن وہ عجیب دیومالائی طاقت کی مالک تھیں۔ ان کا جسم تو ڈھلتا جارہا ہوتا لیکن ان کی روح جواں ہوتی چلی جاتی۔ اپنے آخری سفر سے تین دن پہلے تک، جبکہ ان کو اندازہ تھا کہ اور زندگی موت کا آخری معرکہ لڑ رہی ہیں، ان کا حوصلہ پست نہیں تھا۔ وہ کراچی آنے کا پروگرام بنارہی تھیں، انہوں نے کپڑے خرید کے دینے تھے۔ انہوں نے بال بھی بنوانے تھے۔ وہ زندگی سے بھرپور تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایک بہادر لوگ دیکھے ہیں جو زندگی کو جینے کا حق ادا کرتے ہیں لیکن بوا مہرو سے بڑھ کر ابھی تک کوئی نہیں دیکھا۔
میرا آبائی گھر، صحن چھوٹا ہوگیا ہے، بوا مہرو اپنا آخری دیدار دے رہی ہیں۔ میں اور سنگھار جاتے ہیں۔ سہ پہر تین بجے جنازہ اٹھنا ہے۔ میں عجیب کشمکش سے گزر رہا ہوں۔ جس بوا نے ہمیں اپنی گود میں کھلایا، اس کو اپنے کندھوں پر لے جانے کی ذمے داری ہے۔ ہائے، یہ کیا ظلم ہے! اتنا بڑا امتحان۔ سنگھار آگے بڑھتا ہے اور آواز دیتا ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ شامل ہوجاتا ہوں، ’’ہم اماں کو لیے جارہے، اگر کسی کا کوئی قرض یا لین دین ہے تو ابھی بتا دے۔ ہم ادا کردیں گے۔‘‘ یہ کہنا تھا کہ رونے اور بین کی آواز بلند ہوتی ہے۔ بوا شہناز جملہ ادا کرتی ہیں، ’’اس پہ کس کا قرض ہوگا، یہ تو وہ ہے جو تا عمر سب کی حاجت روائی کرتی رہی ہے-‘‘ یہ سنتے ہی میں عجیب کیفیت سے گزرنے لگتا ہوں۔ کلمہ شہادت کی آواز بلند ہوتی ہے اور میرے گھر کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔