فیصل کریم کنڈی کا ملازمین برطرفی بل 2025 پر اعتراض، ترامیم کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
پشاور: گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ملازمین برطرفی بل 2025 کو مسترد کرتے ہوئے حکومت سے اس میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ یہ بل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور صوبائی حکومت کو اسے آئینی دائرے میں لانے کے لیے ضروری ترامیم کرنی ہوں گی۔ انہوں نے غیر قانونی بھرتیوں کے ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے بھرتی ہونے والے ملازمین کو اس بل سے نکالنا چاہیے۔
گورنر خیبر پختونخوا نے مزید کہا کہ ملازمین کو اپیل کے حق سے محروم کرنا آئین کے آرٹیکل 10A کی خلاف ورزی ہے، اور ماضی میں کی جانے والی قانونی بھرتیوں کو غیر آئینی قرار دینا بھی غلط ہوگا۔
انہوں نے صوبائی حکومت کو بل پر دوبارہ غور کرنے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ اس کے خلاف عدالتی چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گورنر نے کہا کہ نہ صرف ملازمین بلکہ بھرتی کرنے والے افسران بھی جوابدہ ہوں گے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک بڑا ریلیف پیکج منظور کرتے ہوئے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
نجی میڈیا کے مطابق، وفاقی کابینہ نے وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے پیش کی گئی سمری کی منظوری دے دی، جس کے تحت گریڈ 1 سے 22 تک کے تمام وفاقی ملازمین کو اس اضافے کا یکساں فائدہ حاصل ہوگا۔
یہ اضافہ سرکاری ملازمین کی بڑھتی ہوئی رہائشی مشکلات اور کرایوں میں اضافے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس فیصلے سے وفاقی اداروں میں تعینات سیکڑوں سرکاری اہلکاروں کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا، تاہم اس سے قومی خزانے پر تقریباً 12 ارب روپے سالانہ کا اضافی بوجھ بھی پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سالوں سے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا تھا، جبکہ حالیہ معاشی صورتحال میں رہائش کے اخراجات مسلسل بڑھ رہے تھے۔ ملازمین کی جانب سے اس اضافے کا مطالبہ عرصے سے کیا جا رہا تھا، جسے اب حکومت نے تسلیم کر لیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اگرچہ ملازمین کے لیے ریلیف کا باعث ہے، لیکن وفاقی بجٹ پر اس کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ اس اضافے سے ایک طرف سرکاری عملے کی فلاح یقینی بنے گی تو دوسری طرف مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنا وزارتِ خزانہ کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔