Jang News:
2025-04-26@03:43:43 GMT

صوابی جلسے پر بانی پی ٹی آئی بہت خوش تھے، بیرسٹر گوہر

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

صوابی جلسے پر بانی پی ٹی آئی بہت خوش تھے، بیرسٹر گوہر

فائل فوٹو۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ صوابی جلسے پر بانی پی ٹی آئی بہت خوش تھے، صوابی جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ 

راولپنڈی میں اڈیالا جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا 8 فروری عام انتخابات کے بعد پہلی دفعہ اتنے لوگ نکلے، ہم اپنا مینڈیٹ کبھی نہیں بھولیں گے۔ 

انھوں نے کہا صوابی کا جلسہ تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا، ووٹ اور مینڈیٹ جمہوریت کی بنیاد ہے، ہمارا ایک ہی رابطہ ہوا تھا اس کے بعد ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ 

بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا رابطے نہیں ختم ہونے چاہئیں، دھیمے انداز سے آگے بڑھتے تو سیاسی حل ڈھونڈا جاتا۔ پی ٹی آئی ایک سیاسی پارٹی ہے، ہم سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ 

انھوں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیز سے ہمارا رابطہ ہوگا، پرامن طریقے سے ہم اس عمل کو آگے بڑھاتے رہیں گے۔ 

بیرسٹر گوہر نے کہا مولانا فضل الرحمان ہمارے ساتھ ابھی تک الائنس میں نہیں، کوشش ہے مولانا ہمارے ساتھ ہوں، آٹھ فروری کو جو مینڈیٹ چوری ہوا اس پر کوئی کمیشن نہیں بن سکا۔

یہ بھی پڑھیے بیرسٹر گوہر و علی ظفر کا بھی جوڈیشل کمیشن اجلاس کا بائیکاٹ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت بھی جلسے میں کارکنوں تعداد سے ناخوش

انھوں نے کہا ہم نے پٹیشن فائل کی اس پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، دو ممبر الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمیشن ریٹائر ہو چکے ہیں۔ 

بیرسٹر گوہر نے کہا بدقسمتی سے 26ویں ترمیم کے تحت وہ آج بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن میں نئے ممبران کا فیصلہ نہیں ہو رہا۔ 

انھوں نے کہا ہماری کوشش ہوگی الیکشن کمیشن میں غیر جانبدار لوگ آجائیں، ججز نے بھی خط لکھا، سب کہہ رہے ہیں سپریم کوٹ کےججز کو روک لیں جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن انھوں نے کہا بیرسٹر گوہر

پڑھیں:

الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار

لاہور:

ہائیکورٹ نے الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب ریٹرننگ آفیسر کے فرائض انجام دینے والے سول جج کو نوکری سے برطرف کرنے کا فیصلہ درست قرار دیدیا ۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ اصل نتائج کو جاری کرنے کے ایک ماہ بعد نتائج کو تبدیل کیا گیا۔ مختلف پولنگ اسٹیشنز پر جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں کو کم کیا گیا۔

فیصلے میں لکھا گیا کہ جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں  کو ہارنے والے امیدواروں میں تقسیم کر دیا گیا اور  ایک گواہ کے مطابق انکوائری شروع ہونے پر سول جج نے شکایت کنندہ سے خدا کے نام پر معافی مانگی۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر نے گواہی دی کہ الیکشن کے ریکارڈ میں جعل سازی کی گئی۔  ٹریبونل کے سامنے سوال تھا کہ کیا سول جج کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ڈکلیئر ہو چکے رزلٹ کو تبدیل کر سکے ؟۔ ٹریبونل کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا یہ مس کنڈکٹ ہے؟ اور کیا اپیل کنندہ کو اس بنا پر سروس سے نکالا جا سکتا ہے؟۔

فیصلے کے مطابق سول جج کی جانب سے نتائج کی تیاری کے 4 دن بعد الیکشن ٹریبونلز قائم کر دیے گئے تھے، مگر سول جج نے 23 دنوں بعد نتائج تبدیل کرتے ہوئے فارم الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ سول جج نے کس قانون کے تحت یہ عمل کیا جب کہ الیکشن تنازعات صرف الیکشن ٹریبونل حل کرتا ہے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سول جج کی جانب سے مخالف فریق کو اس حوالے سے کوئی بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ سول جج کی جانب سے ڈی آر او کے بجاے نتائج براہ راست صوبائی الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے۔ عدالت مختلف عدالتی نظیروں کے بعد موجودہ درخواست کو خارج قرار دیتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ سول جج شیخ علی جعفر نے اپیل کے ذریعے 2015 کے دو آرڈرز کو چیلنج کیا۔ شیخ علی جعفر کو نوکری سے برخاست کیا گیا اور بعد ازاں نمائندگی بھی مسترد کردی گئی۔ سول جج کو شاہ کوٹ تحصیل میں یونین کونسل کے الیکشن کے لیے ریٹرننگ افسر تعینات کیا گیا۔

فیصلے کے مطابق الیکشن میں امیدوار اصغر علی اصغر کامیاب ہوا جب کہ سول جج کی جانب سے امیدوار مقبول احمد جاوید کو کامیاب قرار دے دیا گیا۔ امیدوار اصغر علی اصغر نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کو ایک شکایت درج کروائی۔ ڈی آر او کے ایک خط پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ نتیجہ چیک کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔ الیکشن کمیشن کو اس بابت رپورٹ ارسال کی گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک شکایت کا اندراج کروایا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے مارچ 2006 میں سول جج شیخ علی جعفر کو عہدے سے برخاست کر دیا۔ سروس ٹریبونل نے اکتوبر 2008 میں برخاستگی کا آرڈر معطل کردیا اور اعلیٰ عدلیہ نے ٹریبونل کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اعلیٰ عدلیہ نے آبزرویشن دی کہ مس کنڈکٹ کا الزام بغیر باقائدہ انکوائری کے ثابت نہیں ہو سکتا۔

متعلقہ اتھارٹی نے انکوائری کے بعد سول جج کو جون 2015 میں پھر سے سروس سے خارج کردیا۔ سول جج نے محکمانہ اپیل دائر کی جسے ستمبر 2015 میں خارج کردیا گیا ۔

سول جج کے وکیل کے مطابق الیکشن کے معاملات میں شکایت الیکشن کمیشن کے پاس درج کروانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن خود کارروائی کر سکتا ہے یا پھر سول جج کے اپنے محکمے کو شکایت بھیج سکتا ہے۔ سول جج کے خلاف شکایت ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ کے سامنے آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہائیکورٹ سے عمران خان و بشریٰ بی بی کے کیسز میرٹ پر سننے کی استدعا کرینگے: بیرسٹر گوہر
  • بیرسٹر گوہر سے امریکی نائب سفیر کی ملاقات، رابطے بحال رکھنے پر اتفاق 
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • پی ٹی آئی بھارت کے بے بنیاد الزامات کی شدید مذمت کرتی ہے، بیرسٹر گوہر
  • پاکستان اپنے دفاع کا پورا حق اور صلاحیت رکھتا ہے، بیرسٹر گوہر
  • چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے امریکی نائب سفیر کی ملاقات
  • الیکشن میں بطور ریٹرننگ افسر دھاندلی کے مرتکب سول جج کی برطرفی کا فیصلہ درست قرار
  • چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سے امریکی نائب سفیر کی ملاقات 
  • بانیٔ پی ٹی آئی کب رہا ہوں گے۔..? سابق صدرِ عارف علوی بھی بول پڑے۔
  • الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا،چیف الیکشن کمشنر