ماہرہ خان کو بولڈ تصاویر اور ویڈیوز پر تنقید کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)’سپر اسٹار‘ ماہرہ خان کو حال ہی میں انسٹاگرام پر بولڈ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرنے پر تنقید سامنا ہے۔
اداکارہ نے چند دن قبل ساحل سمندر پر کرائے گئے اپنے فوٹوشوٹ کی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیں، جن میں انہیں سرخ اور نارنجی رنگ کے لباس میں دیکھا گیا۔
تصاویر اور ویڈیوز میں اداکارہ نے سرخ اور نارنجی رنگوں کے امتزاج کی ساڑھی پہن رکھی تھی اور انہوں نے لباس کی مناسبت سے میک اپ بھی کر رکھا تھا۔
اداکارہ کی جانب سے شیئر کرہ تصاویر اور ویڈیوز کو کافی سراہا گیا، لوگوں نے ان کی خوبصورتی اور اداؤں کی تعریفیں بھی کیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Mahira Khan (@mahirahkhan)
اداکارہ کی تعریفیں کرنے والے صارفین نے ماہرہ خان کو برے کمنٹس پر توجہ نہ دینے کا مشورہ بھی دیا اور انہوں نے اداکارہ کے انداز اور اداؤں کو خوب پسند کیا۔
جہاں صارفین نے ماہرہ خان کے لباس اور اداؤں کو پسند کیا، وہیں سوشل میڈیا صارفین نے ان کے انداز کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا اور انہیں بولی وڈ اور بھارتی اداکاراؤں کی کاپی کرنے کی کوشش قرار دیا۔
View this post on Instagram
A post shared by Mahira Khan (@mahirahkhan)
سوشل میڈیا صارفین میں سے بعض صارفین نے ماہرہ خان کو بنگالی، بعض نے گجراتی تو بعض نے بھارتی اداکاراؤں جیسا قرار دیا۔
صارفین نے ان کے لباس اور انداز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا کہ اداکارہ اس لباس میں پاکستانی سے زیادہ دوسرے خطے کی اداکارہ لگتی ہیں۔
ماہرہ خان کی جانب سے شیئر کردہ تصاویر میں سے بعض تصاویر میں ساڑھی سے ان کے جسم کے بعض حصے دکھائی دیے، جس وجہ سے لوگوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔
تصاویر اور ویڈیوز میں ماہرہ خان ساحل سمندر پر بھیگی رات پر رومانوی انداز میں ٹہلتی دکھائی دیتی ہیں۔
View this post on InstagramA post shared by Mahira Khan (@mahirahkhan)
مزیدپڑھیں:وزیر اعلیٰ کے پی نے گورنر سے سرکاری جامعات کی چانسلر شپ لے لی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تصاویر اور ویڈیوز ماہرہ خان کو صارفین نے
پڑھیں:
یوٹیوب پر 20 سال کے دوران کتنی ویڈیوز اپ لوڈ ہو چکی ہیں؟ حیران کن انکشاف
دنیا کا سب سے بڑا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب نے بدھ کے روز یہ خوشخبری دی کہ اب تک اس پر 20 ارب سے زائد ویڈیوز اپلوڈ کی جا چکی ہیں۔ یہ سنگ میل اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ یوٹیوب، جو ایک سادہ سی ڈنر پارٹی کی گفتگو سے شروع ہوا، آج ایک عالمی ڈیجیٹل طرزِ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے اور امریکا میں کیبل ٹی وی سے زیادہ دیکھے جانے والا ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔
یوٹیوب کا خیال 2005 میں پی پال کے تین ساتھیوں، اسٹیو چین، چیڈ ہرلی، اور جاوید کریم، کے ذہن میں اُس وقت آیا جب وہ ایک ڈنر پارٹی میں شریک تھے۔ ویلنٹائن ڈے، یعنی 14 فروری 2005 کو یوٹیوب ڈاٹ کام کا ڈومین رجسٹر ہوا، اور 23 اپریل کو جاوید کریم نے پہلا ویڈیو ’Me at the Zoo‘ اپلوڈ کیا، جس میں وہ سان ڈیاگو چڑیا گھر کے ہاتھیوں کے سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ 19 سیکنڈ کی ویڈیو اب تک 34 کروڑ 80 لاکھ بار دیکھی جا چکی ہے۔
2005 سے لے کر 2025 تک، یوٹیوب نے وہ ترقی کی ہے جو اس وقت شاید کوئی سوچ بھی نہ سکتا۔ آج روزانہ تقریباً 2 کروڑ ویڈیوز یوٹیوب پر اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ یہ پلیٹ فارم ہر قسم کے مواد سے بھرپور ہے، کنسرٹ کلپس، پوڈکاسٹس، سیاسی اشتہارات، تعلیمی ٹیوٹوریلز، تفریح، اور نجی وی لاگز شامل ہیں۔
یوٹیوب نے ناظرین کے وقت اور اشتہارات کی آمدنی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ویڈیو پلیٹ فارم بننے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ مارکیٹ تجزیہ کار راس بینس کے مطابق یوٹیوب اگلے دو سالوں میں امریکہ کے تمام کیبل ٹی وی نیٹ ورکس کو پیڈ سبسکرائبرز کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دے گا۔
صرف ٹی وی سیٹس پر یوٹیوب کی یومیہ ویورشپ ایک ارب گھنٹوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ گوگل کے مطابق اس سال گرمیوں میں یوٹیوب ٹی وی ویوئنگ کے تجربے کو مزید بہتر بنانے کے لیے نئے فیچرز اور کوالٹی اپ گریڈز متعارف کرائے گا۔
مارکیٹ ٹریکر ’Statista‘ کے مطابق یوٹیوب کے میوزک اور پریمیم سروسز کے 100 ملین سے زائد سبسکرائبرز ہو چکے ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر 2024 میں پلیٹ فارم نے 2.5 ارب سے زائد عالمی صارفین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
یوٹیوب کا اصل عروج اُس وقت شروع ہوا جب 2006 میں گوگل نے اسے 1.65 ارب ڈالر کے شیئرز کے بدلے خرید لیا۔ گوگل کی سرچ اور اشتہاری مہارت نے یوٹیوب کو تخلیق کاروں کے لیے ایک فائدہ مند پلیٹ فارم بنا دیا، جہاں تخلیق کار اپنی مقبول ویڈیوز سے آمدنی کما سکتے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ، انہوں نے اسٹوڈیوز کے ساتھ معاہدے کر کے کاپی رائٹ مسائل کو حل کیا اور پلیٹ فارم کو ایک قانونی اور محفوظ مقام بنانے کی کوشش کی۔
آج یوٹیوب نہ صرف نیٹ فلکس، ڈزنی، اور ایمازون پرائم جیسے اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ مختصر ویڈیو ایپس جیسے ٹک ٹاک اور انسٹاگرام ریلس جیسے مختصر ویڈیوز والے پلیٹ فارمز سے بھی مقابلہ کر رہا ہے۔
تجزیہ کار راس بینس کے مطابق، ’اگر آپ 20 سال پیچھے جائیں، تو یہ تصور مضحکہ خیز لگتا کہ بچے جو پیروڈی ویڈیوز بنا رہے تھے، وہ ایک دن ڈزنی، ABC اور CBS جیسے اداروں کے لیے خطرہ بن جائیں گے، لیکن یوٹیوب نے یہ کر دکھایا۔‘
یوٹیوب کا یہ 20 سالہ سفر ایک یادگار انقلاب کی مثال ہے، ایک ایسا انقلاب جس نے دنیا کو ویڈیو کے ذریعے جوڑنے کا نیا انداز دیا، اور عام انسان کو بھی اظہارِ خیال کا عالمی پلیٹ فارم مہیا کیا۔