پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر نے کہا کہ لوگوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر جموں و کشمیر کے ریاستی درجے کی بحالی ناگزیر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر طارق حمید قرہ نے کہا کہ مرکزی زیر انتظام علاقے میں ڈبل انتظامی سسٹم سے لوگوں میں اضطرابی کیفیت پائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں میں خدشات جنم لے رہے ہیں کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جمہوری حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے۔ طارق حمید قرہ نے الائنس پارٹنر نیشنل کانفرنس سے گزارش کی ہے کہ عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان باتوں کا اظہار طاریق حمید قرہ نے سرینگر میں ایک پُرہجوم پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو اس لئے ووٹ دئے تاکہ گزشتہ دس سالوں سے جموں وکشمیر میں جو جمہوری نظام کا فقدان تھا وہ پر ہو سکے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس برسوں سے لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی تھی اور مسائل کو حل کرنے کی خاطر لوگوں نے ووٹ دیا تاہم بدقسمتی سے ابھی بھی مقامی سطح پر لوگوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ عام لوگوں کو لگ رہا ہے کہ انہوں نے جو ووٹ دے کر سرکار بنائی اس سے کوئی فائدہ نہیں ملا ہے۔ طارق حمید قرہ کے مطابق لوگوں کے مسائل حل کرنے کی خاطر ریاستی درجے کی بحالی ناگزیر ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ لوگوں میں خدشات پائے جارہے ہیں کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہاں جمہوری حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسران خود کنفویژن کے شکار ہے کہ وہ کس ایڈ منسٹریشن کے تحت ہیں، آیا وہ جمہوری حکومت کے پابند ہے یا ایل جی انتظامیہ کے۔

پی سی سی کے سربراہ نے کہا جموں و کشمیر کے ہر گاؤں، شہر اور قصبوں میں لوگوں کے مسائل جوں کے توں ہے۔ ان کے مطابق نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے الیکشن منشور میں بہت سارے وعدے کئے جن میں خاص کر ڈبل راشن کی فراہمی، بجلی، سمارٹ میٹرس، بجلی بلوں میں اضافہ کا معاملہ، کیجول لیبرس کی مستقلی اور بے روزگاری قابل ذکر ہے لیکن ابھی تک ان پر پیش رفتہ ہی نہیں ہوئی۔ طارق حمید قرہ نے کہا کہ چونکہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی ملی جلی سرکار ہے لہذا میری الائنس پارٹنر سے گزارش ہے کہ وہ عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مثبت کردار اپنائے تاکہ لوگوں میں جو بے چینی پائی جارہی ہے وہ دور ہو سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ لوگوں کے مسائل نیشنل کانفرنس لوگوں میں کہ لوگوں کرنے کی

پڑھیں:

اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں پتا ہونا چاہیے کہ عوامی مسائل کیا ہیں۔

نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

ٹیکس پیئر کے وکیل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا، جسٹس جمال خان مندوخیل  نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں بل لانے کا طریقہ کار کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت آج ایک اور کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آئیں گے

وکیل ٹیکس پیئر نے مؤقف اپنایا کہ پالیسی میکنگ اور ٹیکس کلیکٹر دو مختلف چیزیں ہیں، ٹیکس کلیکٹر ایف بی آر میں سے ہوتے ہیں جو ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں، پالیسی میکنگ پارلیمنٹ کا کام ہے، اگر میں پالیسی میکر ہوں تو میں ماہرین سے پوچھوں گا کہ کیا عوام کو اس کا فائدہ ہے یا نقصان۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں انہیں پتا ہونا چاہیے عوامی مسائل کیا ہیں، کیا آج تک کسی پارلیمنٹرین نے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے تجاویز دی ہیں، جس کمیٹی کی آپ بات کر رہے ہیں اس میں بحث بھی ہوتی ہے یا جو بل آئے اسے پاس کر دیا جاتا ہے۔

سی پی پی اے نے نیپرا میں بجلی نرخ میں اضافے کی درخواست دے دی

خالد جاوید  نے مؤقف اپنایا کہ قومی اسمبلی میں آج تک کسی ٹیکس ایکسپرٹ کو بلا کر ٹیکس کے بعد نفع نقصان پر بحث نہیں ہوئی، وزیر خزانہ نے کہا کہ وہ سپر ٹیکس کے حامی ہیں، قومی اسمبلی میں ایسی بحث نہیں ہو سکتی جو ایک کمیٹی میں ہوتی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے کہا کہ یہی سوال ہم نے ایف بی آر کے وکلاء سے پوچھا تھا، ایف بی آر کے وکلاء نے جواب دیا تھا مختلف چیمبرز آف کامرس سے ماہرین  کو بلایا جاتا ہے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے بتایا کہ مختلف کمیٹیاں ہیں، لیکن کمیٹیوں کے کیا نتائج ہوتے ہیں یہ آج تک نہیں بتایا۔

ڈی پی ایل کی تاریخ میں توسیع خوش آئند، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، کمرشل امپورٹرز، حکومت  قوانین پر نظرثانی کرے،سلیم ولی محمد

جسٹس محمد علی مظہر  نے ریمارکس دیے کہ اصول تو یہ ہے کہ ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے ماہرین کی رائے ہونی چاہیے، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ بات بھی سامنے ہونی چاہیے کہ اگر 10 فیصد ٹیکس لگ رہا ہے تو کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔

سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بٹ کے جنازے میں شرکت پر پابندی، کشمیری سیاستدان برہم
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے. جسٹس حسن اظہر رضوی
  • سپیکر قومی اسمبلی کا حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • بےقاعدہ نیند سے جُڑے خطرناک مسائل
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
  • تاریخ گواہ ہے کہ قربانیوں سے جنم لینے والی تحریکیں کبھی دبائی نہیں جا سکتیں، عزیر احمد غزالی
  • قومی شاہراہوں کی بندش سے جموں میں سیب کے تاجروں کو بھاری نقصان
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کی انتہا: تشدد کے بعد کشمیری کی لاش دریائے جہلم سے برآمد
  • جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ