شہدائے سیہون کی 8ویں برسی، شیعہ علماء کونسل کے تحت درگاہ لعل شہباز قلندرؒ میں اجتماع
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
برسی کے اجتماع سے خطاب میں رہنماؤں نے کہا کہ سانحہ سیہون سمیت، کراچی، خیرپور، شہدادکوٹ، کوثری نوابشاه، ٹنڈو آدم، باده، شکارپور اور جیکب آباد کے واقعات کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور ملوث دہشتگردوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے، عزاداری پر کسی قسم کی قدغن قابل قبول نہیں، کربلا کا تذکرہ رسول اللهؐ کی آلؑ کا تذکرہ ہے جس سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان سندھ کی جانب سے شہداء ملت جعفریہ و شہداء سیہون کی 8ویں برسی انتہائی عقیدت و احترام سے درگاہ لعل شہباز قلندرؒ گولڈن گیٹ سیہون شریف میں منائی گئی۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ٹیلیفونک خطاب ایس یو سی کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کیا جبکہ علامہ شبیر حسن میثمی، علامہ سید اسد اقبال زیدی، علامہ سید محمد تقی نقوی، علامہ سید ارشاد حسین نقوی، علامہ محمد علی جروار، علامہ سید ناظر عباس تقوی، علامہ جعفر علی سبحانی اور دیگر نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں رہنماؤں نے کہا کہ درگاہیں امن کا پیغام دیتی ہیں، یہ کون عناصر تھے جن کو امن پسند نہیں آیا، سیہون سانحہ کو 8 سال گذر گئے ہیں مگر واقعے کے ذمہ داروں سے عوام بے خبر ہے، حکومت و انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرے، سانحہ سیہون سمیت، کراچی، خیرپور، شہدادکوٹ، کوثری نوابشاه، ٹنڈو آدم، باده، شکارپور اور جیکب آباد کے واقعات کے حقائق منظر عام پر لائے جائیں اور ملوث دہشتگردوں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
رہنماؤں نے کہا کہ پاراچنار کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، کانوائے پر فائرنگ سے کئی بیگناہ شہری مارے گئے، حتیٰ کہ معصوم شیر خوار بچے بھی بیدردی سے قتل کئے گئے اور امدادی سامان خورد و نوش کی چیزیں پہنچانے میں مسائل درپیش ہیں، عوام تو اپنی جگہ انتظامیہ بھی غیر محفوظ ہے، بگن میں ظلم و بربریت کس نے کیا دہشتگردوں کے چہرے بے نقاب ہوگئے، ہمارا مطالبہ ہے پاراچنار میں فوری ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ ہزاروں کی تعداد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ عزاداری ہمارا آئینی حق ہے، لوکل سطح کی انتظامیہ ریکارڈ میں نہ ہونے کا بہانا بناکر مجالس و جلوس اور باالخصوص سبیلوں میں رکاوٹ ڈالتی ہے، محرم الحرام سے قبل ہوم سیکرٹری اور آئی جی سندھ کی جانب سے ایک ہدایات نامہ جاری ہوتا ہے جس کی بعض شقیں غیر آئینی ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے پانی پلانا کس مذہب مکتب مسلک یا قانون میں جرم ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ عزاداری پر کسی قسم کی قدغن قابل قبول نہیں، کربلا کا تذکرہ رسول اللهؐ کی آلؑ کا تذکرہ ہے جس سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمران مہنگائی بیروزگاری پر توجہ دیں، ملکی معشیت کو بہتر بنا کر عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، سندھ کے بعض علاقوں، کشمور، کندھکوٹ، شکارپور، گھوٹکی، جیکب آباد اور دیگر علاقوں میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے، ڈکیتی چوری بھتہ خوری اغوا لوٹ مور کا بازار گرم ہے، وزیراعلیٰ سندھ ہوش کریں یہ وہی عوام ہے جس کے ووٹوں سے آپ اعلیٰ ایوان میں بیٹھے ہیں، سندھ کے کچے کے علاقوں میں امن بحال کروائیں۔ جلسے میں سندھ بھر سے علماء کرام، خطباء و ذاکرین عظام، سیاسی و ملی قومی اداروں کی شخصیات، درگاہوں کے گدی نشین حضرات نے شرکت کی۔ آخر میں شہداء کے بلند درجات کی دعا کے ساتھ وطن عزیز پاکستان کی ترقی خوشحالی اور سالمیت کی دعا کی گئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ سید نے کہا کہ کا تذکرہ
پڑھیں:
پاکستان بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار، شہباز شریف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اسلام آباد میں بدھ کے روز برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ لڑائی کے دوران کشیدگی کو کم کرنے میں برطانیہ کے کردار کو سراہا۔
ریڈیوپاکستان کے مطابق اس موقع پر پاکستانی وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ "پاکستان تمام تصفیہ طلب معاملات پر بھارت کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے لیے تیار" ہے۔
پاکستان نے پہلے بھی بھارت کو کشمیر کے تنازعہ اور پانی کی تقسیم سمیت تمام متنازعہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ تاہم بھارت نے ابھی تک اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم نے برطانوی حکومت کی جانب سے برطانیہ کے لیے پی آئی اے کی پروازیں بحال کرنے کے فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا اور ہائی کمشنر کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا، "یہ (فیصلہ) پاکستانی-برطانوی کمیونٹی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے درمیان عوامی تبادلے کو بڑھانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔
(جاری ہے)
"وزیر اعظم پاکستان نے کہا، "پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھی برطانیہ کے ساتھ قریبی تعاون کر رہا ہے، جس کی اس وقت پاکستان کے پاس ماہانہ صدارت ہے۔" میریٹ نے وزیر اعظم شہباز کو اپنے حالیہ دورہ لندن کے بارے میں آگاہ کیا، جہاں انہوں نے دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے کے حوالے سے وسیع مشاورت کی۔
سلامتی کونسل میں پاکستانی سفیر کا بھارت پر جوابی حملہبدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے ایلچی عثمان جدون نے سرحد پار دہشت گردی سے متعلق بھارتی الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "بھارت مظلوم بننے اور الزام تراشی کے تھکے ہوئے بیانیہ" کا سہارا لینے کے بجائے اب اپنا رویہ بدلے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر پرواتھنی ہریش نے پاکستان پر "سرحد پار دہشت گردی پھیلانے" کا الزام لگایا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے نائب مستقل نمائندے عثمان جدون نے سکیورٹی کونسل کے 15 رکنی ادارے کو بتایا کہ اصل میں: "یہ بھارت ہے جو میرے ملک اور اس سے باہر بھی دہشت گردی کو فعال طور پر تعاون، مدد اور حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "گھمنڈ اور رعونت کے غلط احساس سے اندھے ہونے کے بجائے، مظلوم ہونے اور الزام تراشی کے اپنے تھکے ہوئے بیانیے کا سہارا لینے کے بجائے، بھارت کو سنجیدگی سے خود کا جائزہ لینا چاہیے۔ اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے اور تمام معاملات پر اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں کی تعمیل کرنی چاہیے۔"
عثمان جدون نے کہا کہ خاص طور پر افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی سفیر نے منگل کے روز پاکستان کو اس وقت نشانہ بنایا، جب دن کے اوائل میں ہی کونسل نے اتفاق رائے سے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں اور تنازعات کے پرامن حل، بین الاقوامی قانون کے احترام اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر موثر عمل درآمد کی ضرورت کی حمایت کی تھی۔
کشمیر پر 'بھارت کی خلاف ورزیاں'پاکستانی ایلچی نے اپنی تقریر کے دوران اس بات پر زور دیا کہ "سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے پر بھارت کا غیر قانونی قبضہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "اقوام متحدہ کے چارٹر اور مبینہ طور پر تنازعات کے پرامن حل کے اصول کی پاسداری کا دعویٰ کرتے ہوئے، بھارت جموں و کشمیر کے تنازعے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس طرح اس نے کشمیری عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے استعمال سے بھی منع کر رکھا ہے۔"انہوں نے مزید کہا کہ "ستم ظریفی یہ ہے کہ بھارت، جو خود جموں و کشمیر کے تنازعے کو سلامتی کونسل میں لے کر آیا تھا، اس تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے کونسل کی منظور کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر رہا ہے۔"
جدون نے مزید کہا کہ "بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، جموں و کشمیر کے مقبوضہ علاقوں سے بھی باہر پھیلی ہوئی ہیں اور اقلیتوں کے ساتھ اس کا جو ہولناک سلوک ہے اسے بھی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا ہے۔
" بھارت کے چھ طیارے تباہ کرنے کا دعویپاکستانی سفیر نے اس موقع پر مئی کے اوائل میں بھارت کے حملے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جواب میں پاکستان اپنے دفاع کے حق کے تحت "مناسب لیکن نپی تلی جوابی کارروائی کی"۔ انہوں نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد خصوصی طور بھارت کے فوجی اہداف کو نشانہ بنانا تھا، جس کے نتیجے میں "دیگر اہم فوجی نقصانات کے علاوہ جارحیت میں حصہ لینے والے چھ بھارتی طیاروں کو مار گرایا گیا۔
"جدون نے مندوبین کو بتایا، "پاکستان کی طاقت اور ذمہ دارانہ اندازِ فکر اور پھر امریکہ کی سہولت کاری کی وجہ سے اس دشمنی کا خاتمہ ہوا، جیسا کہ صبح امریکہ کے بیان میں بھی اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔"
بھارتی مندوب نے اس سے قبل کیا کہا تھا؟منگل کے روز اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر سرحد پار دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا اورپہلگام واقعے کے بعد پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں" کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے۔"واضح رہے کہ بھارت متنازعہ خطہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ حصہ بتاتا ہے اور پاکستان کے زیر انتظام علاقے پر بھی اپنا دعوی کرتا ہے۔
بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
واضح رہے کہ 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد ایٹمی ہتھیاروں سے لیس بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی تصادم شروع ہو گیا تھا، کیونکہ نئی دہلی نے اس کا الزام اسلام آباد پر لگایا۔ تاہم پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی اور واقعے کے غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا اور پھر چار روز ہ لڑائی کے بعد امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی نے لڑائی کا خاتمہ کیا۔
اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تعطل کا شاکر ہو گئے ہیں۔
ادارت: جاوید اختر