بیت المقدس کی تاریخ : رواداری کے چراغ، جبر کے اندھیرے
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
بیت المقدس جسے یروشلم بھی کہا جاتا ہے دنیا کے قدیم ترین اور مقدس ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ شہر تین بڑے ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے جس میں فتوحات، تنازعات اور مذہبی تقدس کے بے شمار واقعات شامل ہیں۔ عیسائیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیت المقدس کی چابی پیش کی تھی۔ جب مسلمانوں نے 637 عیسوی میں بیت المقدس کو فتح کیا تو شہر کے عیسائی پادریوں نے شرط رکھی کہ وہ صرف خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہتھیار ڈالیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس پہنچے اور عیسائی پادری صفرونیئس (Sophronius) نے انہیں شہر کی چابی پیش کی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہایت انصاف پسندی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عیسائیوں کو ان کے مذہبی حقوق دیئے اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر نو کا حکم دیا۔ یہودیوں کو جو صدیوں سے بیت المقدس میں داخلے سے محروم تھے دوبارہ شہر میں رہنے اور عبادت کرنے کی اجازت دی گئی۔اس واقعے میں یہودیوں کا کردار نہیں تھا بلکہ یہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دوراندیشی اور انصاف پسندی کی عکاسی کرتا ہے ۔ دس سو ننانوے عیسوی میں صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے شہر میں قتل عام کیا اور مسلمانوں اور یہودیوں کو بے دردی سے قتل کیا۔ صلیبیوں نے بیت المقدس کو ایک عیسائی بادشاہت کا دارالحکومت بنایا۔ تاہم 1187 عیسوی میں صلاح الدین ایوبی نے حطین کی جنگ میں صلیبیوں کو شکست دے کر بیت المقدس کو دوبارہ فتح کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے نہایت انصاف پسندی اور رواداری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے عیسائیوں کو شہر میں رہنے اور اپنے مذہبی مقامات کی زیارت کرنے کی اجازت دی۔ صلاح الدین ایوبی کی فتح بیت المقدس کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔
پندرہ سو سترہ عیسوی میں عثمانی سلطنت کے سلطان سلیم اول نے دوبارہ مسلمانوں کو بیت المقدس کا حاکم بنایا۔ عثمانیوں نے بیت المقدس کو ایک اہم مذہبی اور انتظامی مرکز بنایا۔ سلطان سلیمان القانونی نے شہر کی دیواریں تعمیر کیں اور مسجد اقصی کی تزئین و آرائش کی۔ عثمانی دور میں بیت المقدس نسبتاً پرسکون رہا۔
آج کبھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ پر قبضے کی بات کرتے ہیں تو کبھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سعودی عرب کو فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسا لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ تجاویز بیت المقدس کے مسئلے کا حل پیش کر سکتی ہیں؟ یا یہ محض ایک پیچیدہ مسئلے کو اور الجھانے کا سبب بن رہی ہیں؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کر لے گا نہ صرف متنازعہ تھا بلکہ اس نے پوری دنیا میں طوفان برپا کر دیا۔ اسلامی ممالک نے اس بیان کو مسترد کر دیا اور اس کی شدید مذمت کی۔ یہ بیان فلسطینیوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حق خود ارادیت کے خلاف بھی تھا۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کسی بھی کوشش کو عالمی سطح پر ناقابل قبول سمجھا گیا۔ٹرمپ کے بیان کے بعد دنیا بھر سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے غیر مسلم حکمرانوں نے بھی شدید رد عمل دیا۔ اس بیان کو “انسانی حقوق کی خلاف ورزی” قرار دیا اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی۔ سعودی عرب جو کہ امریکہ کا اہم اتحادی ہینے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کوصرف ان کی سرزمین پر ہی رہنے کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ “سعودی عرب فلسطینیوں کو اپنے ملک میں بسا لے” بھی ایک متنازعہ اور غیر مناسب تجویز ہے۔ یہ تجویز نہ صرف فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے خلاف ہے بلکہ اس نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوششوں کو بھی واضح کر دیا۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ انہیں ان کی تاریخی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے نہ کہ انہیں کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دیا جائے۔نیتن یاہو کی یہ تجویز اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔
مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کا مقام مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر تمام انبیا کی امامت کی تھی۔ یہ مسجد نہ صرف اسلام کی تاریخ کا اہم حصہ ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا بھی مرکز ہے۔ مسجد اقصی کو قبلہ اول ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ مسلمانوں کے لیے انتہائی احترام کی جگہ ہے۔صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کے بیانات کے بعد فلسطینی مزاحمتی تحریکوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ حماس، القسام بریگیڈ، اور حزب اللہ جیسی تنظیمیں اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے میدان میں موجود ہیں۔ حماس نے ایک نئی طاقت اور جذبے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی ہے بلکہ وہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھی پرعزم ہے۔ القسام بریگیڈ اور حزب اللہ بھی اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے سرگرم ہیں۔ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور صلاح الدین ایوبی جیسے بہادر حکمرانوں نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد عیسائیوں اور یہودیوں کو نہ صرف وہاں رہنے کی اجازت دی بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کی۔ یہ تھا مسلم حکمرانوں کا کردار جو رواداری، انصاف اور انسانیت کے بلند ترین معیارات پر مبنی تھا۔
مگر دوسری طرف آج کے دور میں صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے لیڈران بیت المقدس اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پالیسیاں نہ صرف فلسطینیوں کے حقوق کو پامال کرتی ہیں بلکہ وہ انصاف اور انسانیت کے بنیادی اصولوں کو بھی نظرانداز کرتی ہیں۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جبر و تشدد کے ذریعے کبھی کوئی حقیقی فتح حاصل نہیں ہو سکی۔ بیت المقدس اور غزہ کے لوگ اپنی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہمیشہ سے پرعزم رہے ہیں اور ان کے عزم کے آگے ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے لیڈران کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ بیت المقدس صرف ایک شہر نہیں بلکہ امن، رواداری اور انصاف کی علامت ہے، اور اس کی حفاظت کا فریضہ ہر انسان پر عائد ہوتا ہے۔بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک جذباتی اور مذہبی مسئلہ ہے اور یہ بات واضح ہے کہ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حفاظت مسلمانوں کی اولین ترجیح ہے اور وہ کبھی بھی اس مقدس مقام کو دشمن کے حوالے نہیں کریں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ صلاح الدین ایوبی فلسطینیوں کے حق بیت المقدس اور نے بیت المقدس بیت المقدس کو بیت المقدس کی فلسطینیوں کو ان کی سرزمین مسلمانوں کے نیتن یاہو عیسوی میں کی حفاظت کی تاریخ کرنے کی کر دیا اور یہ کے لیے اور ان
پڑھیں:
تاریخ کی نئی سمت
ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔
پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔
نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔
لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔
اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔
نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔
ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔
ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔
افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔
پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔
فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔
مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔
افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔
اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔
نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔
نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔