آئی ایم ایف وفد نے ملاقات میں کیاکہا؟چیف جسٹس پاکستان نے صحافیوں کو بتا دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے آئی ایم ایف وفد سے ملاقات میں بات چیت صحافیوں کیساتھ شیئر کردی۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی پر بھی بات کروں گا، آئی ایم ایف وفد کو بتایا عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے،وفد کو بتایایہ ہمارا کام نہیں آپ کو ساری تفصیل بتائیں،وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا،وفد کو بتایا ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں۔
گورنر پنجاب کو بتا دیں انکے صدر بھی فارم 47 والوں کے ووٹ سے بنے ہیں: خواجہ اظہار الحسن
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ وفد نے کہاکہ معاہدوں کی پاسداری اورپراپرٹی حقوق بارے جاننا چاہتے ہیں،آئی ایم ایف وفد کو جواب دیا اس پر اصلاحات کررہے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آئی ایم ایف وفد کو جواب دیاہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے،وفد کو عدالتی ریفارمز، نیشنل جوڈیشل پالیسی سے آگاہ کیا،وفد نے پروٹیکشن آف پراپرٹی رائٹس کے حوالے سے تجاویز دیں،وفد نے کہاکہ ہم پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ وفد سے کہا ہمیں عدلیہ کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس درکار ہوگی۔
تحریکِ انصاف کے سینیٹر شبلی فراز نے ججزکی تعیناتی پر اہم سوال اٹھا دیا
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ مجھے وزیراعظم شہبازشریف کا خط بھی آیا، وزیراعظم کو اٹارنی جنرل کے ذریعے سلام کا جواب بھجوایا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو سپریم کورٹ مدعو کیا ہے،ہم نے قائد حزب اختلاف سے بھی بڑی مشکل سے رابطہ کیا،حکومت اور اپوزیشن سے عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا مانگا ہے،
انہوں نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی کے خط پر بات کروں گا، بانی پی ٹی آئی جو چاہتے ہیں وہ آرٹیکل 184کی شق تین سے متعلق ہے،بانی پی ٹی آئی کا خط ججز آئینی کمیٹی کو بھجوایا ہے،میں نے کمیٹی سے کہا اس خط کا جائزہ لے کر فیصلہ کریں،یہ معاملہ آرٹیکل 184کی شق تین کا ہے، اسے آئینی بنچ نے ہی دیکھنا ہے۔
کے پی میں کڑے احتساب کیلئے تیاریاں مکمل، اینٹی کرپشن فورس بنانے کا فیصلہ
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: چیف جسٹس پاکستان ا ئی ایم ایف وفد عدلیہ کی نے کہاکہ وفد کو
پڑھیں:
’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) پاکستان کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے اعلان کیا کہ نادار افراد کو عدلیہ کے تمام درجوں پر ریاستی خرچ پر قانونی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس کے تحت ریاست غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی، جو 50 ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔
کیا یہ نیا اقدام ہے؟نظام عدل سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ کوئی نیا اقدام نہیں کیونکہ پاکستان میں فری لیگل ایڈ کا نظام پہلے سے موجود ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ طویل عرصے سے اعلانات کے ذریعے توجہ تو حاصل کرتی آئی ہے لیکن عملی اقدامات کی کمی کی وجہ سے عام شہریوں، خواہ وہ صاحبِ حیثیت ہوں یا نادار، کو انصاف کی فراہمی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ریٹائرڈ جسٹس شاہد جمیل کا کہنا ہے، ''افتخار چوہدری کے دور سے عدالتیں خبروں میں آنے کے فن میں ماہر ہو چکی ہیں لیکن عوام کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
(جاری ہے)
‘‘انہوں نے مزید کہا کہ فری لیگل ایڈ سیلز ہر جگہ موجود ہیں اور ٹرائل کورٹس کے ججوں کو اختیار ہے کہ وہ نادار افراد کے لیے وکیل مقرر کریں، جو وہ کرتے بھی ہیں، ''میں ہائی کورٹ بار کا ممبر رہا ہوں اور وہاں بھی غریب افراد کے لیے امدادی فنڈ موجود ہے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ انصاف کی فراہمی کے لیے فیصلوں اور اعلانات پر مؤثر عمل درآمد ضروری ہے، جو پاکستان میں طویل عرصے سے مفقود ہے۔
یہ عنصر کسی بھی فیصلے کو اخبارات کی سرخیوں تک تو لے جاتا ہے لیکن عام عوام کے لیے عملی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ قابلِ ذکر ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے حلف اٹھانے کے بعد تمام کمرہ عدالتوں کی کارروائی براہ راست نشر کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ بھی تاحال مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔سپریم کورٹ میں چون ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا: وجوہات کیا ہیں؟
شاہد جمیل کے مطابق، ''دلکش اعلانات سرخیاں تو بنوا سکتے ہیں لیکن ایک باقاعدہ نظام کے قیام کے بغیر عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
اس کے لیے پارلیمنٹ کا کردار کلیدی ہے کیونکہ عدالتیں ایک حد سے آگے قانون سازی یا فنڈز مختص نہیں کر سکتیں۔‘‘ امید کی کرن یا قبل از وقت تنقید؟تاہم کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عمل درآمد پر تنقید قبل از وقت ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس شوکت صدیقی کہتے ہیں، ''اگرچہ غریب افراد کے لیے قانونی معاونت کا نظام پہلے سے موجود ہے لیکن چیف جسٹس کی جانب سے اس عزم کو دہرانا اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش ایک خوش آئند قدم ہے۔
‘‘ بے بنیاد مقدمات کے خاتمے کا چیلنجپاکستان میں یہ عمومی تاثر ہے کہ عدالتوں میں بڑی تعداد میں غیر سنجیدہ اور بے بنیاد مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ اگر کسی غریب فرد کے خلاف ایسا مقدمہ دائر ہو، تو ریاست کو اس کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنا ہو گی۔ وکلاء برادری کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ریاست کو غریب افراد کی قانونی مدد جاری رکھنی چاہیے اور چیف جسٹس کا یہ اقدام درست سمت میں ہے۔
تاہم بے بنیاد مقدمات کی حوصلہ شکنی کے لیے حکومت کو خود کوئی مؤثر کردار ادا کرنا ہو گا۔معروف قانون دان فاروق ایچ نائیک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ چیف جسٹس کا یہ اقدام قابلِ تحسین ہے اور اگر اس پر عمل درآمد ہوا تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی۔ بے بنیاد مقدمات کے مالی بوجھ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے تجویز دی کہ پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بنائے، جس کے تحت مقدمہ دائر کرنے والے کو مدعا علیہ کے عدالتی اخراجات کا کچھ حصہ پیشگی جمع کرانا لازم ہو۔
اگر مقدمہ سچا ثابت ہو تو جمع شدہ رقم واپس کر دی جائے اور ہارنے والے کو اخراجات ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ وکیل کی عدم دستیابی ہی واحد رکاوٹ نہیںقانونی ماہرین مجموعی طور پر چیف جسٹس کے اقدام سے اختلاف نہیں کرتے لیکن ان کا خیال ہے کہ وکیل کی عدم دستیابی ہی انصاف کی راہ میں واحد رکاوٹ نہیں۔ سن 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں 22 لاکھ سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس صورتِ حال کے ذمہ دار صرف جج نہیں بلکہ وکلاء کا کردار بھی اہم ہے۔ وہ مختلف حربوں سے مقدمات کو طول دیتے ہیں، خصوصاً وہ وکلاء، جو ''جعلی مقدمات‘‘ لڑتے ہیں اور فیصلے سے زیادہ مدعی کو تھکا کر اس کا حق چھیننا چاہتے ہیں۔
جسٹس (ر) شاہد جمیل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی اصل توجہ نچلی عدالتوں پر ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ''سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے وکلاء کو پابند کرے، جو پیشی پر حاضر نہیں ہوتے کہ وہ دوسرے فریق کے اخراجات ادا کریں، کیونکہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں وکیل بغیر بھاری مالی جرمانے کے عدالت سے غیر حاضر نہیں ہو سکتا۔‘‘ان کے بقول یہ اقدام فوری انصاف کی فراہمی کے لیے سب سے ضروری ہے۔
ادارت: امتیاز احمد