امریکہ کی پانچ ٹاپ یونیورسٹیز کون سی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, February 2025 GMT
No media source currently available
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
ایران پر اسرائیلی حملہ اور اسکے نتائج
اسلام ٹائمز: ایران پر اسرائیلی حملے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ایران پر حملہ کے نتیجہ میں جنگ مختصر ہوگی یا طویل؟ عرب ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ بڑی طاقتوں روس اور چین کا رول کیا ہوگا؟ کیا ایران فلسطین کی مانند تنہا رہ جائیگا؟ کیا ایران بھی اسرائیل کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنائے گا؟ ایران پر اسرائیلی حملے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ و اسرائیل ایران پر طویل جنگ مسلط کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، طویل جنگ میں اسرائیل کا نقصان زیادہ ہوگا۔ تحریر: اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ
تین ماہ قبل ہم نے اپنے مضمون بعنوان "کیا اسرائیل ایران پر حملہ کر سکتاہے" میں یہ بیان کیا تھا کہ "اسرائیل امریکہ کی مدد کے بغیر تن تنہا ایران پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا، آج سے تین ماہ پہلے حالات و واقعات کسی بھی طرح امریکہ کے حق میں نہیں تھے کہ امریکہ اسرائیل کی خواہش پر ایران پر حملہ آور ہوجائے۔ تازہ ترین صورتحال میں بھی بظاہر تو یہی لگ رہا تھا کہ یہ جنگ ٹل بھی سکتی ہے۔ امریکی سفیر سٹیو کاف اور ایران کے وزیر خارجہ عباس آررچائی کی مسقط میں ملاقات طے تھی جس کا بنیادی ایجنڈا یہ تھا کہ ایران کو یورنیم کی افزودگی سے روکا جائے تاکہ جنگ کے خطرہ کو ٹالا جاسکے۔ امریکی و ایرانی حکام کی یہ ملاقات اس پس منظر میں ہورہی تھی جب بین الاقوامی ایٹمی ایجینسی کے حالیہ اجلاس میں یہ اعلامیہ سامنے آیا کہ ایران یورنیم کی افزودگی کو روکنے میں تعاون نہیں کر رہا۔ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی یہ کوشش سامنے آئی کہ ایران اگر یورنیم کی افزودگی کو روکنے پر آمادہ ہوجائے تو ایران پر حملہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم دوسری طرف گزشتہ تین دنوں میں امریکی حکام کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے ایران پر امریکی حملے کے خطرات بڑھ گئے۔
امریکہ نے بحرین، کویت اور عراق کے سفارتخانوں میں تعینات غیر ضروری اسٹاف کو نکلنے کا پیغام دیتے ہوئے ان کیلئے ٹریول ایڈوائزری جاری کردی۔ مزیدبراں امریکی و برطانوی حکام نے اپنے شہریوں کیلئے الرٹ بھی جاری کردئیے۔ برطانوی میری ٹائم تجارتی اپریشنز میں شریک بحری جہازوں کو بھی آگاہ کیا گیا کہ وہ احتیاط کیساتھ سفر کریں۔ امریکہ و برطانیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کا اگر سائنسی تجزیہ کیا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ کیساتھ مل کر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ امریکی و بین لاقوامی ذرائع ابلاغ بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو عراق پر حملے کے موقع پر دکھائی دیتا تھا۔ اسرائیلی نقطہ نظر سے اسرائیل خود کیلئے اس موقعہ پر حملہ کرنے کے وقت کو آئیڈیل سمجھتا ہے کیونکہ اسکے نزدیک ایران کے اتحادی کمزور ہو چکے ہیں۔ حماس لبنان اور شام میں ایران کی پراکسیز ختم ہوچکی ہیں جبکہ عالمی سیاست میں ایران کا سب سے بڑا حلیف روس خود یوکرائن جنگ میں الجھا ہوا ہے۔
ایران پر اسرائیلی حملے نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا ایران پر حملہ کے نتیجہ میں جنگ مختصر ہوگی یا طویل؟ عرب ممالک کا کیا ردعمل ہوگا؟ پاکستان کی پوزیشن کیا ہوگی؟ بڑی طاقتوں روس اور چین کا رول کیا ہوگا؟ کیا ایران فلسطین کی مانند تنہا رہ جائیگا؟ کیا ایران بھی اسرائیل کی نیوکلئیر تنصیبات کو نشانہ بنائے گا؟ ایران پر اسرائیلی حملے میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ و اسرائیل ایران پر طویل جنگ مسلط کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، طویل جنگ میں اسرائیل کا نقصان زیادہ ہوگا۔ دوسری طرف ایران کو تباہ کرنا خود امریکہ کیلئے کوئی فائدہ مند نہیں کیونکہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران شیعہ کمیونٹی کی نمائندگی کرتا رہے اور اس طرح سنی و وہابی کمیونٹی کی نمائندگی کرنیوالے ملک سعودی عرب کے مقابلے میں برقرار رہے لہذا امریکہ کی بھرپور کوشش ہوگی کہ حملہ کے نتیجہ میں ایران کی موجودہ رجیم کو تبدیل کرتے ہوئے عرب ممالک کی طرح حلیف حکومت کو سامنے لایا جائے۔ ایران پر حملہ کے خلاف عرب ممالک کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ردعمل سامنے آنے کی کوئی توقع نہیں اور وہ خاموش تماشائی کا کردار ادا کریں گے کیونکہ تمام اہل عرب اس وقت امریکی پلڑے میں ہیں۔
پاکستان کی پوزیشن انتہائی اہم ہے اور اسی وجہ سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو واشنگٹن بلایا گیا ہے جہاں سینٹ کام کے جنرل کوریلہ نے انکی قیادت کی تعریفوں کے بڑے پل باندھے ہیں۔ اس موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے، ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیئے کہ ہماری خوشامد کرنے کا واحد مقصد ایران کیخلاف مدد حاصل کرنا ہے۔ ہمیں قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے دوٹوک موقف اپنانے کی ضرورت ہے کہ ہم ایران پر حملے میں امریکہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے، ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ ایران کیخلاف امریکہ کی مدد کی صورت میں وطن عزیز میں شیعہ کمیونٹی کی جانب سے احتجاج کی نئی لہر سامنے آسکتی ہے جس کے ساتھ سنی شیعہ فسادات بھی پھوٹ سکتے ہیں جو قومی سلامتی کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
کمزور معیشت کی وجہ سے ہم اندرونی خلفشار کے کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قومی سوچ اور قومی یکجہتی کو پروان چڑھانے پر کام کریں۔ مندرجہ بالا صورتحال میں اسرائیلی حملے کے پیش نظر ایران کا ردعمل کیا ہوگا یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کی فوجی و ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور وہ ایسا کرنے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ بلاشبہ ایران کے 1200 کلومیٹر تک مار کرنے والے قاسم سیلمانی بیلسٹک میزائیل فوری اور بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایران S.300 کے خود کار مضبوط دفاعی نظام سے بھی لیس ہے۔ ایران پر حملے کا ردعمل فوری اور شدید نوعیت کا ہوا ہے۔ جس سے نہ صرف مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا متاثر ہوسکتا ہے بلکہ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
موجودہ دور میں ایران وہ واحد آزاد ملک ہے جس نے آیت اللہ خمینی کے انقلاب کے بعد سے آج تک امریکہ و اسرائیل کے آگے جھکنے سے انکار کر رکھا ہے۔ امریکہ نے عراق کی پشت پناہی کرتے ہوئے 8 سال تک ایران پر جنگ مسلط کئے رکھی تاہم ایران نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ گزشتہ 20 برسوں میں ایران نے چین اور روس کی مدد کیساتھ اپنی فوجی ودفاعی صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ کر تے ہوئے خود کو بڑی جنگ کیلئے تیار کر رکھا ہے۔ امریکہ و اسرائیل کی جانب سے ایران کو کمزور تصور کرنا سنگین غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ کیا امریکہ روس سے یوکرائن جنگ ہارنے اور تجارتی جنگ میں چین سے شکست کھانے کے بعد اس پوزیشن میں ہے کہ وہ ایران کو زیر کر سکے؟ اس سوال کا جواب ایران پر حملے کے ردعمل میں مل چکا ہے۔