Jasarat News:
2025-07-25@01:37:01 GMT

جاپان کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کے امکانات

اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT

جاپان کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کے امکانات

نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا شمار دنیا کے متنازع ترین موضوعات میں ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف ممالک کے موقف اور پالیسیوں میں واضح اختلاف نظر آتا ہے۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی خطے میں موجود دو یا دو سے زائد ممالک کا اس موضوع پر مختلف بیانیہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے ایک کیس اسٹڈی چین اور جاپان بھی ہیں۔ دونوں ممالک نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں پیش رفت کر چکے ہیں لیکن ان دونوں ممالک کی حکمت عملی اور نقطہ نظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ چین نے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو اپنی دفاعی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جبکہ اس معاملے میں جاپان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسے ہمیشہ پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ جاپان کی اس معاملے میں انتہائی حساسیت کا پس منظر دوسری جنگ عظیم ہے، ایٹمی حملے کا شکار ہونے کے بعد اس معاملے میں جاپان کی حساسیت حد درجے بڑھ گئی تھی اور یہ حساسیت اس کی پالیسیوں میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی نیو کلیئر پالیسی تین اصولوں پر قائم ہے۔

نمبر 1۔ جاپان جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرے گا۔
نمبر 2۔ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔
نمبر 3۔ اپنی سرزمین پر جوہری ہتھیار ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

اس کے باوجود کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تنازعات اور کئی اختلافی امور حل طلب ہیں جاپان نے ایٹمی مسابقت کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا۔ چین کا نیو کلیئر پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع ہوا تھا اور 1964 میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا جس کے بعد سے چین میں جوہری توانائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔ دوسری جانب جاپان نے بھی جوہری پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع کیا اور واضح طور پر اسے پرامن مقاصد کے ساتھ مشروط رکھا۔ 1966 میں پہلے نیو کلیئر پاور پلانٹ کے قیام کے بعد سے جاپان کا شمار نیوکلیئر توانائی کے سب سے بڑے صارف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور خطے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اب جاپان کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ جاپان اپنی موجودہ نیو کلیئر پالیسی پر کار بند رہے گا یا بدلتے حالات میں کسی نئے پلان کو اپنی حکمت عملی میں شامل کرے گا۔ اس تاثر کے پیچھے جو منطق پیش کی جاتی ہے اس کے مطابق جاپان کی یہ پالیسی اس کے آئین میں موجود آرٹیکل 9 سے منسلک ہے، جو جاپان کو جنگ چھیڑنے اور جارحانہ فوج رکھنے سے روکتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس پالیسی کی نئی تشریحات اور جاپان سیلف ڈیفنس فورس (SDF) کے کردار میں تبدیلی کے بعد سے کچھ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ جاپان کو اپنی جوہری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ 2014 میں جاپانی حکومت نے آرٹیکل 9 کی ایک نئی تشریح پیش کی، جس کے مطابق اب جاپان کو ’’اجتماعی دفاعی کارروائی‘‘ (Collective Self-Defense) میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ جس کے بتدریج اور پے درپے ایسے واقعات بھی ظہور پزیر ہوئے جن سے اس خیال کو تقویت ملنا شروع ہوئی کہ جاپان اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ مثلاً 2015 میں جاپان کے سیکورٹی قانون میں تبدیلیاں سامنے آئیں، جس کے مطابق اب جاپان اپنی دفاعی فورسز کو بیرونِ ملک بھجوا سکتا ہے، بشرطیکہ یہ قومی دفاع اور اتحادیوں کی مدد کے لیے ضروری ہو۔

مزید برآں جاپان تواتر کے ساتھ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے، جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، جدید فضائی دفاعی نظام، اور سائبر ڈیفنس سسٹم شامل ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین اس صورتحال کو مخصوص سیاسی اور تزویراتی عوامل سے جوڑتے ہیں جن کے مطابق جاپان میں جوہری پالیسی پر نظر ِ ثانی کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان مبصرین کے مطابق ان عوامل میں چین اور شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیتوں، شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی ترقی اور بار بار کیے جانے والے میزائل تجربات کو جاپان کے لیے ایک بڑا سیکورٹی چیلنج ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جاپان اب تک امریکی نیوکلیئر امبریلا کے تحت اپنی سلامتی کو یقینی بناتا رہا ہے، اور اب کچھ ماہرین یہ رائے بھی پیش کرتے ہیں کہ امریکا کے تزویراتی مفادات بہت غیر یقینی ہوتے ہیں، اس بات کی پیش گوئی مشکل ہے کہ ان میں تبدیلی آجائے۔ اس خدشے کے پیش نظر، کچھ جاپانی رہنما ماضی میں یہ تجویز پیش کرتے رہے ہیں کہ جاپان کو خود مختار جوہری ڈیٹرنس پالیسی بنانے پر غور کرنا چاہیے۔ اس سے قبل سابق وزیر ِ اعظم شینزو آبے اور کچھ دیگر رہنماؤں نے یہ تجویز دی تھی کہ جاپان کو ’’نیوکلیئر شیئرنگ‘‘ کے ماڈل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ (دفاعی ماہرین کے مطابق نیوکلیئر شیئرنگ ایک ایسا انتظام ہوتا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت اور کنٹرول تو کسی ایک ملک کے پاس ہوتا ہے، لیکن دوسرے ممالک کو ان ہتھیاروں کے استعمال اور اسٹوریج میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ناٹو (NATO) کے نیوکلیئر شیئرنگ پروگرام کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ایک مثال امریکا کے وہ ایٹمی ہتھیار ہیں جو بعض یورپی اتحادی ممالک مثلاً جرمنی، بلجیم اور اٹلی میں رکھے گئے ہیں، جنہیں ضرورت پڑنے پر یہ ممالک استعمال کر سکتے ہیں، لیکن ان کا حتمی کنٹرول امریکا کے پاس ہوتا ہے۔) لیکن اس فارمولے جاپان میں داخلی طور پر شدید اختلافات موجود ہیں کیونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے حوالے سے جوہری ہتھیاروں کی شدید مخالف ہے۔

آئیں اب ایک جائزہ لیں کہ وہ کون سے عوامل ہوسکتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جاپان اپنی جوہری پالیسی میں تبدیلی کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے۔ ان میں سر فہرست علاقائی علاقائی خطرات ہیں۔ ہر چند کہ چین ابھی تک این پی ٹی پر کار بند ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے NFU یعنی نو فرسٹ یوز کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن امریکا کی بڑھتی ہوئی جنگی حکمت عملی اور ساؤتھ چائنا سی میں کواڈ کی کوئی بھی ایسی پیش قدمی جس سے چین اپنے دفاع کے لیے نیو کلیئر توانائی سے کاؤنٹر کرنے کی تحریک جاپان کو بھی اپنی ڈیٹرنس پالیسی میں تبدیلی پر غور کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ دوسرا فیکٹر جو جاپان کے لیے محرک بن سکتا ہے یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر جاپان کو امریکا کے ساتھ نیوکلیئر امبریلا پر تحفظات پیدا ہوتے ہیں، تو جاپان نیوکلیئر شیئرنگ جیسے ماڈلز پر غور کر سکتا ہے۔ اس ہائپو تھیسس کے جواب میں ایک اینٹی تھیسس بھی پیش کیا جاتا ہے جس کے مطابق اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جاپان کی نیو کلیئر پالیسی میں کوئی تبدیلی لائے گا اور اس کے لیے سب سے بڑی وجہ عوامی دباؤ اور جاپان کی آئینی حدود بتائے جاتے ہیں۔ اس اینٹی تھیسس کی تیسری بڑی وجہ وہ بین الاقوامی معاہدہ (NPT) ہے جو جاپان کے جوہری ہتھیار بنانے کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔ بہر حال غالب امکان یہی ہے کہ فی الحال، جاپان اپنی جوہری پالیسی میں کوئی فوری تبدیلی نہیں کرے گا، لیکن اگر علاقائی سیکورٹی صورتِ حال بگڑتی ہے، تو جاپان ’’نیوکلیئر ڈیٹرنس‘‘ سے متعلق متبادل آپشنز پر غور کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چین اور جاپان مختلف عالمی فورمز پر مل جل کر کام کریں تاکہ نیو کلیئر تحفظ اور جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو تیز کیا جاسکے۔ اس سے ایشیا پیسفک ہی میں نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی استحکام اور ترقی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیوکلیئر شیئرنگ جوہری ہتھیار کے حوالے سے پالیسی میں میں تبدیلی اپنی دفاعی کے امکانات جاپان اپنی امریکا کے پالیسی پر میں جاپان اس معاملے حکمت عملی نیو کلیئر اور جاپان کے مطابق جاپان کو جاپان کے جاپان کی جاتا ہے سکتا ہے ہوتا ہے کے بعد کرے گا

پڑھیں:

واٹس ایپ کی ڈیلیٹڈ اکاؤنٹس بارے پالیسی اور حمیرا اصغر کے اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیاں

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے 8 جولائی کو کئی ماہ پرانی لاش برآمد ہونے کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ لاش معروف اداکارہ حمیرا اصغر کی تھی۔ معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ان کے واٹس ایپ اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیوں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔

اداکارہ کی گمشدگی کا دعویٰ کرنے والے اسٹائلسٹ دانش مقصود نے بتایا کہ حمیرا کے فون پر آخری سرگرمی 5 فروری کو دیکھنے میں آئی۔ ان کے مطابق اس دن نہ صرف اداکارہ کے واٹس ایپ کی پروفائل تصویر ہٹا دی گئی بلکہ ان کا لاسٹ سین بھی غائب کر دیا گیا۔ یہ سب اس وقت ہوا جب اداکارہ کی لاش کئی ماہ سے بے یارو مددگار پڑی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر کے خلاف کرایہ داری کیس کی تفصیلات سامنے آگئیں

دانش کا کہنا ہے کہ ان کی حمیرا سے آخری بات چیت 2 اکتوبر کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن پیغامات کبھی پڑھے نہیں گئے۔ دانش کے بقول جب مسلسل خاموشی رہی تو انہوں نے 5 فروری کو سوشل میڈیا پر اداکارہ کی گمشدگی کی پوسٹ لگانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم پوسٹ لگانے کے اگلے ہی دن جب انہوں نے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہیں واٹس ایپ اکاؤنٹ پر واضح تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ پروفائل تصویر غائب تھی اور لاسٹ سین بھی بند ہو چکا تھا۔

ادھر تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ اداکارہ کی موت 7 اکتوبر 2024 کو ہوئی تھی اور اسی روز شام 5 بجے تک ان کا فون استعمال ہوا۔ اس تناظر میں اگر واٹس ایپ کی پالیسی کو مدنظر رکھا جائے تو کوئی بھی اکاؤنٹ اگر مسلسل 120 دن غیر فعال رہے تو کمپنی کی جانب سے اسے خودکار طور پر ڈیلیٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں صارف کی پروفائل تصویر بھی ہٹ جاتی ہے اور لاسٹ سین بھی غائب ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر نے واٹس ایپ ہیک ہونے کی شکایت درج کرائی، ڈی آئی جی ساؤتھ کا انکشاف

7 اکتوبر کے بعد 120 دن 4 فروری 2025 کو مکمل ہوتے ہیں، یعنی یہ ممکن ہے کہ حمیرا کا واٹس ایپ اکاؤنٹ کمپنی کی پالیسی کے تحت خودکار طریقے سے غیر فعال ہوا ہو۔ تاہم یہ اب تک واضح نہیں ہو سکا کہ ان کا موبائل فون کب تک انٹرنیٹ سے منسلک رہا یا اس دوران کسی تیسرے فرد نے ان کے فون یا واٹس ایپ اکاؤنٹ تک رسائی حاصل کی۔

اداکارہ کی موت اور ان کے واٹس ایپ پر دیکھی گئی سرگرمیوں کے درمیان وقت کا فاصلہ اور انکشافات اب تفتیشی اداروں کے لیے ایک نیا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ اس معاملے میں تفتیش جاری ہے اور جلد مزید تفصیلات سامنے آنے کی توقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news حمیرا اصغر موبائل فون واٹس ایپ

متعلقہ مضامین

  • نائب وزیرِاعظم کی امریکی سرمایہ کاروں سے ملاقات، پاکستان کے معاشی امکانات پر تبادلہ خیال
  • جاپان میں شوہر اپنی پوری تنخواہ بیوی کو کیوں دیتے ہیں؟ دلچسپ وجوہات جانیں
  • بارشیں اور حکومتی ذمے داری
  • جعلی بیج زراعت اور کلائیمیٹ چینج
  • واٹس ایپ کی ڈیلیٹڈ اکاؤنٹس بارے پالیسی اور حمیرا اصغر کے اکاؤنٹ پر مبینہ سرگرمیاں
  • ایف ٹی اے ہندوستان کی صنعتی پالیسی میں ایک خطرناک تبدیلی ہے، جے رام رمیش
  • والدین یہ معلومات ضرور جان لیں!!! نادرا نے پالیسی تبدیل کردی
  • جاپانی مارکیٹ سے پاکستانی طلبا کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
  • امریکا اور جاپان کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا، درآمدی محصولات میں کمی
  • گلگت بلتستان میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن، سیلاب سے متاثرہ چند مقامات کلیئر