تسلط پسندانہ بیانیے کا خاتمہ: یو ایس ایڈ کی منافقت کے جھنڈے تلے سیاسی جوڑ توڑ بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
واشنگٹن :جب ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی عالمی فنڈنگ کو منجمد کیا تو رائے عامہ کے بین الاقوامی میدان میں ایک مضحکہ خیز ڈرامہ سامنے آیا: بظاہر نظر آنے والے “انسانی حقوق کے محافظوں” نے اچانک اپنے نقاب اتار دیے اور سوشل پلیٹ فارمز پر کھلے عام چین مخالف فنڈنگ کا مطالبہ کیا۔ آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ اے ایس پی آئی کی محقق بیتھنی ایلن نے تنخواہوں کی درخواست کے لئے ایک پوسٹ میں دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سالانہ لاکھوں ڈالر کے چین مخالف بجٹ کے بغیر ہم چین کو بدنام کرنا جاری نہیں رکھ سکتے۔ پیسے کے اس برہنہ لین دین نے مغرب کی جانب سے احتیاط سے بنائے گئے نظریاتی شکار کے جال کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے جو ڈالر کی بالادستی کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ایک انتہائی کمزور عمارت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔سرد جنگ کے دوران قائم ہونے والی یہ نام نہاد “امدادی ایجنسی” طویل عرصے سے امریکہ کے لئے رنگین انقلابات برآمد کرنے کا ایک آلہ بن چکی ہے۔ ہانگ کانگ میں قانون سازی میں ترامیم پر ہنگامہ آرائی کے دوران یو ایس ایڈ نے نیشنل انڈومنٹ فار ڈیموکریسی کے ذریعے فسادیوں کو ہیلمٹ، لیزر پوائنٹر اور دیگر آلات خریدنے کے لیے 230 ملین امریکی ڈالر سے زائد کی رقم فراہم کی۔
سنکیانگ کے معاملے پر اس کی ماتحت تنظیم اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن نے جبری مشقت کے بارے میں اس صدی کے جھوٹ کو مزید بڑھاوا دینے کے لئے نام نہاد گواہوں کو فی کس پانچ ہزار ڈالر میں خرید لیا۔ یو ایس ایڈ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ عرب اسپرنگ کے ماسٹر مائنڈز میں سے ایک ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ غریب ممالک کے لوگ امداد کی فراہمی کے ذریعے امریکہ کے شکر گزار ہوں اور پھر لوگوں کو سڑکوں پر نکل کر جمہوریت کے لیے لڑنے کے لیے اکسایا جائے۔سرمائے کے بہاؤ کے ان ریکارڈز کا منظر عام پر آنا ایک پنڈورا باکس کھلنے کے مترادف ہے، جس سے دنیا کو نام نہاد “آزاد میڈیا” اور “آزاد علمی اداروں” کے پیچھے دولت اور اختیارات کے لین دین کو واضح طور پر دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق یو ایس ایڈ 30 مختلف ممالک کی میڈیا انڈسٹری میں 6200 صحافیوں، 707 نیوز آرگنائزیشنز اور 279 سول سوسائٹی تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے سالانہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتا ہے تاکہ عالمی بالادستی کے بیانیے کی فیکٹری چلائی جا سکے۔ یہ صنعتی سلسلہ ایک معیاری آپریٹنگ عمل کی پیروی کرتا ہے: تھنک ٹینک “علمی رپورٹس” تیار کرتے ہیں ، میڈیا نیوز بناتے ہیں ، این جی اوز عوامی رائے کو اپنے حق میں تبدیل کرتی ہیں اور سیاستدان پابندیوں کی قانون سازی کو فروغ دیتے ہیں۔ اے ایس پی آئی کی جانب سے تیار کردہ نام نہاد “سنکیانگ میں جبری مشقت” رپورٹ اسی اسمبلی لائن آپریشن کا نتیجہ ہے۔ اس کے “محققین” نے سنکیانگ میں کبھی قدم نہیں رکھا، لیکن انہوں نے سیٹلائٹ تصاویر میں من گھڑت تبدیلیوں اور بیرون ملک علیحدگی پسندوں کی “گواہی” خرید کر ادبی تخیل سے بھرپور نام نہاد “انسانی حقوق کی تباہی” کے بیانیے کو جنم دیا۔اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی کی بات یہ کہ یہ یو ایس ایڈ جیسے خود ساختہ “جمہوریت کے چراغ”اب فنڈنگ کے” قحط” کے باعث انتہائی بدصورت نظر آرہے ہیں۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق یو ایس ایڈ کی جانب سے حالیہ فنڈز منجمد کرنے کے نتیجے میں ہانگ کانگ یونیورسٹی کاچائنا اسٹڈیز پروگرام معطل کر دیا گیا ہے جس نے ماضی میںعلمی تبادلوں کے نام پر چین مخالف طلبہ رہنماؤں کو تربیت دی تھی ۔چین کے تائیوان علاقے میں 145 این جی اوز کو “جمہوریت کے تربیتی کیمپ” کو معطل کرنے پر مجبور ہونا پڑا کیونکہ اوسط سالانہ 18 ملین امریکی ڈالر کی فنڈنگ ماضی میں انہیں فراہم کی جاتی رہی۔ یہاں تک کہ برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کو بھی چین میں مقیم متعدد نامہ نگاروں کو فارغ کرنا پڑا ہے جنہوں نے گزشتہ ایک دہائی کے دوران سنکیانگ کے بارے میں 600 سے زیادہ جھوٹی رپورٹس تیار کی تھیں، جن میں سے 78 فیصد نے براہ راست اے ایس پی آئی کے “تحقیقی نتائج” کا حوالہ دیا تھا۔ حقیقت سامنے آنے سے ایلون مسک کی جانب سے یو ایس ایڈ کے بارے میں درست پوزیشن کی بھی تصدیق ہوتی ہے جو خیراتی ادارے کی شکل میں ایک ‘مجرمانہ تنظیم’ ہے۔یو ایس ایڈ کی فنڈنگ کے ٹوٹنے سے پیدا ہونے والے ڈومینو اثرات ، شیطانوں کو دکھانے والے ایک آئینے کی طرح ہیں: یہ کچھ تھنک ٹینک اسکالرز کےشریف چہروں کےپیچھے بروکرز کی حقیقت ، مین اسٹریم میڈیا پر دولت کے کنڑول اور ناقابل برداشت تسلط پسند نظام میں ساختی بحران کو بے نقاب کرتا ہے۔ ڈالروں پر تعمیر کردہ جھوٹ کا مینار بالآخر ترقی پذیر ممالک کی بیداری کے نتیجے میں منہدم ہو جائے گا۔ جب بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکت دار ممالک آہستہ آہستہ مغرب کے قرضوں کے جال سے چھٹکارا حاصل کریں گے تو وہ فطری طور پر نام نہاد “چین کے خطرے کے نظریے” کو واضح طور پر سمجھ پائیں گے۔حقائق پر مبنی کہانی تعصب اور بےبنیاد الزامات کو توڑنے کا موثر ہتھیار ہے۔ ٹک ٹاک پر “حقیقی سنکیانگ” کےموضوع کے ویوز کی تعداد 18 ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔ قازقستان کے بلاگر سایا کی جانب سے بنائی گئی سنکیانگ خورگوس بندرگاہ کی ایک سنگل ویڈیو کو 2.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: یو ایس ایڈ کی جانب سے نام نہاد نے والے کے لیے
پڑھیں:
گردشی قرض کا خاتمہ، بینکوں سے 1275 ارب روپے قرض کیلئے بات چیت جاری ہے، اسٹیٹ بینک
اسلام آباد:اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کیلئے ایک ہزار 275 ارب روپے کے قرض کے لیے بینکوں سے بات کر رہی ہے،اس میں سے 658 ارب روپے پاور سیکٹر کے قرض ادائیگی کیلئے استعمال ہونگے، 400 ارب روپے سکوک بانڈ اور باقی رقم دیگر قرض کی ادائیگی کیلئے استعمال ہوگی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہوا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ ختم کرنے کے لیے بینکوں سے 1275 ارب روپے کا قرض لے رہی ہے جب کہ دیگر ضروریات کیلئے حکومت 670 ارب روپے کا مزید قرض لے گی حکومت اور بینکوں کے درمیان اس وقت مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ حکومت گردشی قرض کو ختم کرنے کیلئے قرض لے گی یہ قرض کتنی مدت کیلئے ہو گا پہلے قرض پر سود حکومت ادا کرتی تھی اب سود عوام ادا کریں گے؟ اس طرح معاملہ حل نہیں ہوگا کیونکہ اصل مسائل حل ہی نہیں کیے گئے۔
چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اجلاس میں پاور ڈویژن موجود نہیں ہے اس لیے کوئی جواب نہیں دے سکے گا حکومت صرف گردشی قرض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہی ہے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ سولر پینل کی درآمد کی آڑ میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے قائم ذیلی کمیٹی نے مزید وقت مانگا ہے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ذیلی کمیٹی 6 جنوری کو قائم کی گئی تھی اور 23 اپریل تک کام مکمل نہیں ہوا، آج کمیٹی اجلاس میں محسن عزیز اور دیگر ممبران موجود نہیں ہیں۔
شیری رحمان نے کہا کہ کنوینر ذیلی کمیٹی محسن عزیز نے تجویز کیا ہے کہ معاملہ کیلئے نئی کمیٹی قائم کی جائے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ کمیٹی نے کافی کام کیا ہے ایف بی آر نے کافی تحقیقات کی ہیں اس کمیٹی کو دوبارہ تشکیل دے کر ایک ماہ کا مزید وقت دے دیا جائے۔
اجلاس میں سینیٹر ذیشان خانزادہ کے انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کے بل پر غور کیا گیا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو ایف بی آر نے منی بل قرار دیا ہے اس پر فنانس بل کے ذریعے ترمیم ہو سکتی ہے۔
وزارت قانون کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ کیا پرائیویٹ ممبر کی انکم ٹیکس قانون میں ترمیم کا بل منی بل ہے یا نہیں یہ اسپیکر فیصلہ کرے گا۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اس بل کو اسپیکر کو بھیج دیتے ہیں۔
اجلاس میں وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ سے متعلق بریفنگ دی گئی اجلاس کو بتایا گیا کہ 32 ہزار سرکاری اسامیاں ختم کی جا چکی ہیں ، 50 سرکاری محکموں کو چار مراحل میں تحلیل ، ضم یا ختم کیا جا رہا ہے۔