اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 فروری 2025ء) ملک ریاض کے اس اعلان سے جہاں پراپرٹی کی خریداروں میں ہلچل دیکھی جا رہی ہے، وہیں پاکستان میں ان کے خلاف نئے مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ اب اطلاعات ہیں کہ حکومت ان کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ساتھ ہی متحدہ عرب امارات سے انہیں ڈی پورٹ کروا کر پاکستان لانے کے لیے بات چیت بھی کی جا رہی ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک ریاض اپنے خلاف جاری مقدمات کی سماعت سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔

پاکستان کے قومی احتساب بیورو نیب نے اپنی ایک پریس ریلیز میں نہ صرف متحدہ عرب امارات میں ملک ریاض کے اس نئے منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے بلکہ ساتھ ہی اس منصوبے کو ملک ریاض کی منی لانڈرنگ کی آمدن کا ایک حصہ بھی قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

ساتھ ہی اس حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) نے گزشتہ دس سال سے تعطل کا شکار تحقیقات کی روشنی میں عدالت میں بحریہ ٹاؤن کو کراچی میں قیمتی زمین کوڑیوں کے دام الاٹ کرنے پر تین ریفرنس بھی دائر کر دیے ہیں۔

ملک ریاض اپنےحالیہ میڈیا انٹرویوز میں ان ریفرنسز کو حکومت کی انتقامی کارروائی قرار دیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت انہیں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانا چاہتی ہے۔

کیا پاکستانی سیاست میں بحریہ ٹاؤن اور اس کے روح رواں ملک ریاض بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؟ اس سوال کے جواب کا اندازہ، اگر غور کریں تو صاف طور پر ان کے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مراسم کو دیکھ کر باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔

ملک ریاض کی خصوصی صلاحیت یہ ہے کہ وہ بیک وقت صدر آصف زرداری، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں کے ساتھ بھی اچھے مراسم رکھتے ہیں۔ مقدمات اور ریفرنس

قومی احتساب بیورو کی عدالت میں دائر کردہ ریفرنس میں بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے علی ریاض پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے اس وقت کی سندھ حکومت کی مبینہ ملی بھگت سے 700 ارب روپے مالیت کی قیمتی سرکاری زمین کوڑیوں کے مول خرید کر بحریہ ٹاؤن کراچی کی تعمیرکی۔

اس ریفرنس میں 33 افراد نامزد ہیں۔

اس ریفرنس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ، اس وقت کے وزیر بلدیات اور موجودہ صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن کے نام بھی شامل ہیں۔

ریفرنس کے مطابق سندھ حکومت کی سفارش پر تمام اصولوں اور ضابطوں کو نظرانداز کر کے راتوں رات بحریہ ٹاؤن کو زمین الاٹ کر دی گئی تھی۔

کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم زمان نے بحریہ ٹاؤن کو سندھ حکومت کی جانب سے خلاف ضابطہ زمین دیے جانے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور سیاسی شخصیات کی مدد کے بغیر بحریہ ٹاؤن کراچی کو صرف ایک روز میں ہزاروں ایکٹر قیمتی سرکاری زمین الاٹ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔

فہیم زمان کا دعویٰ ہے کہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کا دس سال کا برطانوی وزٹ ویزا منسوخ ہونے کی وجہ بھی ان کا مبینہ طور پر کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونا بنا۔

لندن کی ایک عدالت کے فیصلے میں ویزے کی منسوخی کی وجوہات میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق سرگرمیوں کو تفصیل سے موضوع بنایا گیا ہے۔ راؤ انوار کے صدر زرداری پر الزامات کیوں؟

بحریہ ٹاؤن اور اس کی تعمیر میں جب بھی سندھ حکومت کی مبینہ مجرمانہ غفلت اور کرپشن کی بات ہو، تو وہاں سندھ پولیس کے متنازعہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کا ذکر ضرور آتا ہے۔

وہ جب تک سندھ پولیس کا حصہ رہے، پیپلز پارٹی کی قیادت کی آنکھ کا تارا تھے۔ مگر ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جیسے پھٹ پڑے۔ راؤ انوار نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کے سنگین الزامات لگائے۔

انہوں نے کہا کہ بہ حیثیت ایس ایس پی ملیر بحریہ ٹاؤن ان کے دائرہ اختیار میں ضرور آتا تھا، مگر وہ ملک ریاض سے اس وقت واقف ہوئے، جب اس منصوبے کے آغاز پر آصف زرداری نے انہیں فون پر ملک ریاض کا ''خیال رکھنے‘‘ کا کہا۔

راؤ انوار نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے ''لوٹ مار اور کرپشن کے پیسوں سے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں ہیں۔‘‘ انوار نے تاہم صدر زرداری اور پیپلز پارٹی سے اپنی ناراضی کی وجہ نہیں بتائی۔

راؤ انوار نے بتایا کہ سن 2018 میں ایف آئی اے نے جو جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ تیار کی تھی، اس میں انکشاف ہوا تھا کہ مبینہ طور پر آصف زرداری نے ملک ریاض کو فائدہ پہنچایا تھا۔

راؤ انوار کے ان الزامات پر وزیراطلات سندھ شرجیل میمن اور ترجمان سندھ حکومت سے ان کی رائے لینے کے لیے متعدد مرتبہ درخواست کی گئی، تاہم ان کا ڈی ڈبلیو کو کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

سیاست اور کاروباری شخصیات

سیاسی تجزیہ نگار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 1990 کی دہائی میں پہلی بار ملک ریاض کا نام سامنے آیا کیوں کہ اس وقت متعدد کاروباری شخصیات سیاست میں فعال ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں فوجی خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے کہنے پر مشہور بینکر یونس حبیب کے ہاتھوں مہران بینک کے ذریعے 90 کروڑ روپے سیاست دانوں میں تقسیم کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا اوراب 190 ملین پاؤنڈ کی رقم القادر ٹرسٹ کے نام پر عمران خان کو دینے کا الزام ہے۔ مگر اب نیب نے بحریہ ٹاؤن کو کراچی میں زمین الاٹ کرنے پر ریفرنس دائر کر دیا ہے۔

مظہر عباس نے کہا کہ ملک ریاض کی شہرت سیاست دانوں کو اپنا پرائیویٹ جہاز فراہم کرنے کے حوالے سے بھی ہے۔ میڈیا ادارے بھی اشتہارات کی وجہ سے ان کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ ملک ریاض کا نام آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان کے ساتھ بھی جڑا، جس کی وجہ سے یہ تاثر نمایاں ہوا کہ وہ ممکنہ طور پر حکومتیں گرانے اور بگاڑنے میں بھی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بحریہ ٹاؤن کو سندھ حکومت کی پیپلز پارٹی راؤ انوار ڈی ڈبلیو ملک ریاض انوار نے ریاض کا کے خلاف کہا کہ کی وجہ

پڑھیں:

حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔

پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔

گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔

ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • بدین: سیاف کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن میں کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ میں شرکاء نعرے لگا رہے ہیں
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • ایڈووکیٹ ایمان مزار ی کے خلاف لائسنس منسوخی کا ریفرنس دائر کردیا گیا
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • سندھ بلڈنگ، صدر ٹاؤن میں تعمیراتی مافیا سرگرم، رہائشی پلاٹوں پر قبضہ
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • عراق پر اسرائیلی حملے کی وارننگ کے بعد دفاعی اقدامات کا آغاز
  • بھارت میں کرکٹ کو مودی سرکار کا سیاسی آلہ بنانے کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں
  • سندھ امن مارچ نواب شاہ پہنچ گیا، راشد محمود سومرو کا حکومت، ڈاکوؤں اور کرپشن پر کڑی تنقید