Nawaiwaqt:
2025-06-10@03:03:32 GMT

نسان اور ہونڈا نے اہم اعلان کر دیا

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

نسان اور ہونڈا نے اہم اعلان کر دیا

جاپان کی دوسری اور تیسری بڑی کار ساز کمپنیوں، ہونڈا اور نسان نے اعلان کیا ہے کہ ان کے بورڈز نے انضمام کے لیے بات چیت ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا ہے۔البتہ انھوں نے عالمی مسابقت میں شدت کے درمیان الیکٹرک گاڑیوں پر اپنا تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔جمعرات کے اعلان سے ایک ممکنہ ٹائی اپ ختم گیا جس سے دنیا کا تیسرا سب سے بڑا کار ساز ادارہ بن جاتا، جس کی مالیت 60 بلین ڈالر تھی۔فرموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وہ "دونوں کمپنیوں کے درمیان کاروباری انضمام پر غور کرنے کے لیے گزشتہ سال 23 دسمبر کو دستخط کیے گئے MOU (مفہوم کی یادداشت) کو ختم کرنے پر رضامند ہیں”۔ذرائع نے پہلے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا تھا کہ نسان نے مبینہ طور پر بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے بات چیت کے پیچیدہ ہونے کے بعد بڑے حریف ہونڈا کے ساتھ بات چیت سے دستبرداری اختیار کر لی، جس میں ہونڈا کی تجویز بھی شامل ہے کہ نسان ایک ذیلی ادارہ بن جائے۔کمپنی کے دو صدور، ہونڈا کے Toshihiro Mibe اور Nissan کے Makoto Uchida نے ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جس میں اگست 2026 تک ایک ہولڈنگ کمپنی کے قیام کی پیش کش کی گئی جو ممکنہ طور پر ٹویوٹا اور ووکس ویگن کے بعد مارکیٹ میں تیسرے نمبر پر آسکتی ہے۔ہونڈا، جو اس وقت جاپان کی دوسری سب سے بڑی کار ساز کمپنی ہے، کو وسیع پیمانے پر واحد قومی پارٹنر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو نسان کو بچانے کے قابل ہے جس نے 2018 میں کمپنی کے اثاثوں کے دھوکہ دہی اور غلط استعمال کے الزام میں سابق چیئرمین کارلوس گھوسن کی گرفتاری کے بعد سے جدوجہد کی ہے۔نسان، جس کی مالیت تقریباً 10 بلین ڈالر ہے اس نے نومبر میں کہا تھا کہ وہ 9,000 ملازمتیں، یا اپنی عالمی افرادی قوت کا 6 فیصد، اور 9.

3 بلین ین ($60m) کے سہ ماہی نقصان کے بعد اپنی عالمی پیداواری صلاحیت میں 20 فیصد کمی کر رہا ہے۔لیکن انضمام، جس میں نسان الائنس کے چھوٹے ممبر مٹسوبشی موٹرز بھی شامل ہوں گے اس کے نتیجے میں تینوں کار سازوں کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن کی بنیاد پر $50bn سے زیادہ کی قیمت ہو سکتی ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن چھاپوں کے بعد پیدا ہونے والے عوامی احتجاج کے پیشِ نظر لاس اینجلس میں 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے، یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب فیڈرل ایجنٹس اور مظاہرین کے درمیان دوسرے روز بھی جنوب مشرقی لاس اینجلس کے علاقے پیرا ماونٹ میں کشیدگی برقرار رہی۔

ہفتے کی رات مظاہرین نے میکسیکو کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بعض نے چہروں پر ماسک پہن رکھے تھے، اس دوران سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے بارڈر چیف ٹام ہومین نے تصدیق کی کہ نیشنل گارڈز اتوار کو لاس اینجلس میں تعینات کیے جائیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ صدر نے ایک یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت “قانون شکنی کے خاتمے” کے لیے 2,000 نیشنل گارڈ اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

‘ٹرمپ انتظامیہ مجرموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی رکھتی ہے۔ ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔’

تاہم، کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوسم نے اس اقدام کو ’سوچا سمجھا اشتعال انگیز‘ قرار دیا۔

امیگریشن پالیسی پر شدید ردعمل

مظاہروں کا آغاز ان امیگریشن چھاپوں کے بعد ہوا، جن میں امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ یعنی آئی سی ای کے ایجنٹس نے کم از کم 44 افراد کو امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا۔ مظاہرے پیرا ماونٹ کے ایک ہوم ڈیپو کے نزدیک بھی ہوئے، جہاں اہلکاروں کے مبینہ طور پر بیس قائم کرنے کی اطلاعات تھیں۔

محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے دعویٰ کیا کہ تقریباً 1,000 مظاہرین نے ایک وفاقی عمارت کو گھیر لیا، اہلکاروں پر حملہ کیا، گاڑیوں کے ٹائروں کو کاٹا اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اگرچہ یہ دعویٰ آزاد ذرائع سے تصدیق شدہ نہیں، لیکن حالات کشیدہ ضرور تھے۔

امیگرنٹس رائٹس گروپ کرلا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلیکا سالاس کے مطابق، وکلا کو حراست میں لیے گئے افراد تک رسائی نہیں دی گئی، جسے انہوں نے ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا۔

صدر ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت میں ریکارڈ تعداد میں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے اور امریکا-میکسیکو سرحد کو مکمل بند کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ہدایت پرآئی سی ای کو روزانہ کم از کم 3,000 افراد کو گرفتار کرنے کا ہدف دیا گیا ہے۔

سیاسی ردعمل اور قانونی سوالات

ٹرمپ کے مشیر اور سخت گیر امیگریشن پالیسی کے حامی اسٹیفن ملر نے ان مظاہروں کو ’ریاستی خودمختاری پر بغاوت‘ قرار دیا، جبکہ ہفتے کو مظاہروں کو ’پر تشدد بغاوت‘ سے تعبیر کیا۔

کولمبیا کے صدر پیٹرو کی طرح، ٹرمپ کے حامیوں نے اس پورے معاملے کو قانون کی بالادستی سے جوڑا، جبکہ مخالفین نے اسے انسانی حقوق اور بنیادی شہری آزادیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔

ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ بغیر نشانات والی فوجی گاڑیاں اور وردی میں ملبوس اہلکار شہر میں گشت کر رہے تھے۔ چھاپے زیادہ تر ہوم ڈیپو، گارمنٹ فیکٹریوں، اور گوداموں کے علاقوں میں کیے گئے، جہاں اسٹریٹ وینڈرز اور یومیہ مزدوروں کو گرفتار کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسٹیفن ملر امریکی صدر امیگریشن امیگریشن پالیسی انسانی حقوق ٹرمپ انتظامیہ ڈونلڈ ٹرمپ شہری آزادیوں لاس اینجیلس

متعلقہ مضامین

  • سندھ اورپنجاب کا بجٹ 13جون کو پیش کرنے کا اعلان
  • عاقب جاوید کا ویمنز کرکٹ اور نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے اہم اعلان
  • راولپنڈی: ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کا عید صفائی آپریشن کامیابی سے مکمل
  • ٹرمپ انتظامیہ کا امیگریشن چھاپوں کے بعد لاس اینجلس میں نیشنل گارڈز تعینات کرنے کا اعلان
  • داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
  • اسپیس ایکس نے فلوریڈا سے سرئیس ایکس ایم کا نیا سیٹلائٹ لانچ کر دیا
  • ایسی کیا شکایت تھی کہ 40 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ڈمبلز واپس منگوانے پڑگئے؟
  • جاپانی کمپنی ‘آئی اسپیس’ کا دوسرا چاند مشن بھی ناکام، ‘ریزیلینس’ لینڈر چاند پر گر کر تباہ
  • نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی کا اعلان
  • جاپانی کمپنی کا مون لینڈر ایک بار پھر ناکام، چاند پر پہنچنے سے پہلے رابطہ منقطع