گنڈاپور کی خان سے شیر افضل کو نکالنے پر نظرثانی کی درخواست
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
راولپنڈی (آن لائن) وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان سے ملاقات کی ہے جس میں سیاسی امور اور پارٹی معاملات پر بات چیت کے علاوہ شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کے فیصلے پر بھی بات کی گئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ملاقات میں سیاسی امور اور پارٹی معاملات کے علاوہ خیبرپختونخوا کے مختلف منصوبوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور نے عمران خان سے شیرافضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی۔
یاد رہے کہ تحریک انصاف نے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے باقاعدہ اعلامیہ جاری کیا تھا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
مودی کو بڑا جھٹکا، برکس ممالک کی بھارت کو اپنے اتحاد سے نکالنے کی تیاریاں
پاکستان کے خلاف بلاجواز جارحیت اور ”آپریشن سندور“ کی ناکامی نے بھارت کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ باخبر سفارتی ذرائع کے مطابق، طاقتور اقتصادی اتحاد ”برکس“ (BRICS) یعنی (برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ) بھارت کو اتحاد سے خارج کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چین، روس اور برازیل کے درمیان اس حوالے سے باقاعدہ مذاکرات جاری ہیں، جبکہ بھارت کی جگہ انڈونیشیا کو نیا اہم رکن بنانے کی تجویز بھی پیش کی جا چکی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ روس بھی بھارت کے اخراج کی حمایت کر رہا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ برکس رکن ممالک بھارت کو ایک ”منفی بلاک“ تصور کر رہے ہیں اور اس پر اتحاد کے اہداف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت نہ صرف ترقی اور اقتصادی اشتراک میں رکاوٹ بن رہا ہے، بلکہ اس کے متنازعہ علاقائی رویے اتحاد کے اندر بداعتمادی کو ہوا دے رہے ہیں۔
چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں زلزلہ، 6.7 شدت ریکارڈ
ذرائع نے مزید بتایا کہ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگیاں، نظریاتی اختلافات اور علاقائی بالادستی کے عزائم برکس کے اتحاد کو تقسیم کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ چین اور روس اب جنوبی ایشیا میں بھارت کے بجائے انڈونیشیا کو زیادہ قابل اعتماد اور اہم شراکت دار سمجھنے لگے ہیں۔
اگر بھارت کو برکس سے نکال دیا گیا تو یہ نہ صرف اس کی سفارتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہوگا بلکہ جنوبی ایشیا میں اس کے اثر و رسوخ میں نمایاں کمی کا آغاز بھی ثابت ہو سکتا ہے۔