Nai Baat:
2025-09-18@14:50:06 GMT

تیسرے خط کے بعد حالات

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

تیسرے خط کے بعد حالات

بانی پی ٹی آئی آرمی چیف کو دو خط لکھ چکے تھے اور اب تیسرا خط بھی کھڑکا ڈالا ہے۔ پہلے دونوں خطوط پر جس طرح کا رد عمل آیا اس کے باوجود بھی تیسرا خط لکھنے کا مقصد کیا ہے ۔ اس پر بھی بات ہو گی لیکن پہلے دیگر خطوط کا مختصر ذکر ہو جائے ۔ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان کی سیاست میں خطوط کا بڑا ذکر ہے ۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے تو پہلے بھی خط لکھا تھا اور انہی چھ میں سے پانچ محترم ججز نے اب پھر خط لکھا لیکن اس مرتبہ سپریم کورٹ کے چار ججز نے بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیا۔ یہ تمام خطوط چونکہ محترم ججز کی جانب سے لکھے گئے ہیں اس لئے ان کے ذکر میں تھوڑا محتاط رہنا ہوتا ہے لیکن جو بھی ہے ان کا مقصد عدلیہ کا وقار نہیں بلکہ سیاست ہی تھا ۔ ان تمام خطوط نے پاکستان کے سیاسی ماحول کو دو چار دن کے لئے تھوڑا گرم ضرور کیا لیکن ان تمام خطوط سے پاکستان کی سیاست یا عدالتی ماحول میں رتی بھر فرق نہیں پڑا بلکہ جس جس نے یہ خط لکھے انھیں اس قدر موثر اور مدلل جواب دیئے گئے کہ جن امور پر خطوط لکھے گئے اور ان میں جن امور کا ذکر تھا ان پر جو اختلاف رائے تھا اسے ختم کرنے میں بھی مدد ملی اور نہ صرف مدد ملی بلکہ ان خطوط کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور عدالت دونوں جگہ ماحول کو خراب کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی جو کوشش کی گئی تھی اس کو مکمل طور پر ناکام بنا دیا گیا ۔ اب بات کرتے ہیں کہ تیسرے خط کی ۔ بانی پی ٹی آئی نے طے کر رکھا ہے کہ انھوں نے ہر وہ کام کرنا ہے کہ جس پرمنفی ہونے کی چھاپ لگے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ انھوں نے تیسرے خط میں بھی چھ پوائنٹس لکھے ہیں اور جنھیں تاریخ کا پتا ہے انھیں بخوبی علم ہے کہ یہ 6پوائنٹس شیخ مجیب الرحمن کے تھے اور ان چھ پوائنٹس کا تعلق سقوط ڈھاکہ سے ہے ۔ اب یہ تو طے تھا کہ اس خط کا حشر بھی وہی ہو گا کہ جیسا اس سے پہلے دو خطوں کا ہوا ہے لیکن شومئی قسمت کہ اس تیسرے خط کا جو حشر ہوا اور پھر اس حشر کو میڈیا میں جس طرح نشر کیا گیا تو دنیا پہلے دو خطوں کا جو ون ٹو کا فور ہوا تھا اسے بھول گئی ۔
ایک تقریب میں رخصت ہوتے ہوئے صحافیوں کے سوالات کے جواب میں مختصر گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ انھیں بانی پی ٹی آئی کا خط نہیں ملااور اگر ملا بھی تو وہ پڑھیں گے نہیں بلکہ اسے وزیر اعظم کو بھجوا دیں گے ۔ آرمی چیف نے جو کچھ کہا اس کا ایک ایک لفظ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور حیرت ہے کہ آئین اور قانون کی بالادستی کا راگ الاپنے اور دن رات اس پر آنسو بہانے والے عمران خان آئین اور قانون کے بر خلاف آرمی چیف کو تیسرا خط لکھ رہے ہیں ۔ بانی پی ٹی آئی کا اس حوالے سے جو موقف ہے بحث سے بچنے کے لئے ہم اسے من و عن تسلیم کر لیتے ہیں کہ یہ حکومت واقعی بے بس ہے اور تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو سوال یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اس طرح آرمی چیف کو خط لکھ کر اور انھیں بار بار منت کر کے کہ آشیر باد ان کے سر پر رکھ کر انھیں حکومت میں لایا جائے کیا اس طرح وہ اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کر رہے ہیں یا انھیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں ۔ جو بات بانی پی ٹی آئی کر رہے ہیں کیا اس کھلی ڈھلی حقیقت کا ادراک شہید بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو نہیں تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ساٹھ ہزار کوڑے جیلیں پھانسیاں اور ہر طرح کا ظلم برداشت کر لیا لیکن جنرل ضیاءکے آگے اس طرح رحم کی اپیلیں کر کے ہاتھ نہیں پھیلائے اور اسی طرح مشرف دور میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے اس طرح کا رویہ نہیں اپنایا اور ایک آمر سے بار بار منتیں کرنے کی بجائے آ پس میں سیاسی قوتوں نے مل کر میثاق جمہوریت جیسی اہم ترین دستاویز پر دستخط کئے اور یہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی طاقت تھی کہ جس نے اس جنرل مشرف کو جس کا تکیہ کلام تھا کہ ” نو بی بی نو بابو “ اسے مجبور کیا کہ وہ خود چل کر بی بی شہید کے پاس جا کر این آر او کرے اور میاں صاحب کو وطن واپس آنے کی اجازت دے ۔ اگر اس دور میں سیاسی جماعتیں متحد ہونے کی بجائے منتشر رہتی تو مشرف دباﺅ میں آتا اور نہ ہی حالات پھر اس موڑ تک پہنچتے کہ جہاں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک آمر کو کہ جو58ٹو بی کی طاقت سے لیس تھا اسے ایک گولی چلائے بغیر منصب صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ۔
بانی پی آئی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس کوئی طاقت نہیںہے اور اسٹیبلشمنٹ ہی اس ملک میں اصل طاقت ہے تو اگر وہ آئین اور قانون کی بالادستی پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں اس کا طریقہ یہ تو بالکل بھی نہیں ہے اس لئے کہ جو طریقے آپ اپنا رہے ہیں اس میں تو آپ اسٹیبلشمنٹ کو مزید طاقتور اور سیاست دانوں کو کمزور سے کمزور تر کر رہے ہیں اور آپ کا مقصد کہیں نظر نہیں آتا کہ آپ آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں بلکہ آپ تو اپنے طرز سیاست سے انھیں مزید توانا کر رہے ہیں اور فقط یہ چاہتے ہیںکہ وہ دوسروں کی بجائے آپ کے سر پر آشیر باد کا ہاتھ رکھ دیں ۔ آپ اگر صدق دل سے آئین اور قانون کی بالادستی چاہتے ہیں تو اسٹیبلشمنٹ کو خطوط لکھنے اور ان کی چاپلوسی کرنے کی بجائے سیاسی قوتوں سے رابطہ کریں اور ان سے اتحاد کر کے انھیں طاقت ور کریں لیکن آپ ایسا کبھی نہیں کریںگے اس لئے کہ آپ کو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت یا آئین اور قانون کی بالادستی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ آپ صرف اپنے مفاد کی خاطر یہ سب کر رہے ہیں لیکن تیسرے خط پر آرمی چیف کے رد عمل نے اتنا ضرور بتا دیا کہ اب ملکی سیاست میں انتشار کی بجائے استحکام کے دن شروع ہو چکے ہیں اور سازشی عناصر کے عزائم کامیاب نہیں ہوں گے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: آئین اور قانون کی بالادستی بانی پی ٹی آئی پاکستان کی کر رہے ہیں تیسرے خط آرمی چیف کی بجائے کی سیاست ہیں اور خط لکھ اور ان

پڑھیں:

امریکی امیگریشن جج نے محمود خلیل کو تیسرے ملک بھیجنے کا حکم دے دیا

ایک امیگریشن جج نے پرو فلسطینی کارکن محمود خلیل کو امریکا سے الجزائر یا شام بھیجنے کا حکم دیا ہے، جس پر خلیل کے وکلا نے حکم کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

وجوہات و قانونی دعوے

جج جیمی کامنز نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست میں جان بوجھ کر کچھ ضروری معلومات پوشیدہ رکھی تھیں، جس سے امیگریشن عمل میں دھوکہ ہوا۔

???? BREAKING: An immigration judge has just ordered Mahmoud Khalil, who led the Palestine riots at Columbia University, be deported to SYRIA or ALGERIA

Good riddance, loser!

This comes after it was found out Khalil LIED on his green card application. pic.twitter.com/gxBmGANipC

— Nick Sortor (@nicksortor) September 18, 2025

خلیل کے وکلاء کا موقف ہے کہ یہ اقدام ان کی بابت سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے کیا گیا ہے اور ان کے اظہارِ رائے اور سیاسی آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

اپیل اور عارضی تحفظ

خلیل کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کے اندر قانونی چارہ جوئی شروع کردی ہے اور بتایا ہے کہ ایک وفاقی عدالت کا حکم ابھی بھی نافذ ہے جو انہیں فوری طور پر ملک سے نکالے جانے یا گرفتاری سے روکتا ہے، جب تک کہ ان کا سول حقوق کا کیس جاری ہے۔

ان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ امیگریشن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کریں، اور وہ باضابطہ اپیل کی تیاری میں ہیں۔

ممکنہ نتائج اور ردعمل

اگر اپیل مسترد ہوئی تو محمود خلیل امریکا میں اپنے قانونی مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) کا درجہ کھو سکتے ہیں اور الجزائر یا شام کے حوالے سے انہیں روانہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا یا نہیں؟ واشنگٹن نے بتا دیا

خیال رہے کہ اس کیس نے آزاد رائے، اظہارِ رائے کی آزادی اور امیگریشن قوانین کے استعمال پر اٹھائے جانے والے تنقیدی سوالات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر یہ کہ حکومت سیاسی مؤقف رکھنے والوں پر امتیازی کارروائیاں کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

الجزائر امریکا امیگریشن قوانین فلسطین گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل مراکش

متعلقہ مضامین

  • امریکی امیگریشن جج نے محمود خلیل کو تیسرے ملک بھیجنے کا حکم دے دیا
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • ایشیا کپ: صائم ایوب مسلسل تیسرے میچ میں صفر پر آؤٹ
  • ملک کے حالات بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال کی طرف جارہے ہیں،عمران خان
  • پاکستان کے حالات درست سمت میں نہیں، 74 فیصد شہریوں کی رائے
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس