پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوں تو مقابلہ کھلاڑیوں کے درمیان ہی نہیں ہوتا بلکہ مسابقت کی یہ فضا شائقینِ کرکٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ تماشائی مخاصمانہ فضا کا براہ راست حصہ ہوتے ہیں، اس لیے ان کے دل میں مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے نرم گوشہ کم ہی ہوتا ہے۔

تماشائیوں کی اس گرم مزاجی نے بعض مرتبہ بڑی نازک صورت حال بھی پیدا کی ہے۔ تناؤ کی اس تیز لہر میں جس کھلاڑی نے دیارِ غیر میں عوام کے دل میں گھر کیا، ان میں بشن سنگھ بیدی کا نام سر فہرست ہے۔ ان کی پاکستانیوں سے دل وابستگی کی چند حکایات اس کھیل کے تذکروں میں محفوظ ہیں۔

معروف براڈ کاسٹر اور پی ٹی وی کے سابق منیجنگ ڈائریکٹر اختر وقارعظیم کی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں کرکٹرز کے بارے میں بڑے مزے مزے کے قصے شامل ہیں۔ ایک واقعہ بشن سنگھ بیدی کے باب میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تماشائیوں کی دل جوئی کے ہنر سے اچھی طرح واقف تھے۔

اختر وقار عظیم نے لکھا کہ’ حیدر آباد میں ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ لالہ امرناتھ اور بیدی اپنے حصے کا تبصرہ کرنے کے بعد عموماً کمنٹری باکس سے اٹھ کر پویلین یا پریس باکس چلے جاتے تھے جو کچھ فاصلے پر تھے۔ وہاں پہنچنے کے لیے میچ دیکھنے والے لوگوں کے سامنے سے ہو کر گزرنا پڑتا تھا، ان میں زیادہ تر تعداد لڑکوں کی تھی، انہیں شرارت سوجھی تو وہ بہت سے پانی بھرے غبارے لے آئے، جو بھی ان کے سامنے سے گزرتا وہ تاک کر اس کا نشانہ لیتے۔

نشانہ صحیح لگے یا غبارہ زمین پر پھٹ جائے، دونوں صورتوں میں کپڑے بھیگ جاتے تھے۔ لالہ امرناتھ نشانہ بنتے تو وہ لڑکوں کو گھور کر دیکھتے اور غصے کا اظہار کرتے تو لڑکوں کو کھیل مل جاتا اور لالہ پر پانی بھرے غباروں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی۔ بیدی کے ساتھ ایسا ہوا تو انہوں نے لڑکوں کی طرف دیکھ کر ہنسنا شروع کر دیا اور ہنستے ہنستے کہا ’تم پر ضیا الحق اور مارشل لا ہمیشہ مسلط رہنا چاہیے‘۔ لڑکے بھی ہنس دیے، کچھ نے کھڑے ہو کر تالیاں بھی بجائیں اور یوں بیدی کے ایک جملے کی وجہ سے پانی اور غباروں کا یہ کھیل ختم ہو گیا‘۔

بیدی کے ایک فقرے نے شرارتی نوجوانوں کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ یہ مبصر کے طور پر تماشائیوں کو رام کرنے کی بات تھی اب حسنِ عمل سے داد وصول کرنے  کی بھی ذرا سن لیجیے۔

اس کے راوی نامور براڈ کاسٹر اور لکھاری شاہد ملک ہیں جو 1978 میں اپنے دوست عمر فاروق کے ساتھ سیالکوٹ میں پاکستان اور انڈیا کا ون ڈے میچ دیکھنے گئے تھے۔ تماشائی کی حیثیت سے  بیدی کی کچھ خاص باتیں ان کی یادداشت کا مستقل حصہ بن گئیں۔ 45 سال بعد بیدی کے انتقال پر انہوں نے ذہن کے نہاں خانے سے یہ باتیں نکال کر ان الفاظ میں پیش کیں:

 ’بشن سنگھ بیدی نے لنچ، ٹی اور میچ کے خاتمے تک ہر الگ الگ سیشن میں یکے بعد دیگرے 3 رنگوں کی پگڑیاں پہنیں۔ پیلی، سرخ اور سبز، ایک موقع پر گراؤنڈ کے اوپر سے گزرتی ایک کٹی ہوئی پتنگ کی ڈور بھاگ کر پکڑ لی۔ 2، 3 ’تنکے‘ مارے، پھر ایک ’جھوک‘،  چند سیکنڈ بعد پتنگ کو ہوا کے دوش پر چھوڑ دیا۔ میدان تالیوں سے گونج اٹھا‘۔

بیدی کی بذلہ سنجی کا جواب نہیں تھا۔ اس کا ایک نمونہ  گزشتہ دنوں معروف شاعر اور ڈراما نگار امجد اسلام امجد کے کرکٹ کے بارے میں ایک کالم سے دستیاب ہوا ۔ یہ کالم 1979 میں سرور سکھیرا کے پرچے ’دھنک‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس سے لطف اٹھانے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ظہیر عباس نے 1978 کی ٹیسٹ سیریز میں انڈین بولروں کی کیا درگت بنائی تھی۔

فیصل آباد میں پہلے ٹیسٹ میں انہوں نے پہلی اننگز میں 176 اور دوسری اننگز میں 96 رنز بنائے۔ لاہور میں دوسرے ٹیسٹ میں  ظہیر عباس نے  ‘ظلم’ کا یہ سلسلہ مزید دراز کیا۔ پہلی اننگز میں 235 اور دوسری میں 34 رنز بنائے۔ دونوں اننگز میں انڈین بولر انہیں آؤٹ کرنے میں ناکام رہے۔ انہی دنوں بیدی  کے منہ سے وہ جملہ نکلا جس سے ہندوستانی بولروں کی ظہیر عباس کے سامنے بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔

امجد اسلام امجد کے بقول، ’ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز مصلح الدین سے روایت ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے گزشتہ دورے کے دوران ایک پارٹی میں بھارتی کپتان بشن سنگھ بیدی بے تحاشا شراب پی رہے تھے۔ کسی نے اسے ٹوکا تو کہنے لگا، ’پی لین دے یار سویرے فیر ظہیر عباس دے اگے پیشی اے‘۔

( پی لینے دو یار صبح پھر ظہیر عباس کے سامنے حاضری دینی  ہے)

۸کی بیٹنگ کو ایسا عمدہ خراج ایک سکھ ہی پیش کر سکتا تھا‘۔

مائیک بریرلی کی کتابوں نے کرکٹ کے بارے میں میری سوجھ بوجھ بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سے کھلاڑیوں کے فن اور شخصیت سے آگاہی کا باعث بھی بنی ہیں۔

سامنے کی مثال ان کی کتاب ‘آن کرکٹ’ میں بیدی کے بارے میں ان کا مضمون ہے جس میں سے ایک بات مجھے خاص طور پر اچھی لگی تھی۔ اس کا میں نے  اپنے ایک مضمون میں حوالہ بھی دیا تھا۔ اس بات  کا تعلق انسان دوستی سے ہے اور وہ آج کے ہمارے موضوع سے بھی جڑتی ہے سو اسے دہرانے کو جی چاہتا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ 1982 میں بیدی پی ٹی وی کی دعوت پر کمنٹری کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ اس وقت وہ سلیکٹر بھی تھے۔ اسی دورے میں کراچی ٹیسٹ کے دوران انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں خون کی ضرورت کا اشتہار بیدی کی نظر سے گزرا۔

نوجوان مریض کو جس گروپ کا خون چاہیے تھا وہ آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔ بیدی کا بلڈ گروپ مطلوبہ بلڈ گروپ سے میچ کرتا تھا۔ انہوں نے متعلقہ جگہ رابطہ کرکے آفر دی کہ اگر کسی انڈین  کا خون لینے میں مضائقہ نہ ہو تو انہیں اپنا لہو دے کر خوشی ہو گی۔ یہ کہانی پریس تک پہنچ گئی۔

اس ارفع جذبے سے متاثر ہو کر پاکستانی قوم نے بیدی کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیا۔ وہ جس دکان کا رخ کرتے دکاندار ان سے خریدی ہوئی چیز کی قیمت نہ لیتے، اس پر مستزاد تحفے تحائف پیش کرتے۔بیدی کی سوچ سے محترمہ بینظیر بھٹو بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ انہوں نے تحفتاً انڈین کرکٹر کو 2 قالین اور ایک ٹی سیٹ بھیجا۔

اب بیدی کے پاکستانی کرکٹروں سے ربط ضبط پر کچھ بات کر لیتے ہیں جس میں مشتاق محمد اور انتخاب عالم سے دوستی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ دوستی بھی نصف صدی کا قصہ ہے۔

مشتاق محمد اور بیدی کی دوستی انگلینڈ میں نارتھمپٹن شائر کاؤنٹی کے لیے 6 سال اکٹھے کرکٹ کھیلتے وقت مستحکم ہوئی تھی۔ اس تعلق کی کہانی مشتاق محمد نے اپنی کتاب ‘ انسائیڈ آؤٹ’ میں رقم کی ہے۔ اس کا پیش لفظ بیدی کے قلم سے ہے جس میں انہوں نے مؤثر پیرائے میں مشتاق محمد کے خانوادے سے اپنی قربت کا احوال بتایا ہے۔

بیدی نے مشتاق محمد کو اپنے بچپن کا ہیرو قرار دیا ہے۔ بیدی نے انہیں 1961 میں امرتسر میں نارتھ زون کے خلاف میچ میں پہلی دفعہ ایکشن میں دیکھا تھا جس کے بعد دہلی ٹیسٹ میں انہوں نے سینچری بنائی تھی۔ اس وقت بیدی کے سان گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ اس ٹیسٹ سیریز کے سترہ سال بعد پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیمیں مدمقابل ہوں گی تو وہ اور مشتاق محمد اپنے اپنے ملک کی قیادت کر رہے ہوں گے۔

بیدی نے لکھا ہے کہ مشتاق محمد کی والدہ اپنے حقیقی بیٹوں کے برابر ہی ان سے پیار کرتی تھیں اور انہیں اپنے خاندان کا حصہ سمجھتی تھیں۔ اس بنیاد پر  وہ تاریخ کی ان کتابوں میں تصحیح کرنا چاہتے ہیں جن میں یہ درج ہے  کہ مشتاق محمد کی والدہ امیر بی کے 5 بیٹے کرکٹ کے کھیل سے وابستہ رہے ۔ بیدی کی دانست میں یہ بات درست نہیں کیوں کہ ان کے جس چھٹے بیٹے  نے کرکٹ کھیلی وہ بشن سنگھ بیدی ہیں۔ اس سے آپ اس محبت کا اندازہ کر سکتے ہیں جو بیدی کے دل میں سراپا شفقت امیر بی کے لیے تھی۔

بیدی نے لکھا ہے کہ نارتھمپٹن شائر چھوڑنے کا مرحلہ آیا تو ان کو الوداع کہتے وقت مشتاق محمد بچوں کی طرح زار و قطار روتے رہے جب کہ اس سے پہلے کھلے بندوں انہوں نے کبھی  اپنے جذبات کا اس طرح اظہار نہیں کیا تھا۔ بیدی کے بقول ‘یہ وہ  لمحہ تھا جب ساری سیاسی سرحدیں منہدم ہو جاتی ہیں‘۔

اب کچھ تذکرہ انتخاب عالم سے بیدی کے یارانے کا۔ یہ دوستی بھی انگلینڈ کی آزاد فضاؤں میں استوار ہوئی اور عمر بھر کے رشتے میں بدل گئی۔ 2013 میں انڈیا میں ملاقات کے بعد ان کی آخری ملاقات 4  اکتوبر 2022  کو  کرتار پور میں بڑی جذباتی فضا میں ہوئی۔ ہمدم دیرینہ ایک دوسرے کو دیکھ کر کھل اٹھے۔ اشک بار آنکھوں سے بغل گیر ہوئے۔ علالت کی وجہ سے بیدی نے کم بات کی لیکن انتخاب عالم کی پرلطف گفتگو سے وہ محظوظ ہوتے رہے۔ انتخاب نے گزرے دنوں کی یاد میں امریکی گلوکار لوئی آرمسٹرانگ کی پیروڈی بھی کی جسے سن کر بیدی کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

ایسے موقعوں پر ملنے کی بے پناہ خوشی ہوتی ہے لیکن جدائی کا لمحہ بھی قیامت ہوتا ہے اور اس میں دوبارہ نہ ملنے کا دھڑکا بھی لگا ہو تو تڑپ اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس ملاقات کی یادیں بیدی 23 اکتوبر 2023 کو جہان رنگ وبو سے جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور  عمر گزشتہ کی کتاب انتخاب عالم کے پڑھنے کے لیے چھوڑ گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

انگلینڈ بشن سنگھ بیدی ڈائریکٹر اختر وقارعظیم شائر کاؤنٹی شائقین کرکٹ لالہ امرناتھ مشتاق محمد مصلح الدین نارتھمیٹن.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انگلینڈ بشن سنگھ بیدی ڈائریکٹر اختر وقارعظیم شائر کاؤنٹی شائقین کرکٹ لالہ امرناتھ مشتاق محمد مصلح الدین نارتھمیٹن بشن سنگھ بیدی انتخاب عالم کے بارے میں مشتاق محمد ظہیر عباس کے دل میں کے سامنے انہوں نے کی کتاب بیدی کے بیدی کی کے لیے کے بعد

پڑھیں:

بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے جمعرات کے روز اپنی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام نے سینکڑوں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش جانے پر مجبور کیا ہے۔ ادارے نے بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت پر سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے بنگلہ دیشی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات مئی سے 15جون کے درمیان کم از کم 1,500 مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو سرحد پار زبردستی بے دخل کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ کو مارا پیٹا گیا اور ان کی بھارتی شناختی دستاویزات بھی تباہ کر دی گئیں۔

بھارت نے "بنگلہ دیش" کے غیر قانونی تارکین وطن کو سرحد پار بھیجنے کی بات تو تسلیم کی ہے، تاہم حکومت نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں کہ وہ اب تک ایسے کتنے لوگوں کو بنگلہ دیش بھیج چکا ہے۔

(جاری ہے)

ایچ آر ڈبلیو کی ایشیا ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے کہا، "بھارت کی حکمران بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) بھارتی شہریوں سمیت بنگالی مسلمانوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر نکال کر امتیازی سلوک کو ہوا دے رہی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "بظاہر غیر قانونی تارکین وطن کی تلاش میں بھارتی حکومت ہزاروں کمزور لوگوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے، لیکن ان کے اقدامات مسلمانوں کے خلاف وسیع تر امتیازی پالیسیوں کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

" دراندازوں کے خلاف مودی کی جدوجہد

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے طویل عرصے سے بے قاعدہ ہجرت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ انتخابات کے دوران اپنی عوامی تقریروں میں وہ اکثر بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور انہیں "درانداز" کہتے ہیں۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ہلاکت خیز پہلگام حملے کے فوراً بعد، وزارت داخلہ نے مئی میں ہی ریاستوں کو غیر دستاویزی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو پکڑنے کے لیے 30 دن کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

نئی دہلی کا دعویٰ ہے کہ ایسے تمام افراد کو نکالنے کا عمل غیر قانونی نقل مکانی کو روکنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

البتہ تازہ رپورٹ میں ایسی تیز ترین کارروائیوں پر یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ حکومت کی وجہ "ناقابل یقین" ہے، کیونکہ اس نے "کام کے مناسب حقوق، گھریلو ضمانتوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات" کو نظر انداز کیا ہے۔

پیئرسن نے کہا، "حکومت مظلوموں کو پناہ دینے کی بھارت کی طویل تاریخ کو کم تر کر رہی ہے کیونکہ وہ اس سے سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔"

مئی میں بھارتی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ حکام نے تقریباً 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی حراست میں لیا اور بحریہ کے جہازوں کے ذریعے بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑ دیا۔ سپریم کورٹ نے اسے "خوبصورتی سے تیار کی گئی ایک کہانی" قرار دیا ہے، تاہم مودی حکومت نے ابھی تک عوامی طور پر ان الزامات کی تردید نہیں کی ہے۔

مسلمان مہاجر مزدوروں کو نشانہ بنایا گیا

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کو ڈی پورٹ کیے جانے والوں میں سے کچھ تو بنگلہ دیشی شہری تھے، تاہم بہت سے وہ بھارتی شہری بھی ہیں، جو بنگلہ دیش سے متصل بھارت کی پڑوسی ریاستوں کے بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اس لیے ممکن ہوا، کیونکہ حکام نے نکالنے سے پہلے ایسے متاثرہ افراد کی شہریت کی تصدیق سمیت کسی ضابطے پر عمل کیے بغیر انہیں تیزی سے ملک بدر کر دیا۔

نکالے گئے ایسے افراد میں سے 300 لوگ مشرقی ریاست آسام سے ہیں، جہاں متنازعہ شہریت کی تصدیق کا عمل نافذ کیا گیا ہے۔ دوسرے بنگالی بولنے والے مسلمان وہ ہیں، جو بھارتی ریاست مغربی بنگال سے کام کی تلاش میں گجرات، مہاراشٹر، راجستھان، اتر پردیش، اوڈیشہ اور دہلی ہجرت کر کے آئے تھے۔

بھارت میں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو نشانہ بنانا، ہندو قوم پرست تحریک کی خصوصیت ہے جس کی قیادت مودی کی جماعت بی جے پی اور اس سے متعلقہ گروہوں نے کی ہے۔

بنگلہ دیشی امیگریشن کے اس مسئلے کے اب بھاتی ریاست مغربی بنگال میں بھی مرکزی اہمیت حاصل کرنے کا امکان ہے، جہاں بی جے پی جیتنے میں ناکام رہی ہے اور وہاں 2026 میں اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ 'ہمیں لگا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے'

ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ اس نے ایک درجن سے زیادہ ایسے متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کا انٹرویو کیا ہے، جس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو بنگلہ دیش سے بے دخل کیے جانے کے بعد بھارت دوبارہ واپس آئے ہیں۔

مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک تارکین وطن کارکن ناظم الدین شیخ جو پانچ سال سے بھارت کے مالیاتی دارالحکومت ممبئی میں رہتے ہیں، نے بتایا کہ پولیس نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا، پھر ان کی بھارتی شہریت ثابت کرنے والے ان کی شناختی دستاویزات کو پھاڑ دیا اور پھر انہیں 100 سے زائد دیگر افراد کے ساتھ سرحد پار بنگلہ دیش لے گئے۔

انہوں نے کہا، "اگر ہم بہت زیادہ بولتے تو وہ ہمیں مارتے تھے۔

انہوں نے مجھے میری پیٹھ اور ہاتھوں پر لاٹھیاں ماریں۔ وہ ہمیں مار رہے تھے اور ہم سے کہہ رہے تھے کہ تم یہی کہتے رہو کہ ہم بنگلہ دیشی ہیں۔"

آسام کے ایک اور کارکن نے اسی طرح کی اپنی آزمائش کو یاد کرتے ہوئے کہا، "میں ایک لاش کی طرح بنگلہ دیش میں چلا گیا۔ چونکہ ان کے پاس بندوقیں تھیں، اس لیے میں نے سوچا کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے اور میرے خاندان میں سے کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔"

صلاح الدین زین (مہیما کپور)

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • جنت مرزا کو کس بھارتی ہیرو کیساتھ کام کرنے کی پیشکش ہوئی؟ ٹک ٹاک اسٹار نے بتا دیا
  • لیجنڈ ریسلر ہاگن ہارٹ اٹیک کے باعث چل بسے
  • ریسلنگ لیجنڈ ہلک ہوگن 71 برس کی عمر میں چل بسے
  • بھارت: غیرملکی کے نام پر ملک بدری، نشانہ بنگالی بولنے والے مسلمان
  • ایشیا کپ ستمبر میں اپنے شیڈول کے مطابق ہونے کا امکان
  • بھارتی اداروں میں بی جے پی کی مداخلت، مذہبی خودمختاری پر حملے جاری
  • بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے حکومت کی نئی اسپورٹس پالیسی درد سر، راجر بنی کی صدارت خطرے میں
  • قومی ٹیسٹ کرکٹر امام الحق کا انگلش کاؤنٹی یارکشائر سے باقاعدہ معاہدہ
  • کرکٹر عماد وسیم کے ساتھ تعلقات؛ نائلہ راجہ کا ردعمل سامنے آگیا
  • رجب بٹ نے اپنے گھر پر فائرنگ کا ذمہ دار 333 گروپ کو قرار دے دیا