Express News:
2025-04-25@09:55:39 GMT

کسی نئی سیاسی تحریک کی کامیابی، امکانات کتنے

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

وطن عزیز میں گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں بہت سے سیاسی تحریکیں چلائی گئیں، مگر شاید ہی کوئی تحریک اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہو۔ ہر بڑی سیاسی جماعت نے یہ شوق پورا کرکے دیکھ لیامگر کوئی بھی سرخروئی کی منزل کو چھو نہیں سکا۔

صرف ایک تحریک جسے ہم کامیاب قرار دے سکتے ہیں وہ 1969 میں اس وقت کے حکمراں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف چلائی جانے والی تحریک تھی جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کررہے تھے۔اُس وقت حالات ہی کچھ ایسے تھے کہ یہ تحریک کامیاب تو ضرور ہوئی لیکن اس نے ایک نئے مارشل لاء کو جنم دے دیا۔بالکل اُسی طرح خود ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 1977 میں چلائی جانے والی تحریک کو بھی ہم کامیاب تو قرار دے سکتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں بھی ایک نیا مارشل لاء معرض وجود میں آگیا جس نے ایک دو سال نہیں بلکہ گیارہ سال گزار دیے۔وہ دن ہے اورآج کا دن ہمارے یہاں کوئی بھی سیاسی تحریک کامیاب نہیں ہوسکی۔

آج کل پاکستان تحریک انصاف تحریک چلانے کی کوششیں کررہی ہے۔2022سے جب سے وہ حکومت سے محروم ہوئی ہے اس نے ایک دن بھی چین سے نہیں گزارا۔اس سے پہلے اُن کے اپنے دور حکومت میں اُس کے مخالف بھی یہ کوششیں کرتے رہے ،بہت سے لانگ مارچ بھی ہوئے اوراسلام آباد کے ڈی چوک کو اپنا ٹارگٹ بھی بنایا جاتارہا لیکن کسی کا مقصد پورا نہیں ہوا۔

بانی تحریک انصاف اگر اقتدار سے بیدخل ہوئے تو وہ بھی کسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی وجہ سے۔یوں یہ ثابت ہوا کہ احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں کبھی بھی کوئی حکومت ہٹائی نہیں جاسکی،اگر ہٹائی بھی گئی تو نتائج وہ حاصل نہ ہوئے جن کے لیے یہ تحریک شروع کی گئی ۔کسی اور طالع آزما نے اس لڑائی میں فائدہ اُٹھا لیا۔یہ صرف ہم اپنے ملک ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی دیکھتے ہیں۔

 2011 میں ایک اور اسلامی ملک مصر میں بھی عوام نے اس وقت کے حکمراں حسنی مبارک کے خلاف ایک بھر پور تحریک شروع کی اورکئی دنوں تک قاہرہ کے تحریر اسکوائرپر دھرنا بھی دے ڈالا، مگر نتیجہ وہی ہوا جس طرح ہمارے یہاں ہوتاآیاہے یعنی ایک اور فوجی حکمران ۔صرف حکمران کا چہرہ بدلا ہے نظام نہیں بدلا۔نظام وہی باقی رہااورعوام کے حقوق ویسے ہی سلب رہے۔ محمد مرسی جمہوریت کے تحت کامیاب تو ضرور قرار پائے لیکن اُنہیں چلنے نہیں دیا گیا،آج وہاں ایک بار پھر دوسرا حسنی مبارک تخت نشین ہے۔

ہمارے یہاں بھی ابھی تک تو ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ تحریک چلانے والوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ مزے اورحکمرانی کوئی اور لے گیا۔دوسری جانب ہم اگر سیاسی اوراحتجاجی تحریکوں کی ناکامیوں کا جائزہ لیں تو پتا یہ چلتا ہے کہ وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ ہم اورہماری قوم اب ایک قوم رہی ہی نہیں ، وہ مختلف ٹکروں اورطبقوں میں بٹ چکی ہے۔

سیاسی ، لسانی اورفروعی اختلاف نے اُسے ایک قوم رہنے ہی نہیں دیا۔ بھٹو دور تک ہم شاید ایک قوم کہلانے کا درجہ رکھتے تھے لیکن پھر یہ ساری قوم اپنے اپنے سیاسی تعلق اورپسندیدگی کی وجہ سے مذہبی فرقوں میںبٹ چکی ہے ۔اب یہاں کوئی بھی تحریک اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ قوم کسی بھی معاملے میں متحد اورہم خیال ہوہی نہیں پارہی۔پہلے ہمارے درمیان اتحاد اور یکجہتی ہواکرتی تھی اورساری قوم ایک مقصد کے لیے متحد اورمتفق ہوجایا کرتی تھی۔ اب ہم سیاسی ، لسانی اورمذہبی فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔

کوئی شخص دوسرے کی خاطر قربانی دینے کو تیار ہیں ہے، جن ملکوں میں ایک قوم بستی ہے وہاں ایسی صورتحال ہرگز نہیں ہے۔ بنگلادیش میں صرف ایک بنگالی قوم ہی بستی ہے ، تبھی وہا ں گزشتہ سال چلنے والی تحریک نے حسینہ واجد کی حکومت چند ہی مہینوں میں معزول کرکے رکھدی ۔جب کہ ہمارے یہا ں ایک قوم نہیں بلکہ چارچار یا اس سے بھی زیادہ قومیں بستی ہیں۔

سب کے اپنے اپنے نظریات اورمقاصد یامفادات ہیں۔ کوئی کسی اور کے لیے وقت اورساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ ہم سب کسی بھی تحریک کاساتھ نبھانے کے لیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ تحریک کا روح رواں کون ہے اور اس سے ہمیں کیا ملے گا۔بحیثیت مجموعی ہم مفاد پرست ہوچکے ہیں۔ ہمیں ملک سے زیادہ اپنے مفادات عزیزہوچکے ہیں۔ قوم اب کسی اورکو حکمران بنانے کے لیے اپناکندھا فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے۔

بھٹو صاحب اور بانی تحریک انصاف کی سیاست میں بہت فرق ہے۔ بھٹو صاحب اس ملک کے غریبوں کی آواز بن کر ابھرے تھے ۔اُن کے جلسوں اور جلوسوں میں کثیر تعداداس ملک کے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی ہواکرتی تھی ،جب کہ بانی تحریک انصاف کے جلسوں میں ہم امیر ، فیشن ایبل اورمراعات یافتہ طبقے کو دیکھتے ہیں۔ جو اُن کے جلسوں میںشرکت کسی نوبل کاز کے لیے نہیں کرتے بلکہ ایک تفریح اور ہلہ گلہ مچانے کی غرض سے کیاکرتے ہیں۔

جلسوں میں میوزک اورگانے بجانے کارواج بھی اُنہی کے دورسے شروع ہوا۔ اس سے پہلے ہم سیاسی جلسوں میں یہ سب کچھ دیکھا نہیں کرتے تھے۔ عوام اب کسی اچھے مقصد کے لیے نہیں بلکہ سیاسی اجتماع کو ایک شاندار میوزیکل کنسرٹ سمجھ کر اس میں شرکت کیاکرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی دیکھا دیکھی اب دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی یہی طرز اپنالیا ہے۔ بانی تحریک انصاف کے جلسوں میں شرکت کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہواکرتی ہے اورہم اُن سے یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ کسی احتجاجی تحریک کاحصہ بن کر آنسوگیس اورلاٹھی چارج کاسامنا کرپائیںگی۔

جان کانذرانہ اورآسودگی کی زندگی چھوڑناہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور وہ بھی ایسے دنوں میں جب ملک پہلے کی نسبت بہتری کی جانب چل پڑا ہو۔حالات بہتر ہوتے نظر آرہے ہوں۔ مہنگائی کا جن قابو ہونے لگا ہو۔ترقی و خوشحالی نظر آنے لگی ہو۔ایسے میں بھلا ملک کو عدم استحکام کاشکار کیونکر کیاجائے۔ہاں !اگر حکومت عوام کی بھلائی کی بجائے اُن پرمزید بوجھ ڈال رہی ہوتی تو بلاشبہ عوام اپنے گھروں سے باہر نکل آنے پر مجبور ہوتے۔ خدا کاشکر ہے اب حالات ایسے نہیں ہیں۔ عوام کو اچھے کی اُمید بن چکی ہے۔ وہ کسی افراتفری پیدا کرنے کے لیے اب گھروں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں، لہٰذا کسی نئی سیاسی تحریک کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔

 ہمارے ملک میں 2014 ء کے سیاسی دھرنے کے پیچھے جن طاقتور حلقوں کا ہاتھ تھا وہ ہاتھ اب نہیںرہا۔جس امپائر کی انگلی کے اُٹھ جانے کی اُمید تھی وہ امپائر بھی اب بدل چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی تحریک انصاف سیاسی تحریک نہیں بلکہ تحریک کا کے جلسوں ایک قوم کو تیار کے لیے

پڑھیں:

عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘

سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور معروف سیاست دان پرویز خٹک وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر بننے کے بعد ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں اور اپنے حلقے نوشہرہ میں غیر جماعتی بنیادوں پر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ عام انتخابات میں شکست کی بنا پر عوام سے بدستور ناراض ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پرویز خٹک بادام نہیں توڑ سکتا پی ٹی آئی کو کیا توڑے گا، اختیار ولی کی شدید تنقید

پرویز خٹک کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں تاہم ہفتہ اور اتوار کو آبائی علاقے منکی شریف نوشہرہ آتے ہیں اور ووٹرز سے ملتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھی پرویز خٹک نوشہرہ ائے اور کارنر میٹنگ سے خطاب بھی کیا۔ جس میں انہوں نے حلقے کے ووٹرز سے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

’جن کو ووٹ دیا ہے وہ جانیں ترقیاتی کام‘

پرویز خٹک نے کہا کہ جن کو ووٹ دیا ہے، وہی جانیں، اور جنہوں نے ترقیاتی کام دیکھے ہیں، انہیں بھی جانچنا ہوگا۔ میں نے آپ لوگوں کی خدمت کی، لیکن اس کا صلہ کچھ اور ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے، میں بھی ہر حد تک ان کا ساتھ دوں گا۔

اپنے خطاب میں پرویز خٹک نے واضح بتا دیا کہ اب وہ کوئی کام نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں کام کرنے کے لیے کسی عہدے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ انہیں دکھ اس وقت ہوا انہیں ان کی خدمات اور کاموں کا صلہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے اپنے ووٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو نوکریاں دیں، لیکن ووٹ کے وقت کسی نے انہیں یاد نہیں رکھا۔

پرویز خٹک حلقے کے ووٹرز سے خفا کیوں؟

سال 2023 میں عمران خان سے راہیں جدا کرنے کے بعد پرویز خٹک نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی اور عام انتخابات کے لیے مہم شروع کی، وہ جیت کر وزیر اعلیٰ بننے کا کھلم کھلا اعلان کررہے تھے، وہ پُر امید تھے کہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی بنیاد لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ لیکن انتخابات میں نتائج یکسر مختلف آئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد انہوں نے اپنی ہی جماعت کی سربراہی اور رکنیت سے استعفی دیا اور سیاست سے دوری اختیار کر لی۔

پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں

پرویز خٹک کافی عرصے تک سیاسی منظر نامے سے غائب رہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہاب الرحمن بتاتے ہیں پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں۔ اور پہلے کی طرح حلقے پر توجہ نہیں دے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:عوام خیبرپختونخوا حکومت سے مایوس، عام انتخابات میں لوگ اندھے بہرے ہوگئے تھے، پرویز خٹک

انہوں نے کہا پرویز خٹک کی ناراضگی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عام انتخابات میں شکست ہے۔ اور اسی وجہ سے حلقے میں آنا بھی کم کر دیا تھا اور اسلام آباد میں رہائش کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم مشیر بننے کے بعد وہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں اور حلقے کا رخ بھی کر رہے ہیں۔

خوشی اور غم میں شرکت

شہاب نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے کے عوام کے خوشی اور غم میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ لیکن شکست کے بعد اب لوگوں کا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پرویز خٹک  حلقے میں اپنے مخالفیں کو بتا رہے ہیں کہ انہیں ووٹ کی ضرورت نہیں اور ووٹ کے بغیر بھی وہ عہدہ لے سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے میں غیر سیاسی بنیادوں پر سرگرم ہیں اور ابھی تک کسی سیاسی جماعت میں باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔

پرویز خٹک اپنی سیاست زندہ رکھنا چاہتے ہیں

شہاب کے مطابق پرویز خٹک ناراض ضرور ہیں لیکن وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ہفتے میں 2 دن باقاعدگی سے حلقے میں گزرتے ہیں۔ اور لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں کنتے ترقیاتی کام ہو رہے تھے اور اب کیا صورت حال ہے۔ پرویز خٹک کے پاس اب عہدہ ہے۔ اب وہ ووٹرز کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پرویز خٹک کا مختصر سیاسی پس منظر

پرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع  نوشہرہ سے ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما رہے اور 2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ 2018 سے 2023 تک وفاقی وزیر دفاع بھی رہے۔ ان کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا

پروی

پی ٹی آئی پی

2023 کے بعد انہوں نے اپنی الگ سیاسی راہ اختیار کی۔ اور پی ٹی آئی پی کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت بنا کر الیکشن میں حصہ لیا۔ لیکن انہیں بری طرح شکست ہوئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خیبر پختونخوا میں لانج لیا گیا تھا،مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک نے سیاست سے آرام لینے کا اعلان کیا اور کافی عرصے تک سیاست سے دور رہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ بن گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پرویز خٹک پی ٹی آئی پی ٹی آئی پی عمران خان نوشہرہ

متعلقہ مضامین

  • خلا میں پاکستان کے کتنے سیٹلائٹ ہیں۔۔؟ اور پوری دنیا کے کتنے ہیں۔۔؟
  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے ، تحریک انصاف شامل ہو: فیصل واوڈا
  • تحریک تحفظ آئین کا اہم سربراہی اجلاس آج اسلام آباد میں ہوگا
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  • بلوچستان: ڈیوٹی سے غیر حاضری پر 15 لیویز اہلکار برطرف، اب تک کتنے اہلکاروں کو گھر بھیجا جا چکا؟