عمران خان کے بیٹے پاکستان آئیں گے یا نہیں؟ علیمہ خان نے واضح کردیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, July 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ قاسم اور سلیمان اپنے والد سے ملاقات کے لیے پاکستان آئیں گے۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان نے کہا کہ میری بہنیں نورین نیازی اور عظمیٰ خان آج عمران خان سے ملاقات کے لیے آئیں مگر اجازت نہیں دی گئی۔ پہلے 6،6 افراد کو ملاقات کی اجازت ہوتی تھی، پھر یہ 2 بہنوں تک محدود کردی گئی اور آج تو تمام بہنوں کی ملاقات بند کردی گئی۔
انہوں نے کہاکہ آج عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ملاقات ہوئی، جبکہ وکیل ظہیر عباس چوہدری کو بھی ملاقات کی اجازت دی گئی۔ عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
علیمہ خان نے مزید کہاکہ عمران خان نے کہا ہے کہ ان سے پہلے بلے کا انتخابی نشان چھینا گیا، اب مخصوص نشستیں بھی چھین لی گئیں، وہ عدالت میں پیش ہو کر قانونی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معاشی حالت تاریخ میں کبھی اتنی خراب نہیں ہوئی، ڈاکوؤں اور نالائقوں کا اتحاد بن چکا ہے، جیسا اتحاد نائجیریا میں ہوتا ہے۔ ملک میں اشرافیہ وسائل لوٹ رہی ہے، اور اس اتحاد نے معیشت کو تباہ کردیا ہے، اب عوام کو کھڑا ہونا ہوگا۔
ان کے مطابق عمران خان نے کہاکہ ملک میں جھوٹی گواہیوں پر سزائیں سنائی جارہی ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کا جج ان جھوٹی گواہیوں پر کیا فیصلہ دیتا ہے۔
علیمہ خان نے بتایا کہ عمران خان نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی کے لیے تحریک چلانا ہوگی، پارٹی کو ہدایت دی ہے کہ سب متحد ہو کر تحریک پر توجہ دیں۔ تحریک کا اعلان اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ تمام قانونی راستے بند ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک کی حکمت عملی پارٹی طے کرے گی، عمران خان کے بچے پاکستان آئیں گے کیونکہ ان کے پاس نائیکوپ ہے، وہ اپنے والد سے ملاقات کریں گے۔
علیمہ خان نے مزید کہا کہ عمران خان کو مکمل طور پر قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، جیل سپرنٹنڈنٹ جھوٹ بول رہا ہے۔ عمران خان نے سپرنٹنڈنٹ اور کرنل کا نام لے کر کہا ہے کہ وہ ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات پر پارٹی اپنا مؤقف پیش کرے گی، عمران خان کو جیل میں رہنے کے باعث بیرونی حالات کا علم نہیں۔
اسی موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے مقدمات میں سزائیں دینا انتہائی افسوسناک عمل ہے، ہم سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے اور قانونی جنگ لڑیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کی ظہیر عباس سے کوئی علیحدہ ملاقات نہیں ہوئی۔ پارٹی کے اندر اختلافِ رائے معمول کا حصہ ہے، یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی سلیمان سینیٹ انتخابات علیمہ خان عمران خان قاسم ملک گیر تحریک وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی سلیمان سینیٹ انتخابات علیمہ خان ملک گیر تحریک وی نیوز علیمہ خان نے خان نے کہا کہا ہے کہ خان نے کہ انہوں نے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مایوس کُن خبریں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں اور ان کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا جبکہ غلط معلومات کا ایک سیلاب عام لوگوں کے ذہنوں میں کافی خدشات پیدا کرتا رہا۔
تاہم گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور 6 نومبر کو مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا گیا جس سے افواہوں کا شور کسی قدر تھم گیا۔ ترکیہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے’ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔‘ یقیناً اسے مذاکرات کی کامیابی کی دلیل مانا جا سکتا ہے۔
6 نومبر کو استنبول میں اعلیٰ سطحی مذاکرات شیڈول ہیں، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوں گے۔ یہ حالیہ استنبول مذاکرات کا فالو اپ ہے، جہاں 30 اکتوبر کو فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ
12/11 اکتوبر سرحدی جھڑپوں، افغان سائیڈ سے دراندازی کی کوششوں اور پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچی۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے حملے روکیں، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔
پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کر دے۔ استنبول مذاکرات میں پاکستان کے جانب سے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دراندازی کے ثبوت بھی دِکھائے لیکن افغانستان کی ہٹ دھرمی کے باعث دراندازی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے مجوّزہ میکنزم طے نہیں ہو پایا۔
واشنگٹن میں امریکی تِھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کوئی حیران کُن خبر نہیں لیکن اِس کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کے نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات مُشکل ہیں لیکن یہ چیز پاکستان کو مزید فضائی حملے کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور فضائی حملے افغان طالبان کو افغان عوام میں مزید طاقت مہیّا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت شروع کر دی تو طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔
مانیٹرنگ میکنزم بن گیا تو خلاف ورزی پر جُرمانہ عائد کیا جائے گا، بریگیڈئر حارث نوازدفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر حارث نواز نے وی نیوز سے خصوص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عارضی طور پر جنگ بندی ہو چُکی ہے اور 6 نومبر تک جو 7 دن ہیں اُن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم قیامِ امن کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ اگر اِن 6، 7 دِنوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستان نہیں آتے اور یہاں پر دہشتگرد کارروائیاں نہیں کرتے تو پھر 6 نومبر کو مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا
افغانستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو جس کے لیے ترکیے اور قطر کی ثالثی میں میکنزم طے کیا جا رہا ہے جس میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر ہونے والی میٹنگز میں اگر سرحد پار دہشتگردی ہوتی ہے تو اُس کی رپورٹس شیئر کی جائیں گی۔
اگر افغان طالبان رجیم یہ سرحد پار دہشتگردی روکنے میں بار بار ناکام ہوتا ہے تو پھر پاکستان کو حق ہے کہ وہ فضائی حملے کر سکے یا ڈرون حملوں کے ذریعے سے دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملے جیسا کہ گزشتہ روز کُرّم میں 6 پاک فوج اہلکاروں کی شہادت اور آج لکی مروت میں حملہ کے بارے میں بریگیڈئر حارث نواز نے کہا کہ یہ اُن دہشتگردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے جو پہلے سے سرحد پار کر کے کُرّم اور شمالی وزیرستان آ چُکے ہیں۔
پاکستان اِن دہشتگردوں کو 2 سے 3 مہینے کی کارروائیوں میں ختم کر دے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ مزید دہشتگرد پاکستان نہ آئیں۔ ثالثوں کی موجودگی میں جو بھی میکنزم طے ہو گا اُس کے مطابق سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جُرمانے عائد کئے جائیں گے جو ادا کرنا ہوں گے۔
موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے، طاہر خانافغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے جس میں جنگ بندی پر اِتّفاق کیا گیا ہے اور اگلے مذاکرات کی تاریخ دی گئی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات میں تعطّل نہیں آیا جو میری نظر میں ایک اچھا اقدام ہے گو کہ سیز فائر ایک مبہم سی اصطلاح ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ جِس طریقے سے ماحول بنایا گیا تھا اور کُچھ عناصر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ بندی کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تیار نظر آتے تھے۔ جس طرح پاکستانی وزیروں اور کچھ میڈیا نے دھمکیاں دیں اور ویسی ہی دھمکیاں افغانستان کی طرف سے بھی آئیں۔ میڈیا کے بعض حِصّے یہ کہتے پائے گئے کہ بس پاکستانی جنگی طیارے افغانستان پر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور دوسری طرف سے کہا گیا کہ جی! افغانستان سے ٹینک بھی تیار ہیں۔ ایک جنگ جیسے ماحول میں یہ جنگ بندی معاہدہ درست قدم ہے۔
یہ بھی پڑھیں:افغان سرزمین سے دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، فیلڈ مارشل عاصم منیر
ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ تو نہیں یہ برسوں پُرانا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ رہے گا کیونکہ ٹی ٹی پی تو مذاکرات کا حصّہ نہیں تھی۔ پاکستان کا بُنیادی مطالبہ تو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہی ہے۔ مذاکرات جاری رہے تو کچھ نہ کچھ تو میکنزم طے ہو گا۔ اور یہ جنگ بندی معاہدہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بات تو طے ہوئی ہے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ میکنزم طے ہو جائے تو اُس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ جیسا کہ فروری 2020 دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین القاعدہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن 31 جولائی 2022 کو القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری حملے میں مارا گیا تو اِس سے ثابت ہوا کہ افغان سرزمین القاعدہ دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ تو یہ کہنا کہ تحریری معاہدے کے بعد دہشتگردی رُک جائے گی، ایسا بظاہر مُشکل نظر آتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک افغان معاہدہ ٹی ٹی پی طالبان