لیاقت آباد میں پرندوں کی مارکیٹ میں عوام خریداری میں مصروف ہیں دوسری جانب ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
لیاقت آباد میں پرندوں کی مارکیٹ میں عوام خریداری میں مصروف ہیں دوسری جانب ٹریفک کی روانی متاثر ہورہی ہے.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ میں آگ کی روانی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-03-5
غزالہ عزیز
چرچ کی گھنٹی درست تو اذان کیوں نہیں؟ بات تو درست ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے۔ امریکی نائب صدر کہتے ہیں امریکا اور پوری دنیا میں مذہبی آزادی سول سوسائٹی کی بنیاد ہے، یہ بات امریکا کے نائب صدر واشگاف انداز میں واشنگٹن میں کہتے ہیں۔ بات اس وقت ساری دنیا کے لیے اہم ہو جاتے ہیں جب مہدی حسن جو کہ زیٹیو کے ایڈیٹر انچیف ہیں وہ امریکی مسیحوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنے چرچ کی گھنٹی بجا سکتے ہیں تو ہم اذان بھی دے سکتے ہیں، بات بڑی اہم تھی اس پہ کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں نہ کسی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بات کہی، البتہ برینڈن گل امریکی کانگریس مین کو اس بات پر اعتراض ہوا اور انہوں نے ایکس کو استعمال کرتے ہوئے طنزیہ انداز اختیار کیا اور وہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم یہاں بڑی تعداد میں آکر امریکی عوامی زندگی کے منظر نامے کو بنیادی طور پر بدل سکتے ہیں۔ ان کی اس بات پر سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا ایک اور ٹویٹ کرتے ہوئے برینڈن گل لکھتے ہیں کہ میری بیوی ایک مسیحی روح ہے اور وہ بھی آپ کی جابرانہ مسلم اذان سننا نہیں چاہتی اگر آپ کو مسلم ملک میں رہنا ہے تو آپ واپس برطانیہ چلے جائیں ان کے اس ٹویٹ میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو آپس میں مختلف ہیں۔ اوّل تو جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مسلم ممالک میں رہنا ہے تو واپس برطانیہ چلے جائیں تو کیا برطانیہ کوئی مسلم ملک ہے جہاں وہ مہندی حسن کو بھیجنا چاہتے ہیں؟ اور دوسری طرف مسیحی تعلیمات تو برداشت اور ہمدردی سکھاتی ہیں پھر یہ کہ اذان کا بلاوا جابرانہ کیسے ہو سکتا ہے! یہ بھی کچھ عجیب سی بات ہے۔ بہرحال برینڈن گل پہلے بھی بہت متنازع بیان دے چکے ہیں انہوں نے نیویارک کے میئر کے امیدوار ظہران ممدانی کو بھی نشانہ بنایا ہے اور ان کو ہاتھ سے چاول کھاتے دیکھ کر ان کو مذاق اُڑایا تھا۔
امریکی صدر کا کہنا یہ ہے کہ مذہبی آزادی کا حق ہر ایک کے لیے یہاں محفوظ ہے۔ وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکا کے دباؤ کے باعث بہت سے ممالک مذہبی آزادی کے معاملے میں آگے بڑھے ہیں جیسے مراکش جہاں یہودیوں کے معبودوں کو بحال کیا گیا اور یہودیوں کی تاریخ کو اسکول کے نصاب میں شامل کیا گیا اسی طرح عراق میں پوپ کو کئی شہروں میں خوش آمدید کہا گیا پھر مشرقی تیمور کے صدر نے تمام شہریوں کے مذہبی عقائد سے قطع نظر ان کے حقوق کے دفاع کرنے کا عہد کیا۔ وہ دنیا میں اپنی کامیابی کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یہ نہیں بتاتے کہ دنیا میں کہاں کہاں مذہبی آزادی بلکہ انسانی آزادی کو اور زندہ رہنے کے حق کو سلب کیا جا رہا ہے لیکن امریکا کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ اس سلسلے میں حکومتوں کی مدد کرتا ہے۔
امریکی حکومت دنیا میں وسیع پیمانے پہ پھیلی ہوئی مذہبی زیادتیوں کے بارے میں بات کرتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کچھ حکومتیں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیاز سلوک روا رکھنے کے لیے توہین مذہب اور ارتداد کے قوانین کا استعمال کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ بعض حکومتیں مذہبی لباس پر پابندیاں اور مذہبی عقیدے کے اظہار پر پابندیاں لگا رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ کوئی ذاتی کسی قسم کی بھی ہو، مذہبی ہو یا انسانی ہو حکومتوں کو دھیان رکھنا چاہیے اور کمزوروں اور پسماندہ لوگوں کی حفاظت کرنی چاہیے مذہب بھلائی کے لیے ایک انتہائی طاقتور قوت بن سکتا ہے اور اسے کبھی بھی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
بات یہ ہے کہ مذہب کی آزادی سے پہلے زندہ رہنے کا حق ہے جو ایک قوم سے چھین لیا گیا ہے امریکا اور مغرب کی بھر پور پشت پناہی سے ہنستے بستے غزہ کو کھنڈر بنا دیاگیا، اب امن اور جنگ بندی کا شور مچایا جا رہا ہے۔ یہ حقیقی جنگ بندی ہے؟ جب کہ آگ وخون کا سلسلہ جاری ہے پچھلے چند دنوں میں درجنوں فضائی حملے کیے گئے سو سے زیادہ فلسطینی شہید کر دیے گئے جن میں بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے یہ سب کچھ دراصل امریکا کی حمایت کے ساتھ ہو رہا ہے۔
فلسطینی کہتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکا نے آگ کی روانی کے نام سے ایک نیا فارمولا اپنایا ہے جس کے تحت سیاسی سطح پر سکون دکھایا جاتا ہے مگر فوجی ہاتھ آزاد رکھے جاتے ہیں اسرائیل مستقل اور مسلسل کارروائیاں کر رہا ہے یہ محدود ہیں لیکن تباہی بربادی اور انسانی جانوں کے لیے ہر طرف سے قتل و غارت گری جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیل دنیا اور عالمی برادری کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امن کا خواہاں ہیں لیکن حقیقت میں تو غزہ میں اسی طرح قتل و غارت گری جاری رکھے ہوئے ہیں۔
امن ان کا ایک ڈراما ہے جس کے لیے اس کا ساتھ امریکا دے رہا ہے اور اسرائیل اس کے پشت پناہی کے ساتھ قتل و غارت گری کر رہا ہے یہ جنگ بندی نہیں ہے بلکہ قابض اسرائیل کی طرف سے آگ کے کنٹرول شدہ بہاؤ کی حکمت عملی ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر درجنوں فلسطینی شہید ہو رہے ہیں مگر عالمی ادارے خاموش ہیں قابض اسرائیل اس قتل وغار ت گری کو خلاف ورزی کا جواب قرار دیتا ہے تاکہ جب چاہے بمباری کرے، اسرائیل دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے نسل کشی روک دی ہے اب محض دفاع کر رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے غزہ کے عوام کی زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے انسانی بحران بدترین سطح پر ہے پانی بجلی اور خوراک اور علاج کے ذرائع تباہ کر دیے گئے ہیں اور امریکا قابض اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کی پشت پر کھڑا ہے۔