بھائی پھیرو کے علاقے میں نئے کسان دوست فارمولے کے حیران کن نتائج
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
لاہور:
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور خشک سالی کی وجہ سے اس سال پنجاب میں گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے تاہم زرعی ماہرین نے ایسا فارمولا تیار کیا ہے جو پوری دنیا کو حیران کر رہا ہے۔
اس کسان دوست فارمولے کا تجربہ بھائی پھیرو کے علاقے میں کیا گیا جہاں اس کے حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں۔
زرعی ماہر سید بابر حسین بخاری نے ایک آرگینک محلول تیار کیا ہے جو کلرزدہ اور بنجر زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں بھی کئی گنا اضافہ کرتا ہے۔
پھول نگر کے نواحی علاقے میں مقامی کاشتکار رانا محمد افتخار نے بتایا کہ فارمولے کے استعمال کے بعد ان کی زمین کی زرخیزی میں واضح بہتری آئی۔
معروف کاشتکار اور زرعی ماہر بریگیڈیئر (ر)سید جعفر عباس نے بھی اس فارمولے کے نتائج کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق گندم کا تنا اس قدر موٹا اور مضبوط ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ گندم کی نہیں بلکہ بانس کی فصل ہو۔
بابر حسین بخاری نے بتایا کہ انھوں نے اپنی زندگی کے 25 سال اس تحقیق کے لیے وقف کیے۔ زرعی سائنسدان غلام عباس نے بتایا کہ جہاں یہ فارمولا اپلائی کیا گیا وہاں پیداوار تین سے چار گنا زیادہ ہونے کی توقع ہے۔ ماہرین نے کہا حکومت اسے اپنی زرعی پالیسی میں شامل کرے تو انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سمندری پانی سے گندم و چاول اُگانے کا انقلابی منصوبہ
کچھ عرصہ مارکیٹ جانا ہوا، تو سبزی فروش نے بتایا ،ادرک نو سو روپے کلو ہے جو کافی مہنگی لگی۔ تاہم دیگر سبزیوں کی قیمتیں مناسب پائیں۔سبزی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مگر یہ حقیقت ہے ، اشیائے خورونوش اَور عام استعمال کی سبھی چیزوں کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ اِس اضافے کی مختلف وجوہات ہیںجن میں سے چند عارضی ہیں اور بقیہ مستقل۔
مثال کے طور پر جب قحط پڑ جائے، زیادہ بارشیں ہونے سے سیلاب آئے یا ٹڈی دل حملہ کر ے تو کھیت تباہ ہونے سے خوراک کی قیمتیں بڑھتی ہیں۔ تب اشیائے خورونوش نایاب ہونے سے قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ عارضی وجوہ ہیں۔ مستقل وجوہ میں آبادی کا تیزی سے بڑھنا اور زَرعی زمین مسلسل کم ہونا نمایاں ہیں۔ دنیا کی آبادی فی الوقت سوا آٹھ اَرب ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے تیس برس میں یہ عدد دَس اَرب تک جا پہنچے گا۔ یہ بڑا اَہم سوال ہے کہ کیا تب عالمی زراعت اَربوں انسانوں کا پیٹ بھر سکے گی؟
ظاہر ہے، انسان کی زندگی میں کھانا پینا بنیادی فعل ہے جوہمیں زندہ رکھتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے، تقریباً ہر ملک میں زرعی رقبہ سکڑ رہا ہے۔ کہیں کھیتوں کی جگہ نئی عمارتیں بن رہی ہیں اور کسی علاقے میں کسان کاشت کاری چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ گویا ایک طرف تو آبادی میں اضافہ جاری ہے اور دْوسری سمت زراعت روبہ تنزل ہے۔ یہ انوکھا عمل بھی اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھا رہا ہے کہ اب منڈی میں غذائیں کم ہوتی ہیں اور خریدار زَیادہ، چنانچہ قدرتی معاشی اصول کی رو سے غذا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
کسانوں کو مہنگے ہوتے بیج، مہنگی کھاد اور بجلی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پانی کی کم یابی بھی مسئلہ بن رہی ہے۔ بدلتے موسم اور آب و ہوا بھی کاشت کاری پر منفی اثرات مرتب کر تے ہیں۔ ماضی کی نسبت آج کسانوں کو زیادہ اَور کٹھن مسائل کا سامنا ہے۔ کم ہی پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان میں 70 فی صد میٹھا پانی کاشت کاری میں استعمال ہوتا ہے.پانی کی کم یابی کے باعث بھی پاکستان میں اشیائے خورونوش کی پیداوار گھٹ رہی ہے۔ لہٰذا کروڑوں پاکستانیوں کو سستی غذائیں فراہم کرنا زبردست چیلنج بن چکا۔
خوش قسمتی سے زرعی سائنس ترقی کر رہی ہے۔ ہر سال نت نئی زرعی ٹیکنالوجیاں جنم لیتی ہیں۔ اب کاشت کاری میں ڈرون، مواصلاتی سیارے، جدید مشینیں اور مصنوعی حیاتیات بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ کھیتی باڑی کے نت نئے طریقے وجود میں آ چکے۔ اِس تمام زرعی ترقی کو بعض مغربی دانش ور ’’چوتھے صنعتی انقلاب‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ خوش خبری یہ کہ ماہرینِ زراعت اب پیداوار بڑھانے کی غرض سے ایسے وسائل بھی کھوج رہے ہیں جو ماضی میں ناقابلِ رسائی تھے۔
مثال کے طور پر فی الوقت کرہ ارض پر خشکی کے 11 فی صد رقبے پر کاشت کاری ہوتی ہے، مگر یہ دنیا کے رقبے کا صرف 3 فی صد بنتا ہے۔ ہماری زمین کا 71 فی صد رقبہ پانی سے ڈھکا ہے جس میں سے بیشتر سمندری ہے۔ ماہرینِ زراعت اَب سمندری پانی اور سمندروں کے علاقوں کو کاشت کاری میں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ کہ عالمی سطح پر کسانوں کو پانی اور زمین کی کم یابی کے جس مسئلے کا سامنا ہے، وہ حل ہو سکے۔ اِس ضمن میں امریکا کی ایک کمپنی کے ماہرین خاص طور پر سرگرم ہیں۔
ان سائنس دانوں کی تحقیق کا مرکز وہ نباتات ہیں جو ساحلوں کے کنارے یا سمندروں کے اندر اْگتی ہیں۔ مثلاً منگریو (Mangrove) اور سمندری گھاسیں۔ قدرت نے اِن نباتات کے جین (Gene) اِس طرح بنائے ہیں کہ وہ سمندری پانی کی مدد سے بھی پھل پھول جاتے ہیں۔ یہی ماہرینِ جینیات کی دلچسپی کا باعث بن گئے۔
لیبارٹری میں ماہرین تجربات کرنے لگے کہ چاول کی ایسی قسم یا ورائٹی بنائی جائے جس میں سمندری نباتات کے جین موجود ہوں۔ چاول پر سب سے پہلے اِس لیے تجربات کیے گئے کہ یہ دنیا میں اربوں انسانوں کا من بھاتا کھاجا ہے۔ مزید براں چاول ہی وہ اناج ہے جسے اگانے میں سب سے زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق ایک کلو چاول حاصل کرنے کی خاطر ’’ 1432 لیٹر‘‘ صاف پانی درکار ہے۔ اِس باعث دنیا میں میٹھے پانی کا تیس سے پینتیس فی صد حصّہ چاول اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔
ماہرین نے پہلے پہل سمندری نباتات کے سبھی جین کا ڈیٹا بینک بنایا۔ پھر یہ تحقیق کی کہ وہ کون سے جین ہیں جنہیں چاول کے بیج والے جین کے ساتھ ملا یا جائے۔ اِس تحقیق پر کئی سال لگ گئے۔ آخر چند ماہ قبل ماہرین چاول کا ایسا بیج بنانے میں کامیاب ہو گئے جس میں سمندری نباتات کے جین بھی شامل ہیں۔ یہ بیج لیبارٹری میں سمندری پانی لے کر اُگ گئے۔ یوں ماہرینِ جینیات کا تجربہ کامیاب رہا۔ اب وَہ ویت نام میں دریائے میکونگ کے ڈیلٹا میں اِن خصوصی بیجوں سے چاول اگائیں گے۔ ماہرین کو یقین ہے کہ سمندری پانی سے چاول اْگانے کا تجربہ کامیاب رہے گا۔
ماہرین گندم بھی ایسے بیج تیار کرنے کی کوشش میں ہیں جو سمندری پانی سے فصل دے سکیں۔ اگر اِن کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں، تو دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں زرعی انقلاب آسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو طویل ساحل سے نوازا ہے۔ مزید براں ہمارے پاس دریائے سندھ کا ڈیلٹا بھی موجود ہے۔ قدرتِ ربی کی یہ نعمت کئی لاکھ ایکڑ رقبے تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِس ڈیلٹے میں دریائی اور سمندری پانی کے ملاپ سے زیادہ رَقبے پر چاول اَور گندم کی فصلیں اگانا ممکن ہے۔ یوں کروڑوں پاکستانیوں کو یہ غذائیں سستی میسّر آئیں گی اور غذائی کمی کا بہت بڑا مسئلہ حل ہو سکے گا۔
سائنس دان کہتے ہیںکہ ’’اگلے تیس برس میں دنیا کے اکثر ساحلوں پر وسیع و عریض کھیت بن جائیں گے۔ اِن کھیتوں میں چاول، گندم اور دِیگر اناج اْگایا جائے گا۔ یہ زرعی انقلاب کرہ ارض سے غذا کی کمی دور کرے گا۔‘‘ ماہرینِ زراعت کے مطابق سمندری پانی سے خصوصاً اناج اْگانے پر بنی نوع انسان کو درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے:
٭اربوں انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہو گا۔ یاد رَہے 2050ء تک عالمی سطح پر غذا کی طلب میں ’’ساٹھ فی صد‘‘ اضافہ متوقع ہے۔
٭آبادی بڑھنے کے باعث میٹھا پانی کم یاب ہو رہا ہے۔ جب سمندری پانی اناج اْگانے میں کام آئے گا، تو میٹھے پانی کی کثیر مقدار میں بچت ہو گی۔ یہ میٹھا پانی پھر دیگر کاموں میں استعمال ہو سکے گا۔
٭سائنس دانوں کی رو سے سمندری پانی کے ماحول میں پھلنے پھولنے سے اناج میں زیادہ ’’ضد تکسیدی‘‘ (Antioxidants) عناصر موجود ہوں گے۔ یہ ضد تکسیدی انسانی صحت کے لیے مفید ہیں۔ وہ خلیوں کا خراب ڈی این اے دْرست کرتے اور اِنسان کو مختلف بیماریوں سے بچاتے ہیں۔ لہٰذا سمندری پانی میں اگنے والا اناج زَیادہ مفید ہو گا۔
٭ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اِن کے تیار کردہ بیجوں سے اگنے والی فصلیں عام فصلوں کی نسبت تین گنا زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ چوس لیں گی۔ یہ ایک انقلابی عمل ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسی گیس کے باعث ہی کرہ ارض میں عالمی گرماو نے جنم لیا جس سے موسمیاتی وآب و ہوائی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اگر فضا سے یہ گیس کم ہو جائے، تو موسم اور آب و ہوا کا قدرتی توازن پھر واپس آسکتا ہے۔
٭سمندری پانی سے انجام پائی کاشت کاری کئی قدرتی آفات مثلاً قحط، سیلاب اور جنگلوں میں لگی آگ سے محفوظ ہو گی۔ البتہ شدید سمندری طوفانوں سے ساحلوں پر لگے کھیتوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسے علاقوں میں فصلیں نہ اگائی جائیں جہاں بکثرت سمندری طوفان آتے ہیں۔
٭ساحلوں پر کھیتی باڑی سے اندرون ملک کی زمین پر دباوکم ہو گا۔ یوںاُس زمین کی مٹی کو آرام کرنے اور سستانے کا سنہرا موقع ملے گا۔ یہ آرام مٹی کی قدرتی زرخیزی بحال کرے گا۔
سمندری پانی سے غذائیں اگانا تاریخ ساز عمل ہے۔ مگر اِسے انجام دینے میں کئی چیلنج درپیش ہیں۔ ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ساحل آلودہ ہو چکے۔ اِن ساحلوں پر پلاسٹک کے شاپر اور اِنسان ساختہ دیگر آلودگیاں بکثرت ملتی ہیں۔ حکومتوں کو فصلیں اگانے سے پہلے ساحل صاف کرنا ہوں گے تاکہ آ لودگیوں سے پاک ہو جائیں۔ دوسری صورت میں پلاسٹک اور دِیگر آلودگیوں کے ذرات اَناج میں داخل ہو جائیں گے۔
حکومتی سطح پر پاکستان میں بھی ایسے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ اِس امریکی کمپنی کے تعاون سے وفاقی حکومت بلوچستان کے ساحلوں پہ وسیع رقبے پر کاشت کاری کا بندوبست کر سکتی ہے۔ اِس طرح بیروزگار ہم وطنوں کو روزگار بھی مہیا ہو گا۔ نیز پاکستانی قوم کو سستے داموں اناج میسّر آئے گا۔ سمندری پانی سے اگا اناج مہنگائی کی شرح نیچے لا سکتا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی و جدت سے پاکستان کی ’’فوڈ سیکورٹی‘‘ محفوظ کرنے کا یہ عمدہ موقع ہے۔