اسلام آباد ہائیکورٹ: رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار سکیورٹی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
اسلام آباد ہائیکورٹ: رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار سکیورٹی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم WhatsAppFacebookTwitter 0 17 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت میں رجسٹرار سردار طاہر صابر اور ڈپٹی رجسٹرار سیکیورٹی محمد اویس الحسن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دی گئی۔ عدالت کے لارجر بینچ نے دونوں افسران کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے کارروائی ختم کرنے کا فیصلہ جاری کر دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ جب کوئی جوڈیشل یا ایڈمنسٹریٹو آرڈر موجود ہی نہ ہو تو توہین عدالت کی کارروائی نہیں بنتی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پاکستان بار کونسل اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے 9 مئی 2024 کو ہڑتال کی کال دی تھی، جس پر جج نے وکلا کے عدالتوں میں پیش ہونے میں مشکلات کو انصاف تک رسائی میں رکاوٹ قرار دیا۔ کیس ریکارڈ کے مطابق، جسٹس بابر ستار نے خط لکھ کر کہا تھا کہ سائلین کو عدالت پہنچنے سے روکا گیا، جس پر معاملہ پہلے سینئر پیونی جج اور بعد ازاں ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے سامنے رکھا گیا۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق، سینئر پیونی جج نے 14 مئی کو انکوائری رپورٹ میں کہا کہ وکلا کو عدالت جانے سے نہیں روکا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ایڈمنسٹریشن کمیٹی نے بھی 20 مئی کو رپورٹ دی کہ وکلا کو زبردستی روکنے کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
جسٹس بابر ستار نے 21 مئی کو نان پراسیکیوشن پر خارج شدہ پٹیشن بحال کرنے کی درخواست پر سماعت کی، جہاں رجسٹرار سے سی سی ٹی وی فوٹیج طلب کی گئی، تاہم ان کا جواب غیر تسلی بخش قرار دے کر توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی گئی۔
عدالتی فیصلے میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ ڈپٹی رجسٹرار سیکیورٹی کو اس واقعے کے روز چھٹی پر ہونے کے باوجود شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا، جو کہ کارروائی کو مشکوک بناتا ہے۔
لارجر بینچ نے دونوں افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کا فیصلہ جاری کر دیا، جس سے یہ معاملہ اب نمٹا دیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ ڈپٹی رجسٹرار
پڑھیں:
مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کیخلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آرہی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ میں کاؤنٹر کرائم ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی جانب سے مبینہ جعلی پولیس مقابلے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی جس میں عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواست گزار فرحت بی بی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ فرحت بی بی کا بیٹا غضنفر حسن پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اب وہ اپنے دوسرے بیٹے کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کر رہی ہیں۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سی سی ڈی کے آنے کے بعد ایک ہی طرز کے پولیس مقابلے ہو رہے ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جعلی پولیس مقابلہ: فیصل آباد پولیس کے 3 اہلکاروں کو سزائے موت کا حکم
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں جذباتی باتیں نہ کریں، یہاں قانون اور شواہد کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آئی جی پنجاب سے مکالمے میں کہا کہ ایس ایچ او عدالت کو مطمئن نہیں کر سکا، اس لیے آپ کو بلایا گیا۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے پولیس کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کے مطابق ملزم کی ریکوری کے بعد جب اسے لے جایا جا رہا تھا تو گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوا اور ساتھیوں نے حملہ کر دیا۔ اگر واقعی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تھی تو گولی سیدھی ملزم کو ہی کیوں لگی؟ گاڑی کو یا کانسٹیبل کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ بھی پڑھیے: سی سی ڈی کے خوف نے بڑے بڑے غنڈوں کو معافیاں مانگنے پر مجبور کردیا: مریم نواز
چیف جسٹس نے کہا کہ اب جو رپورٹ پیش کی گئی ہے اس سے کیس کے حقائق بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ روزانہ درجنوں درخواستیں عدالت میں آ رہی ہیں، جن میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی شکایت کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ سی سی ڈی کے تحت ہونے والے تمام پولیس مقابلوں کا تفصیلی جائزہ لیں اور متعلقہ پولیس افسران کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی وضع کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں