محکمہ ریلوے میں تبادلوں کے اختیارات نچلی سطح تک منتقل
اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT
سعید احمد: پاکستان ریلوے میں اہم تبدیلی کے تحت محکمہ ریلوے کے تبادلوں کے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کر دیے گئے ہیں۔
گریڈ 11 سے 15 تک کے ملازمین کے تقرر و تبادلے کے اختیارات ڈویژنل سپرنٹنڈنٹس کو تفویض کر دیے گئے ہیں۔ اب ڈویژنل سپرنٹنڈنٹس گریڈ 11 سے 15 تک کے ملازمین کے بین الڈویژن تبادلے بھی کر سکیں گے۔
چیف ایگزیکٹو پاکستان ریلوے عامر علی بلوچ کی ہدایت پر یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق گریڈ 16 کے ملازمین کے تبادلوں کے لیے کیڈر کنٹرول ہیڈکوارٹر سے منظوری لینا ضروری ہو گا اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹس گریڈ 16 کے ملازمین کا اپنے ڈویژن میں تبادلہ نہیں کر سکیں گے۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی کی صحت سے متعلق خدشات؛ وکیل کا ٹوئٹ
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ گریڈ 16 کے ملازمین کے تبادلے ہیڈکوارٹر کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔
ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کے ملازمین کے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔