Islam Times:
2025-07-26@13:42:34 GMT

نیتن یاہو کی میزبانی ٹرمپ کی اسٹریٹجک غلطی

اشاعت کی تاریخ: 17th, February 2025 GMT

نیتن یاہو کی میزبانی ٹرمپ کی اسٹریٹجک غلطی

اسلام ٹائمز: صیہونی حکمران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا والوں پر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کی شخصیت انتہائی باوقار اور فیصلہ کن ہے لہذا اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بھی وائٹ ہاوس کے گذشتہ کرایہ داروں کی مانند غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ صیہونی رژیم نے اس سے پہلے بھی امریکی وسائل کو ریاستی دہشت گردی، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حکومت کو بھی اپنا شریک جرم بنا لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی حکمران نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغربی دنیا کی رائے عامہ میں بھی منفور ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے ذہن میں ایران کا تصور خام خیالی پر مبنی ہے اور اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تحریر: رسول سنائی راد
 
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کیا ہے جو دو غیر اختیاری آپشنز یعنی سازباز یا جنگ پر مشتمل ہے اور البتہ اس میں مذاکرات اور سازباز کو ترجیح دی گئی ہے۔ دوسری طرف وائٹ ہاوس کے نئے کرایہ دار نے ایسے اقدامات انجام دینے کا عندیہ دیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دباو جیسا ہتھکنڈہ بھی بروئے کار لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان اقدامات میں تجارتی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرنا اور تیل بردار جہازوں کے خلاف سختگیرانہ اقدامات میں اضافہ کرنے پر زور دینا، تیل کی تجارت کرنے والے موثر افراد پر پابندیاں لگانا، ایران سے تیل خریدنے والی چینی کمپنیوں پر دباو اور دھمکی دینا اور ایران کو پابندیاں غیر موثر بنانے والی کمپنیوں کے خلاف اقدامات انجام دینا شامل ہیں۔
 
اسی طرح ایران کی جوہری سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنا اور ایران کے اندر ہنگامے پیدا کرنا بھی زیر غور ہیں۔ ان تمام بیانات اور اقدامات کو اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنا سیاسی رویہ تبدیل کرنے اور امریکہ کا مطلوبہ معاہدہ انجام دینے کی جانب گامزن ہونے کا ایک ہتھکنڈہ سمجھنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ رویہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایران کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو چکا ہے اور اسے کمزور پوزیشن میں فرض کر رہا ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے ایران کے خلاف قومی سلامتی کی دستاویز پر بھی دستخط کیے ہیں جس میں ایران پر فوجی حملے کا امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اس کی پہلی ترجیح اس آپشن کو استعمال نہ کرنے پر مبنی ہو گی۔
 
یوں ٹرمپ ایران کو ایک مبہم صورتحال سے دوچار کر دینا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف اپنے لیے ہر قسم کے اقدام کا موقع فراہم رکھنا چاہتا ہے۔ درحقیقت ٹرمپ ماضی میں ایکٹنگ اور پاگل شخص جیسا کردار ادا کرنے کے پیش نظر اس مدت صدارت میں بڑے کارنامے انجام دینے کے درپے ہے جن میں ایران اور مغربی ایشیا کے ایشوز بھی شامل ہیں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کے جلاد اور دہشت گرد وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو پہلے غیر ملکی مہمان کے طور پر وائٹ ہاوس دعوت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بہت حد تک اس جرائم پیشہ شخص کے موقف اور اہداف سے متاثر ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے نیتن یاہو کو خوش کرنے کے لیے صیہونی رژیم کی مرضی کا موقف اختیار کیا اور غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے کسی اور جگہ منتقل کر دینے کی بات کی۔
 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صرف اس موقف کے اظہار پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عرب حکمرانوں پر بھی اس غیر منصفانہ منصوبے کو تسلیم کر کے تعاون کرنے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ اہداف جو صیہونی حکمران حماس کے خلاف جنگ کے حاصل نہیں کر پائے ہیں اب ٹرمپ کی زبان سے سنے جا رہے ہیں اور امریکی حکومت ان کے حصول کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ البتہ عالمی رائے عامہ اور اسلامی دنیا نے اس موقف کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور نہ صرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور عرب ممالک نے اس کی مخالفت کی ہے بلکہ حتی کچھ یورپی ممالک نے بھی اس منصوبے کو انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دے کر ناقابل عمل قرار دے دیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ اور اس کے ناتجربہ کار مشیر اور وزیر مجرم صیہونی حکمرانوں کے جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔
 
صیہونی حکمران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا والوں پر یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کی شخصیت انتہائی باوقار اور فیصلہ کن ہے لہذا اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے بھی وائٹ ہاوس کے گذشتہ کرایہ داروں کی مانند غلط راستے پر ڈال دیا ہے۔ صیہونی رژیم نے اس سے پہلے بھی امریکی وسائل کو ریاستی دہشت گردی، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں امریکی حکومت کو بھی اپنا شریک جرم بنا لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی حکمران نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ مغربی دنیا کی رائے عامہ میں بھی منفور ہو چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے ذہن میں ایران کا تصور خام خیالی پر مبنی ہے اور اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔
 
رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں امریکہ سے مذاکرات کو منع کر دیا ہے جس کے بعد انقلاب اسلامی ایران کی 46 ویں سالگرہ کے موقع پر ایران بھر میں عوام کے عظیم سمندر نے سڑکوں پر آ کر اس موقف کی بھرپور تایید بھی کر دیا ہے۔ اس سے وائٹ ہاوس کے نئے کرایہ دار کو یہ پیغام موصول ہو جانا چاہیے کہ وہ ایک طاقتور ملک سے روبرو ہے جسے نہ صرف ماضی میں امریکہ کی وعدہ خلافی اور بدعہدی بھی اچھی طرح یاد ہے بلکہ لیبیا اور عراق جیسے ممالک سے سابقہ امریکی حکومتوں کا طرز عمل بھی اس کے حافظے میں محفوظ ہے۔ ان دونوں ممالک نے امریکہ اور برطانیہ کے وعدوں پر اعتماد کرنے کے بعد خود کو غیر مسلح کر لیا جس کے بعد امریکہ اور برطانیہ کی فوجی جارحیت کا شکار ہو گئے اور آج تک اس کے منحوس اثرات کا شکار ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی حکمران وائٹ ہاوس کے صیہونی رژیم ڈونلڈ ٹرمپ میں ایران ہے اور اس ایران کے چاہتا ہے کرنے کے کے خلاف ہیں کہ کیا ہے کے لیے دیا ہے

پڑھیں:

کیا نریندر مودی امریکی صدر ٹرمپ کی غلامی کرنا چاہتے ہیں، ملکارجن کھڑگے

کانگریس کمیٹی کے صدر نے کہا کہ امریکی صدر کے ذریعہ بار بار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی جنگ بندی کا سہرا لینے سے کہیں نہ کہیں ہندوستانی وزیراعظم کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ٹرمپ بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جنگ بندی کروائی ہے، لیکن نریندر مودی خاموش ہیں، جواب نہیں دے رہے، کیا نریندر مودی امریکی صدر ٹرمپ کی غلامی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تلخ سوال ملکارجن کھڑگے نے امریکی صدر ٹرمپ کے تازہ بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی سے پوچھا ہے۔ کانگریس صدر نے پہلگام دہشت گردانہ حملہ کے بعد پارٹی کی طرف سے مودی حکومت کو مکمل حمایت دینے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک سب سے ضروری ہے، اس لئے ہم نے حکومت کی حمایت کی تھی، ایسے میں ٹرمپ بار بار جنگ بندی کی بات کہہ کر ہندوستان کی بے عزتی کرتے ہیں تو وزیراعظم کو اس کا ڈٹ کر جواب دینا چاہیئے۔

کانگریس کمیٹی کے صدر ملکارجن کھڑگے نے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ امریکی صدر کے ذریعہ بار بار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہوئی جنگ بندی کا سہرا لینے سے کہیں نہ کہیں ہندوستانی وزیر اعظم کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے، وہ صاف لفطوں میں کہتے ہیں کہ نریندر مودی کو اس معاملے میں خاموش نہیں رہنا چاہیئے، بلکہ ایک واضح جواب سامنے رکھنا چاہیئے۔ ٹرمپ کے تازہ بیان کے بعد پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کے قائد راہل گاندھی نے بھی اپنا تلخ ردعمل ظاہر کیا ہے۔

میڈیا اہلکاروں نے جب ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ مودی کیا بیان دیں گے، یہ کہ ٹرمپ نے جنگ بندی کروائی، وہ ایسا بول نہیں سکتے ہیں لیکن یہ سچائی ہے کہ ٹرمپ نے جنگ بندی کروائی ہے، یہ بات پوری دنیا جانتی ہے۔ راہل گاندھی مزید کہتے ہیں کہ ملک میں بہت سارے مسائل ہیں جن پر ہم بحث کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم ڈیفنس، ڈیفنس انڈسٹری، آپریشن سندور پر بحث کرنا چاہتے ہیں جو خود کو حب الوطن کہتے ہیں، وہ بھاگ گئے۔ انہوں نے کہا کہ نریندر مودی اس حوالے سے ایک بیان نہیں دے پا رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کی ایران سے متعلق مذاکرات میں پاکستان کے تعمیری کردار کی تعریف
  • سینیٹر ٹیڈ کروز نے 9 دسمبرکو امریکی سیاست کا بدنام لمحہ کیوں قرار دیا؟
  • بمبار بمقابلہ فائٹر جیٹ؛ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل بمبار میں کیا فرق ہے؟
  • ٹرمپ کا گوگل، مائیکرو سافٹ جیسی کمپنیوں کو بھارتی شہریوں کو ملازمتیں نہ دینے کا انتباہ
  • ’ بھارتی شہریوں کو نوکری پر رکھنا بند کرو‘ امریکی صدر کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو ہدایت 
  • امریکی کمپنیاں بھارتی شہریوں کو ملازمت پر نہ رکھیں، ٹرمپ کی ہدایت
  • امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی نے قانونی جنگ ختم کرنے اور وفاقی فنڈنگ پر ٹرمپ انتظامیہ سے ڈیل کر لی
  • گوگل اور مائیکروسافٹ کو بھارتیوں کو ملازمتیں دینے سے منع کر دیا گیا
  • ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ، صورتحال کشیدہ
  • کیا نریندر مودی امریکی صدر ٹرمپ کی غلامی کرنا چاہتے ہیں، ملکارجن کھڑگے