Islam Times:
2025-07-26@14:48:21 GMT

صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ قسط وار ناکام منصوبے

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

صدی کی ڈیل سے جبری نقل مکانی تک، ٹرمپ قسط وار ناکام منصوبے

اسلام ٹائمز: عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے ہیں، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔ تحریر: علی رضائی

2016 سے لیکر اب تک ٹرمپ نے مقبوضہ فلسطین کے لیے منصوبے پیش کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کام بھی کیا۔ گزشتہ منصوبوں کی نئے پروجیکٹ یعنی "غزہ سےجبری نقل مکانی" سے ایسی ہی نسبت ہے، یعنی ناکامی۔ پہلے دور حکومت میں "ٹرمپ کا امن منصوبہ" یا "صدی کی ڈیل" ایک بڑامنصوبہ تھا۔ اس کا مقصد غاصب اسرائیل اور فلسطین کے اصل مالک فلسطینی عوام کے درمیان صلح اور امن پر مبنی ماحول تیار کر کے ایک کمزور اور بے اختیار فلسطینی ریاست کا قیام تھا، تاکہ عربوں اور فلسطینیوں سے 80 سال سےقابض اسرائیل کے ناجائز قبضے اوروجود کو قانونی طور پر تسلیم کروایا جا سکے۔

اس مقصد کے حصول کا راستہ صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر آگئےا۔ اس کے بعد "ابرہام  پیکٹ" کے تحت ٹرمپ کی طرف سے  بالخصوص سعودی عرب اور صیہونیوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے پیش کیا گیا۔ صدی کی ڈیل اور دو ریاستوں کی تشکیل فلسطینی عوام کے لیے خیانت پر مبنی منصوبہ ہے۔ فرض کریں کہ غیر ملکی افواج آپ کے ملک پر قابض ہیں اور 8 دہائیوں کی جنگ اور ہزاروں لوگوں کے قتل کے بعد اب وہ آپ سے اس قبضے کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کو بغیر کسی اختیار کے ایک بہت ہی قلیل سا علاقہ دیا جاتا ہے۔

صیہونی تو ایک معمولی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کرتے ہیں اور پورے فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے عوام کو مکمل طور پر تباہ کرنا چاہتے ہیں۔لہٰذا تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بعض عرب ممالک کی پیشگی شرط یہ تھی کہ فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ اپنےمنصوبے کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ٹرمپ نے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کیا اور امارات اور بحرین جیسے ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل بھی ہو گئے۔ لیکن یہ امریکی منصوبہ یہیں پر رک گیا۔ اگلا منصوبہ جو اسرائیل اور امریکہ نے مشترکہ طور پر فلسطینی عوام کے خلاف جاری کیا وہ غزہ میں قتل عام تھا۔

7 اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی فوج نے تقریباً 50,000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ اس جنایت اور مجرمانہ آپریشن کے ذریعے نیتن یاہو کا بنیادی ہدف حماس کی مکمل تباہی اور خاتمہ تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس وقت تک جنگ بندی نہیں کریں گے جب تک وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر لیتے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق، نیتن یاہو نے 20 دسمبر 2023 کو اسرائیلی جنگی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ ہم جنگ کو آخر تک جاری رکھیں گے، حماس کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رہے گی،جب تک ہم اپنے مقرر کردہ تمام اہداف حاصل نہیں کر لیتے یعنی حماس کو تباہ کرنا، یرغمالیوں کو آزاد کرنا اور غزہ  کی جانب سے اسرائیل کو ہرقسم کے خطرے کو ختم کرنا شامل ہے۔

نتن یاہو نے کہا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم رک جائینگے، وہ سچائی سے بہت دور ہے، حماس کے تمام دہشت گرد شروع سے آخر تک مارے جائیں گے۔ بالآخر یہ منصوبہ بھی ناکام ہو گیا اور حماس کے مجاہدین غزہ میں ابھی مسلح ہیں اور غزہ ان کے پاس ہے، اسرائیل کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی غزہ سے فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں "زبردستی منتقل" کرنے کا منصوبہ سامنے لایا گیا لیکن اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اب ٹرمپ اس مقصد کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس منصوبے سے غزہ اور حماس ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گے۔

حالانکہ مقصد کو نیتن یاہو 50 ہزار لوگوں کے قتل عام سے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ملکیت حاصل کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں، بلاشبہ وائٹ ہاؤس اس منصوبے کے ذریعے حماس کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، لیکن یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسرائیل انہیں مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ کا جبری ہجرت کا منصوبہ اتنا ناقابل قبول ہے کہ عرب ممالک بھی اس پر بول پڑے۔ وہی ممالک جنہوں نے ابراہام معاہدے کے منصوبے میں ٹرمپ کا ساتھ دیا تھا۔ جبری نقل مکانی کا سنتے ہی سعودی عرب نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔

اس منصوبے کو عالمی سطح پر بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مصر اور اردن جو کہ امریکی امداد کے وصول کنندہ ہیں اور بہت سے معاملات میں اپنے موقف اور مطالبات کو بغیر مخالفت کے تسلیم کرلیتے ہیں، انہوں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی ہے۔ یورو نیوز کے مطابق جرمنی نے ٹرمپ کے اس منصوبے کے متعلق ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غزہ سے فلسطینی شہری آبادی کو بے دخل کرنا نہ صرف ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے، بلکہ اس سے نئے مصائب اور نفرت بھی جنم لے گی، فلسطینی عوام کی شرکت کے بغیر کوئی بھی حل نہیں ہونا چاہیے۔

فرانس نے یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی آبادی کی جبری منتقلی بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اور فلسطینیوں کی جائز امنگوں پر حملہ اور دو ریاستی حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ٹرمپ اور عربی اور غربی اتحادیوں کی شمولیت کیساتھ جاری کئے گئے امریکہ کے پچھلے منصوبے ناکام رہے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ جبری ہجرت کا منصوبہ جسے شروع سے ہی دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے سخت اور واضح مخالفت کا سامنا اور جسے خود صہیونی بھی قابل عمل نہیں سمجھتے ہیں، یہ منصوبہ بھی ٹرمپ اور نیتن یاہو کو اپنے مقاصد حاصل کرنیکے لئے حاصل کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام کا منصوبہ نیتن یاہو نہیں کر ہیں اور ٹرمپ کا کرنے کا کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں بڑی انسانی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی السیستانی

عراق میں مقیم اعلی دینی مرجع نے غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہوئے وہاں رونما ہونیوالی بڑی انسانی تباہی کو فی الفور روکنے پر تاکید کی ہے اسلام ٹائمز۔ عراق میں مقیم اعلی دینی مرجع آیت اللہ سید علی السیستانی نے تاکید کی ہے کہ غزہ کے خلاف تقریباً 2 سالوں سے جاری مسلسل قتل و غارت و تباہی کہ جس میں نہ صرف لاکھوں عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں بلکہ شہروں کے شہر اور اکثر رہائشی عمارتیں بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں، کے بعد غزہ کی پٹی کے مظلوم فلسطینی عوام اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزر رہے ہیں، خصوصا خوراک کی شدید قلت کہ جس کے باعث قحط پھیل چکا ہے اور حتی کمسن بچے، بیمار اور بوڑھے بھی اس سے محفوظ نہیں۔

اس حوالے سے آیت اللہ سیستانی کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں تاکید کی گئی ہے کہ اگرچہ فلسطینی عوام کو ان کے وطن سے بے گھر کرنے کی مسلسل کوششوں کے تناظر میں قابض صیہونیوں سے، اس ہولناک بربریت کے سوا کسی دوسری چیز کی توقع بھی نہیں لیکن دنیا، بالخصوص عرب و اسلامی ممالک کو اس عظیم انسانی تباہی کے تسلسل کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہیئے اور توقع ہے کہ وہ ان جرائم کا خاتمہ کریں گے اور معصوم فلسطینی شہریوں کے لئے خوراک و بنیادی ضروریات کی جلد از جلد فراہمی کے لئے قابض رژیم اور اس کے حامیوں کو اپنی تمام طاقت کے ذریعے مجبور کریں گے۔

مرجع عالیقدر نے تاکید کی کہ غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر قحط کے ہولناک مناظر جو میڈیا کے ذریعے نشر کئے جا رہے ہیں، کسی بھی با ضمیر شخص کو سکون سے کھانے پینے کی اجازت تک نہیں دیتے جیسا کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام نے بلاد اسلامی میں کسی عورت کے خلاف زیادتی کے حوالے سے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ایسے کسی واقعے پر غم و غصے سے اپنی جان بھی دے دے تو بھی اس پر کوئی ملامت نہیں بلکہ میرے خیال میں وہ اس کا سزاوار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ میں سیلاب متاثرین کے لیے گھروں کی تعمیر پوری دنیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، شرجیل انعام میمن
  • کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
  • پنجاب میں مثالی گاؤں منصوبہ، مریم نواز کی قیادت میں دیہی ترقی کی نئی مثال
  • انتظامیہ کو نظر بندیوں، پابندیوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، میر واعظ
  • امریکا سے جبری ملک بدری کی پروازوں کا پھر آغاز
  • غزہ میں انسانی تباہی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی سیستانی
  • غزہ میں بڑی انسانی کو روکا جائے، آیت اللہ سید علی السیستانی
  • بھارت میں جبری مذہبی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والے گروپ پر انتہا پسند ہندوؤں کا حملہ
  •   راولپنڈی میں  بڑی تباہی کا منصوبہ ناکام ، خطرناک دہشت گرد گرفتار
  • سینیٹ کے انتخابی نتائج ، کیا یہی افہام وتفہیم ہے؟