راوپنڈی کی اڈیالہ جیل کے اطراف سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور پولیس نے جیل جانے والے راستوں پر کنٹینرز لگا دیے ہیں۔ پولیس کی جانب سے سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں کی مکمل تلاشی لی گئی اور مخصوص افراد کے علاوہ کسی کو بھی آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس موقع پر علیمہ خان نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔پولیس نے بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان کی گاڑی کو بھی جیل سے دو کلومیٹر دور روک لیا۔ علیمہ خان نے پولیس کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے عدالتی احکامات بھی دکھائے.

تاہم ابتدائی طور پر انہیں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔پولیس حکام نے بتایا کہ اڈیالہ جیل کے اطراف سرچ آپریشن جاری ہے اور جب تک آپریشن مکمل نہیں ہو جاتا. کسی کو بھی جیل کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

بعد ازاں سہیل خان اور علیمہ خان اڈیالہ جیل پہنچنے میں کامیاب ہو گئے. جہاں جیل حکام نے انہیں اندر جانے کی اجازت دے دی۔ تاہم  علیمہ خان کی گاڑی کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں پیدل ہی جیل کے اندر جانا پڑا۔علیمہ خان نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اور وکلا کو اڈیالہ جیل کے قریب پہنچنے کے بعد روک دیا گیا، جبکہ دیگر افراد کو جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پولیس انہیں غیر ضروری طور پر روکے ہوئے ہے، حالانکہ ان کے پاس عدالتی احکامات موجود ہیں جن کے تحت انہیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔علیمہ خان نے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں کو جیل سے تقریباً دو کلومیٹر پہلے روک لیا گیا، جبکہ دیگر افراد کو جانے دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر سرچ آپریشن ہو رہا ہے تو پھر سب کے لیے یکساں پابندی کیوں نہیں؟ ’یہ کیسا آپریشن ہے کہ ہر کوئی جا سکتا ہے مگر ہمیں روکا جا رہا ہے؟‘ انہوں نے کہا کہ جب تک انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی، وہ کہیں نہیں جائیں گی۔علیمہ خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی بالکل صحت مند ہیں، وہ باقاعدگی سے ورزش کرتے اور کم کھاتے ہیں. لہٰذا جیل انتظامیہ ان کی صحت کو جواز بنا کر کوئی بہانہ نہیں بنا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال قابلِ قبول نہیں اور وہ اس حوالے سے مزید قانونی چارہ جوئی پر بھی غور کر رہی ہیں۔اپنی گفتگو میں علیمہ خان نے پارٹی چھوڑنے والوں پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون آ رہا ہے اور کون جا رہا ہے، ہمارے لیے صرف بانی پی ٹی آئی اہم ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی کو دس دن کے لیے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، اور یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جو پارٹی اور ان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔علیمہ خان نے کہا کہ ان کے پاس عدالتی احکامات ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں اور وکلا کو روکا جا رہا ہے۔ ’بغیر کسی وجہ کے مقدمات کی سماعت آگے تو نہیں کی جا سکتی.پھر ہمیں ملاقات سے کیوں روکا جا رہا ہے؟‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دی جائے .تاکہ ان کی خیریت کے بارے میں تسلی ہو سکے۔علیمہ خان اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا کہ جب تک انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی. وہ جیل کے باہر ہی موجود رہیں گے اور ہر قانونی آپشن پر غور کریں گے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: کی اجازت نہیں دی ملاقات کی اجازت بانی پی ٹی آئی جانے کی اجازت اڈیالہ جیل کے علیمہ خان نے نے کہا کہ جا رہا ہے انہوں نے اور ان

پڑھیں:

عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ

جہاں تک علمائے کرام کے حوالہ سے موجودہ صورت حال کا تعلق ہے، مجھے ’’چومکھی لڑائی‘‘ کا محاورہ یاد آرہا ہے جس میں انسان کو آگے، پیچھے، دائیں، بائیں، چاروں طرف سے دشمنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سب سے بیک وقت لڑنا پڑتا ہے لیکن اس وقت دنیا میں اہل دین کو اور اسلام کی نمائندگی کرنے والوں کو جن محاذوں کا سامنا ہے اور جن جن مورچوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اسے دیکھ کر اس محاورے کا دامن تنگ نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ شاید اسے ڈبل کر کے بھی درپیش منظر کی پوری طرح عکاسی نہ کی جا سکے۔ مگر میں ان میں سے چند اہم محاذوں اور مورچوں کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جن پر اس وقت دنیائے اسلام کے اہل دین کو محاذ آرائی درپیش ہے۔
پہلا مورچہ تو عالمی سطح کا ہے کہ عالمی قوتوں نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اہل دین کو اقتدار اور قوت میں آنے سے ہر قیمت پر روکنا ہے اور یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ آپ حضرات کے علم میں ہوگا کہ پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی خلافت عثمانیہ بھی جرمنی کے ساتھ تھی اور جرمنی کی شکست کی وجہ سے وہ بھی شکست سے دوچار ہو گئی تھی۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے ایک طرف ترکوں کو ’’ترک نیشنل ازم‘‘ کے نام پر عربوں کے خلاف ابھارا گیا تھا اور دوسری طرف عربوں کو ان کی برتری کا احساس دلا کر ’’عرب قومیت‘‘ کا پرچم ان کے ہاتھ میں تھما دیا گیا تھا۔ مکہ مکرمہ میں خلافت عثمانیہ کے گورنر شریف حسین کو عرب خلافت کا لالچ دے کر ترکی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیا گیا تھا جس کی بغاوت کے بعد عرب علاقے ترکی کی دسترس سے نکل گئے تھے۔ فلسطین پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا تھا۔ عراق اور اردن پر شریف مکہ کے ایک ایک بیٹے کو بادشاہ بنا کر حجاز پر آل سعود کا قبضہ کرا دیا گیا تھا۔ اس دوران جنگ عظیم میں شکست کے بعد جب قسطنطنیہ یعنی استنبول پر برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں نے قبضہ کر لیا تو ترکوں کو ترکی کی حکومت کے حوالے کرنے کے لیے اتحادیوں کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ترکی کے قوم پرست لیڈروں کو اس شرط پر ترکی کا حکمران تسلیم کیا گیا کہ وہ ترکی کی حدود تک محدود رہیں گے۔ خلافت کو ختم کر دیں گے۔ ملک میں نافذ اسلامی قوانین منسوخ کر دیں گے۔ اور اس بات کی ضمانت دیں گے کہ آئندہ کبھی اسلامی قوانین نافذ نہیں کیے جائیں گے اور نہ ہی خلافت بحال کی جائے گی۔
مصطفی کمال اتاترک اور دیگر ترک قوم پرست لیڈروں نے ان شرائط کو قبول کر کے ترکی کا اقتدار سنبھالا اور ان شرائط پر عمل بھی کیا۔ آج بھی یہی صورت حال درپیش ہے اور مغربی ممالک اپنی ان شرائط پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں طالبان کی حکومت کا تیاپانچہ اسی جرم میں کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسلامی قوانین نافذ کر دیے تھے اور خلافت کے قیام کی طرف پیش رفت کر رہے تھے، اس لیے ہمارا سب سے بڑا محاذ یہ عالمی گٹھ جوڑ ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام میں اصل رکاوٹ ہے۔ اس محاذ سے عالم اسلام کی رائے عامہ کو آگاہ کرتے ہوئے عام مسلمانوں کو بیدار کرنا اور اس گٹھ جوڑ کے خلاف منظم کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔ یہ کام انہوں نے ہی کرنا ہے۔ اور کوئی یہ کام نہیں کرے گا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی سے کوئی توقع رکھنی چاہیے۔
ہمارا دوسرا محاذ داخلی ہے اور ہمارے حکمران طبقے اور مغرب کی تہذیب وترقی سے مرعوب حلقے ہم سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ اسلام کی کوئی ایسی نئی تعبیر وتشریح کی جائے جس میں اسلام کا پرچم بھی ہاتھ میں رہے، مغرب بھی ہم سے ناراض نہ ہو اور ہماری عیاشی، مفادات اور موجودہ زندگی کے طور طریقوں پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔ سود کی حرمت کی بات ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس کے بغیر ہماری تجارت نہیں چل سکتی، شراب کی بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ یہ دقیانوسی باتیں ہیں، ناچ گانے اور عریانی وفحاشی کی مخالفت کریں تو کلچر اور تہذیب کا سوال سامنے آ جاتا ہے اور نماز روزے کی پابندی کی طرف توجہ دلائیں تو زندگی کی مصروفیات کا بہانہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب ایسا اسلام جس میں نماز کی پابندی ضروری نہ ہو، سود کو نہ چھیڑا جائے، شراب پر کوئی پابندی نہ ہو، اور ناچ گانے کے فروغ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہو، ہماری سابق تاریخ میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اب اسے ’’روشن خیال اسلام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا جا رہا ہے اور مطالبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام کی سابقہ تعبیرات کو ترک کر کے اس ’’روشن خیالی اور ترقی پسندی‘‘ کو اپنا لیا جائے۔
(جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • علیمہ خان نے چیف جسٹس کو عمران خان کا پیغام پہنچادیا
  • عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • جنرل بخشی جیسے نیم پاگل لوگوں کی چیخوں سے پاکستان کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا، ایمان شاہ
  • آپ ہمارے ورکرز کے گھروں پر چھاپے ماریں، اتحاد ایسے نہیں چلتے: فیصل کنڈی 
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • غزہ میں ایک ماہ سے کوئی امدادی ٹرک داخل نہیں ہوا، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، اقوام متحدہ
  • اڈیالہ جیل کے قریب تعینات پولیس اہلکار کی علیمہ خان سے عمران خان کے حق میں گفتگو
  • اب ایک مہینہ ہو گیا، ہمیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا:علیمہ خان
  • بانی پی ٹی آئی کی 2 بہنوں کو ملاقات کی اجازت مل گئی