بانی پی ٹی آئی کے کہنے اپنی رکن قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دوں گا، شیر افضل مروت
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
بانی پی ٹی آئی کے کہنے اپنی رکن قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دوں گا، شیر افضل مروت WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز )قومی اسمبلی کے رکن شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے کہنے اپنی رکن قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دوں گا، صوابی جلسے میں مجھ سے غلطی ہوئی کہ اٹھ کر ہاتھ ہلا دیا، میرے ہاتھ ہلانے سے نظم وضبط کی خلاف ورزی ہوگئی، سلمان اکرم راجا کو سفارش پرعہدہ ملا ہے، کچھ لوگ بانی سے من پسند فیصلے کروا رہے ہیں۔
شیر افضل مروت نے کہا کہ میرے خلاف توہین آمیز بیان دیئے گئے، کوئی توہین آمیز بیان دے گا تو جواب تو ملے گا، میرٹ پر فیصلہ ہوتا تو سلمان اکرم راجا کوعہدہ ہی نہیں ملتا، سلمان اکرم راجا 8 ماہ قبل پارٹی میں شامل ہوئے اور پارٹی کا سیکرٹری جنرل بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ سلمان اکرم پنجاب میں ایک جلسہ تک نہیں کروا سکے، سلمان اکرم کی تعیناتی بھی مجھے ہٹائے جانے جیسی ہے، صوابی میں تقریر کا موقع نہ دینا غیراخلاقی حرکت تھی، مجھے بار بار رگڑا دیا گیا، مجھے گرانے کی کوشش کی گئی، میرے خلاف یکطرفہ طور پر چار توہین آمیز بیان دیئے گئے۔
ایم این اے نے کہاکہ پی ٹی آئی میڈیا میرے خلاف گالم گلوچ پر اتر آیا ہے، مجھے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں، بانی سیغلط فیصلے کروانے والوں کو قیادت نہیں کہہ سکتے، کچھ لوگ بانی سے من پسند فیصلے کروا رہے ہیں، یہ لوگ ایک محاذ پر بھی پارٹی کو کامیابی نہیں دلوا سکے، یہ ہر ایک کو اپنا فرماں بردار بنانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی مسلسل پابند سلاسل ہیں، رٹے رٹائے جملے بانی کے کانوں میں انڈیلے جا رہے ہیں، کچھ لوگ اپنی قربت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، حقائق بتا دیئے تو کارکن موجودہ قیادت کا منہ نہیں دیکھیں گے، عمران خان کو قبضہ مافیا کے چنگل سیچھڑانا ہے، بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے نظریے کے ساتھ ہوں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی آئی شیر افضل مروت قومی اسمبلی سلمان اکرم رہے ہیں
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی