گریڈ 17 اوربالا افسران کو بیوی، زیرکفالت بچوں کے اثاثے ڈکلیئرکرنا ہونگے، سول سرونٹس ترمیمی بل
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
سٹی42: وفاقی حکومت نے بے تحاشا جائیدادیں بنانے والے سرکاری افسروں پر گرفت کرنے کے لئے دیرینہ عوامی مطالبہ پورا کرتے ہوئے سخت نوعیت کی پابندی عائد کر دی۔سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کے بل کی تفصیلات سامنے آگئیں۔
گزشتہ روزقومی اسمبلی میں سول سرونٹس ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا گیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے سول سرونٹس ایکٹ ترمیمی بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا تھا۔
سول سرونٹس ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق سرکاری افسران اپنے اثاثے ظاہر کریں گے، گریڈ 17 اوربالا افسران شریک حیات اورزیرکفالت بچوں کے اثاثے ڈکلیئرکریں گے، اس کے علاوہ اپنے غیرملکی اور ملکی اثاثے اور واجبات ڈکلیئرکریں گے۔
قومی اسمبلی کے سینئیر رکن انتقال کر گئے
بل کے تحت تفصیلات ایف بی آر کے ساتھ ڈیجیٹل فائل کی جائیں گی جوپبلک ہوں گی، انکشافات عوامی مفادات اورشخص کی پرائیویسی اورسکیورٹی کا توازن مدنظر رکھ کر کیے جائیں گے، یہ ترمیم معلومات تک رسائی کے ایکٹ کے تحت ہے۔
ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ ذاتی معلومات، شناختی کارڈ نمبر، ایڈریس، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات کا تحفظ کیا جائے گا، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خطرے پر مبنی تصدیق کیلئے ضروری وسائل اورفریم ورک فراہم کیا جائے گا۔
تعلیمی اداروں کے قریب غیر معیاری کھانے بیچنے والوں کی شامت
ترمیم بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق ترمیم کا مقصد رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اثاثہ جات کا اعلان یقینی بنانا ہے اور ترمیم کا مقصد ہے گریڈ17 سے 22 کے عہدیداران کے ملکی وغیرملکی اثاثے عوام کیلئے قابل رسائی ہوں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سول سرونٹس ایکٹ ترمیمی بل آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پیش کیاگیا ہے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: سول سرونٹس ایکٹ
پڑھیں:
حساس اداروں سمیت سربراہ کیخلاف توہین آمیز پوسٹ، پیکا ایکٹ کے تحت شہری پر مقدمہ درج
سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سوشل میڈیا پر حساس اداروں اور سربراہ کے خلاف توہین آمیز پوسٹ کرنے پر شہری کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ کرنے پر مقدمہ ملزم وقار خان کے خلاف تھانہ شادباغ میں پیکا ایکٹ کے تحت درج کیا گیا۔ مقدمے میں دیگر دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اندراج مقدمہ کے بعد پولیس نے مزید قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ دوسری جانب، پیکا ایکٹ ترمیم کے خلاف دائر درخواست پر پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس ارشد علی اور جسٹس جواد احسان اللہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا۔ درخواست گزار کے وکیل نعمان محب کاکا خیل کا موقف تھا کہ پیکا ایکٹ میں ترمیم کرکے غلط اور جھوٹی خبروں پر سزائیں متعارف کروا دی گئی ہیں، پیکا ایکٹ کے سیکشن 26 اے سمیت متعدد سیکشنز میں ترمیم کی گئی ہے لیکن ترمیم مبہم ہے اور فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کونسی ہوگی۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ترمیم میں خلاف ورزی پر بڑی بڑی سزائیں رکھی گئی ہیں۔ ترمیم میں جج، اراکین اسمبلی اور دیگر اداروں کے خلاف کوئی بھی بات کرنے پر سزا مقرر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے خلاف ہے کیونکہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے، یہ ترمیم جمہوریت اور انسانی حقوق اور احتساب پر وار ہے، یہ ترمیم اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے کی گئی ہے۔ عدالت نے وفاقی حکومت، پی ٹی اے اور پیمرا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے ایک ماہ کے اندر جواب طلب کر لیا۔