صرف رمضان نہیں مستقل پیکیج کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج لائیں گے۔ انھوں نے اس سلسلے میں وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کو ہدایات بھی جاری کر دی ہیں۔ ان ہدایات میں کہا گیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے بغیر رمضان پیکیج تیار کیا جائے تاکہ کرپشن اور خراب مال کی شکایات دوبارہ سامنے نہ آئیں یہ معاملہ پہلے کی طرح نہیں چل سکتا۔
وزیر اعظم نے یوٹیلیٹی اسٹورز میں کرپشن اور خراب مال کی جو بات کی ہے وہ درست ہے کیونکہ حکومت یوٹیلیٹی اسٹورز کی تعداد بڑھاتی اور رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کو مزید رقم اور سبسڈی دیتی رہی جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ پریشانی اور ذلت برداشت کرنا پڑتی تھی اور حکومت کی طرف سے عوام کو ہر سال رمضان میں یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے جن مراعات کا اعلان کیا جاتا تھا، اس کا سب سے زیادہ فائدہ یوٹیلیٹی کارپوریشن کے افسروں اور نچلے عملے کو پہنچتا تھا۔
حکومت رمضان المبارک میں زیادہ استعمال میں آنے والی خوردنی اشیا کے کم نرخوں پر فروخت کا جو ریلیف عوام کو دینا چاہتی تھی وہ اشیا متعلقہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر نایاب ہوتیں جب کہ وہ تاجروں کو خفیہ طور فروخت کر دی جاتی تھیں ۔
وزیر اعظم کا یہ فیصلہ درست ہے کیونکہ یوٹیلیٹی اسٹورز عوام کے لیے بے مقصد ہو چکے تھے جہاں عوام کو گھنٹوں خوار ہونے کے بعد بھی مطلوبہ اشیا سستے نرخوں پر نہیں ملتی تھیں اور حکومت کو ہر سال بڑی رقم فراہم کرنے کا مقصد پورا ہونے کے بجائے یوٹیلیٹی کارپوریشن میں کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے مفت میں بدنامی ہی ملتی تھی اور یہ سلسلہ سالوں سے جاری تھا اور یوٹیلیٹی اسٹورز قومی خزانے پر بوجھ بن چکے تھے۔
اب حکومت جس نئی پالیسی کے ذریعے عوام کو ریلیف دینا چاہ رہی ہے وہ پالیسی سرکاری افسر بنائیں گے اور سرکاری عملے کے ذریعے ہی حکومت عوام کو ریلیف دلائے گی مگر حکومت کا کوئی محکمہ عوام کو ریلیف دینے پر یقین ہی نہیں رکھتا تو وہ سرکاری ریلیف عوام تک کیسے پہنچے گا یہ سب سے اہم سوال ہے اور حکومت کی نئی پالیسی کا حشر بھی کہیں یوٹیلیٹی اسٹورز جیسا نہ ہو جو عوام کے لیے تکلیف دہ بن چکے تھے جس کی وجہ سے حکومت کو نئی پالیسی لانے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے مگر ایسی کوئی گارنٹی نظر نہیں آ رہی کہ عوام کو حقیقی طور ریلیف مل سکے۔
ملک کے تاجروں اور اکثر ناجائز منافع خوروں نے مسلمانوں کے مقدس ترین ماہ رمضان کو اپنی ناجائز کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور رمضان کی آمد سے قبل ہی رمضان میں زیادہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی ذخیرہ کرکے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے اور نرخ بڑھا دیے جاتے اور رمضان کو دنیاوی کمائی کا ذریعہ بنایا جا چکا ہے۔ رمضان میں نرخ بڑھانے کے مذموم کاروبار کے ساتھ سال بھر جمع کی گئی خراب اور مضر صحت اشیا بھی ملاوٹ کرکے فروخت کر دی جاتی ہیں جنھیں چیک کرنے کا ذمے دار محکمہ چیک ہی نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے ملک کے بڑے تاجروں نے ہی نہیں بلکہ عام دکانداروں، پتھارے اور ریڑھی والوں نے بھی رمضان کو سب سے زیادہ کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور وہ رمضان ہی کو کمائی کا ذریعہ بنائے ہوئے اور ایک ماہ میں گیارہ ماہ کی کمائی پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی انسانیت یا احساس ہے اور برسوں سے رمضان ان مسلمان کہلا کر لوٹنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔
غیر مسلم ممالک کے تاجر اپنے ہر تہوار اور مسلمانوں کے مقدس ماہ کا احترام کرتے ہوئے اشیائے ضرورت کے نرخ اور فروخت عام کر دیتے ہیں مگر پاکستان جیسے اسلامی ملک کہلانے والے ملک میں اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ ناجائز منافع خوروں کے نزدیک رمضان المبارک دینی کمائی کے بجائے دنیاوی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس میں مسلمان کہلانے والے ہی رمضان میں اپنے ہی مسلمانوں کو بے دردی سے لوٹتے آ رہے ہیں۔
ملک میں ایسے مخیر حضرات بھی ہیں جو زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں اور بعض ادارے اور لوگ مل کر مفت افطاری، شربت اور روزہ کشائی کا فراخ دلی سے اہتمام کرتے ہیں۔ درد دل اور رمضان کا احترام اور احساس رکھنے والے رمضان میں حقیقی بچت بازار یا ضروری اشیا خصوصاً پھل اسٹال لگواتے ہیں جہاں بازاروں سے کم نرخوں پر یہ اشیا فروخت کرائی جاتی ہیں۔
مرکزی مسلم لیگ، سیلانی فاؤنڈیشن جیسے بڑے ملک گیر اداروں کی طرح چھوٹے فلاحی ادارے اور مخیر حضرات بھی رمضان کے علاوہ عام دنوں میں بھی لوگوں کو کسی منافع کے بغیر عوام کو ارزاں نرخوں پر روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیا پھل اور سبزیاں فروخت کراتے ہیں حکومت ایسے اداروں اور مخیر حضرات کے ذریعے بھی رمضان میں سرکاری ریلیف فراہم کرا سکتی ہے۔
18ویں ترمیم کے بعد مہنگائی کنٹرول کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ صرف بعض سبزیاں آلو، گوبھی، مٹر، دھنیا وغیرہ کے نرخوں میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ ان کی پیداوار ہے حکومتی اقدامات نہیں۔ صوبائی حکومتوں میں اب سندھ حکومت نے ناجائز منافع خوروں کے خلاف الگ تھانے بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی دوسروں کو بھی تقلید کرنی چاہیے تاکہ مہنگائی میں جکڑے لوگوں کو ناجائز منافع خوروں اور مہنگائی کے عذاب سے نجات مل سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ناجائز منافع خوروں یوٹیلیٹی اسٹورز کمائی کا ذریعہ اور رمضان کے ذریعے عوام کو ہے اور
پڑھیں:
اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں عوام میں اضطراب نہ پھیلائیں‘چولستان کینال منصوبے پر کاپچھلے سال سے رکا ہوا ہے.مرادعلی شاہ
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپوزیشن اور قوم پرست جماعتوں سے عوام میں اضطراب نہ پھیلانے کی درخواست کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ چولستان کینال منصوبے پر کام گذشتہ سال جولائی سے رکا ہوا ہے جبکہ سندھ کے اعتراض کی وجہ سے قومی معاشی کونسل میں اس منصوبے کی منظوری نومبر سے رکی ہوئی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ اگر معاملات ہمارے ہاتھ سے نکلے تو ہر قسم کی کال دیں گے.(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ نہروں کی تعمیر کے معاملے پر سب سے پہلے ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے احتجاج کیا تھا سندھ حکومت یہ کینال کبھی بننے نہیں دے گی کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے پنجاب حکومت کا نام لیے بغیر اس پر چولستان کینال کا یکطرفہ افتتاح کر کے سندھ کے لوگوں میں بدگمانی پیدا کرنے کا الزام لگایا. انہوں نے کہاکہ سب کو پتا لگ چکا ہے منصوبے کا جو افتتاح کیا گیا تھا وہ حقیقتاً افتتاح بھی نہیں تھایاد رہے کہ گذشتہ ماہ کے آغاز میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے چولستان منصوبے کا افتتاح کیا تھا مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ منصوبے کو روکنے پر وہ وفاقی حکومت کے شکر گزار ہیں تاہم ان سے شکوہ ہے کہ اس پراجیکٹ کو اب تک ختم کیوں نہیں کر دیا گیا. انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت کو اندازہ ہے معاملات درست نہیں چل رہے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ پانی کی کمی اور فوڈ سکیورٹی کے مسائل کینال بنا کر نہیں بلکہ پیداوار اورپانی کے بہتر استعمال سے حل کیے جا سکتے ہیں انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس معاملے وفاقی حکومت کی جانب سے رابطے کیے گئے ہیں اورمیں امید کرتا ہوں کہ وزیر اعظم انصاف سے کام لیں گے. دوسری جانب اپوزیشن اور قوم پرست جماعتیں چولستان کینال پراجیکٹ پر پیپلزپارٹی کے موقف کو مرکزمیں اس کی اتحادی حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے ساتھ گٹھ جوڑقراردے رہے ہیں ان کا کہنا ہے جب جولائی 2024میں صدر آصف علی زرداری نے اجلاس میں صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے نہروں کے منصوبے کی منظوری دی تھی اس وقت پیپلزپارٹی کو” اصولی موقف“یاد کیوں نہیں رہا؟. انہوں نے کہا کہ آج صدرمملکت کے صاحبزادے بلاول بھٹوزرداری اور پیپلزپارٹی کی مرکزی لیڈرشپ اچانک محترک کیوں ہوگئی ہے؟ان کا کہنا ہے کہ اصل میں پیپلزپارٹی قوم پرست اور اپوزیشن کی جانب سے سندھ بھر میں ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں کی کامیابی سے خوفزدہ ہوگئی ہے اور اسے سندھ اپنے ہاتھوں سے نکلتا نظرآرہا ہے اس لیے پیپلزپارٹی اپنی ہی جماعت کے شریک چیئرمین اور صدرمملکت کے فیصلے کے خلاف نام نہاد احتجاج ‘بیانات اور جلسوں کے ذریعے سندھ کے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی ہے.