کثیر الفریقی نظام کیا ہے اور ہماری دنیا کے لیے اس کی کیا اہمیت ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 فروری 2025ء) کثیر الفریقی طریقہ کار کی اصطلاح ہے اقوام متحدہ میں تواتر سے استعمال ہوتی ہے۔ لیکن یہ تصور محض دفاتر کی راہداریوں اور کانفرنس ہال جیسی جگہوں سے مخصوص نہیں جہاں بین الاقوامی سفارت کاری ہوتی ہے بلکہ یہ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی پر بھی کئی طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔
اس سے تنازعات میں کمی لانے، معیشتوں کو ترقی دینے اور دنیا بھر میں محفوظ سفر یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔
علاوہ ازیں موسمیاتی تبدیلی اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت جیسے عالمگیر مسائل پر قابو پانے میں بھی اس کا اہم کردار ہے۔کثیرالفریقی طریقہ کار کا مطلب کیا ہے؟کثیرالفریقی، کثیرالجہت یا کثیر الاطراف بنیادی طور پر جیومیٹری کی اصطلاح ہے جس کا لفظی مطلب 'کئی سمتیں' ہے۔
(جاری ہے)
اب یہ بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری کے حوالے سے بھی استعمال ہوتی ہے جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر اور اہداف کے حامل بہت سے ممالک کسی مسئلے پر اکٹھے کام کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا نظام بنیادی کثیرفریقی فورم ہے جہاں رکن ممالک عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے اور اہم مسائل پر قابو پانے کے لیے اجلاس، کانفرنسوں اور ملاقاتوں کا انعقاد کرتے ہیں۔
بین الاقوامی تعلقات میں رکن ممالک کا ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اکٹھے کام کرنا تعاون، معاہدے کرنا سمجھوتہ اور اپنی کوششوں کو منظم کرنا ارتباط کہلاتا ہے جن پر کوئی ایک ملک اکیلا قابو نہیں پا سکتا۔
یہ تینوں چیزیں اعتماد کی بحالی اور تنازعات کے پرامن حل نکالنے میں مدد دیتی ہیں۔
جدید دنیا کی تشکیلذرا تصور کیجیے کہ اگر کوئی ایک ملک ٹیلی فون کے ذریعے رابطوں، فضائی سفر، ترسیلات یا ڈاک کا اپنا الگ نظام وضع کر لے اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر نہ چلے تو کیا ہو گا۔
ایسے میں بین الاقوامی سفر، رابطوں اور تجارت کی صورتحال ابتر ہو جائے گی۔ کثیرفریقی طریقہ کار کی بدولت ہمارے پاس ایسے بین الاقوامی نظام موجود ہیں جو ان تمام کاموں کو ممکن بناتے ہیں۔دنیا نے صحت سے لےکر ڈاک کے نظام اور سفر تک اپنی بہت سی روزمرہ سرگرمیوں کے حوالے سے عالمگیر ضابطے بنا رکھے ہیں اور بہت سے کثیرفریقی ادارے تخلیق کر رکھے ہیں جن میں بعض 19ویں صدی میں بنائے گئے تھے جو اب اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ کی تخلیق سے قبل قائم کردہ دو کثیرفریقی ادارےبین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی یونین (آئی ٹی یو): اس ادارے کو ٹیلی گراف کا نظام باضابطہ بنانے کے لیے 1865 میں قائم کیا گیا تھا۔ اب یہ ریڈیو کی فریکوئنسی، مصنوعی سیاروں اور انٹرنیٹ کے انتظام میں مدد دیتا ہے۔
بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او): اس ادارے کو 1919 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کا مقصد محنت کشوں کے حقوق کو فروغ دینا، باوقار روزگار کے مواقع بڑھانا، سماجی تحفظ میں اضافہ کرنا اور کام سے متعلق مسائل پر بات چیت کو بہتر بنانا ہے۔
کثیرفریقی پالیسیوں کی تشکیلاقوام متحدہ نے اپنے قیام (1945) سے ہی رکن ممالک کو اکٹھا ہونے اور اہم معاہدے تخلیق کرنے میں مدد دی ہے۔
جنرل اسمبلی پالیسی سازی کےحوالے سے ادارے کا مرکزی شعبہ اور بین الاقوامی مسائل پر کثیرفریقی بات چیت کے لیے مخصوص فورم ہے۔
معیشت کے حجم، آبادی یا عسکری طاقت سے قطع نظر اس کے 193 رکن ممالک میں سبھی کا ایک ووٹ ہوتا ہے۔
بہت کم آبادی والے یورپی ملک موناکو کا ووٹ بہت بڑی آبادی والے چین کے ووٹ کے برابر ہے۔ضابطے طے کرنا کثیرفریقی طریقہ کار کی ایک اور خصوصیت ہے۔ یہ کردار جنرل اسمبلی کا ہے جس نے تخفیف اسلحہ، انسانی حقوق اور تحفظ ماحول پر بہت سے بین الاقوامی قوانین اور معاہدے تخلیق کیے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی تیاری اور منظوری اس کی سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے جس نے انسانی حقوق سے متعلق جامع مجموعہ ہائے قوانین کے لیے راہ ہموار کی۔
دنیا کے تمام خطوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف قانونی اور ثقافتی پس منظر کے حامل نمائندوں کے تیار کردہ اس اعلامیے کو جنرل اسمبلی نے 1948 میں منظور کیا تھا۔اس کے ذریعے پہلی مرتبہ بنیادی انسانی حقوق کو بین الاقوامی تحفظ حاصل ہوا اور بہت سے نو آزاد ممالک اور جمہوریتوں کے آئین نے اسی سے تحریک پائی۔
سرد جنگ1940 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کے عشرے کے آغاز تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران اقوام متحدہ نے قیام امن اور تخفیف اسلحہ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
جوہری جنگ کے خطرے کے باوجود تیسری عالمی جنگ اقوام متحدہ کی جانب سے بات چیت اور فیصلہ سازی کا پلیٹ فارم مہیا ہونے کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔
اقوام متحدہ اور آج کی دنیاتقریباً 80 برس کے بعد آج بھی اقوام متحدہ دنیا میں کثیرفریقی طریقہ کار کے حوالے سے بنیادی ادارے کی حیثیت رکھتا ہے جو قیام امن سے لے کر معاشی ترقی اور تجارت تک بہت سے میدانوں میں بین الاقوامی کو ہم آہنگ اور مربوط کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذریعے مہیا کی جانے والی انسانی امداد کی بدولت لاکھوں زندگیوں کو تحفظ ملا ہے۔ اقوام متحدہ دنیا بھر میں آفات اور مسلح تنازعات کا سامنا کرنے والے لوگوں کو خوراک، صحت کی سہولیات اور پناہ فراہم کرتا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمائندے، نوجوان، کاروبار اور دیگر طبقات اور شعبے بھی کثیرفریقی نظام کا حصہ ہیں۔
رکن ممالک کو دور حاضر کے عالمگیر خطرات اور مسائل سے موثر طور پر نمٹنے میں عموماً مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ ان میں تباہ کن خانہ جنگی اور سرحد پار تنازع سے لے کر ممالک کے مابین اور ان کے اندر بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بے قاعدہ مصنوعی ذہانت و موسمیاتی تبدیلی تک بہت سے مسائل شامل ہیں۔
آنے والی دہائیوں میں اقوام متحدہ کو کثیرفریقی طریقہ کے لیے سب سے بڑے فورم کی حیثیت سے اپنا کردار بخوبی ادا کرنے کے قابل بنانا ضروری ہے۔
اس مقصد کے لیے 2020 میں رکن ممالک نے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کو موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے مضبوط تر عالمگیر انتظام کا تصور پیش کرنے کے لیے کہا تھا۔اس طرح 'ہمارا مشترکہ ایجنڈا' تشکیل دیا گیا جس میں قیام امن سے لے کر بین الاقوامی مالیاتی نظام، تعلیم اور پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت جیسے شعبوں کے لیے اصلاحات تیار کی گئیں۔
ان میں اقوام متحدہ کو بہتر بنانا بھی شامل تھا اور اس کے نتیجے میں مستقبل کا معاہدہ سامنے آیا جسے عالمی رہنماؤں نے گزشتہ سال ستمبر میں منظور کیا تھا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ امن اور ترقی کے لیے محض قوانین اور معاہدے کافی نہیں ہوتے۔ دنیا کو قوانین پر مبنی نظام سے مضبوط وابستگی درکار ہے جس میں اقوام متحدہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔
انہوں نے دیگر بین الاقوامی اور علاقائی اداروں کے ساتھ ایک منظم کثیرفریقی نظام کی ضرورت پر زور دیا جو آزمائشوں پر پورا اترے اور ناصرف موجودہ بلکہ آئندہ مسائل اور خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی اقوام متحدہ کے بین الاقوامی جنرل اسمبلی طریقہ کار رکن ممالک کرنے کے بہت سے کے لیے
پڑھیں:
مغرب کی بالادستی اور برکس کانفرنس سے وابستہ دنیا کا مستقبل
ریو ڈی جنیرو میں 2025 کی برکس کانفرنس میں اس سال کا مرکزی موضوع کثیرالجہتی (multilateralism) اور بین الاقوامی قانون کی بالادستی تھا، جو اقوام متحدہ کے منشور میں درج مقاصد و اصولوں پر مبنی ہے۔
کانفرنس نے بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام، انسانی حقوق کے فروغ، اور باہمی احترام، انصاف، مساوات اور یکجہتی پر مبنی تعاون کے لیے اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو دہرایا۔ اس وقت جبکہ مغربی قیادت میں قائم حکمرانی کا نظام اپنی استحصالی اور تحفظاتی پالیسیوں کی بدولت مستقل طور پر ساکھ کی زوال پذیری سے دوچار ہے اور اس کی وجہ سے عالمی سطح پر بے یقینی میں اضافہ اور ترقی کی رفتار میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والے برکس(BRICS )سربراہی اجلاس میں گلوبل ساؤتھ کے مفادات کے تحفظ اور نئے چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لیے تعاون کا ایک فریم ورک پیش کیا۔ اس کا مقصد امریکہ کی تجارتی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی پالیسیوں اور ترقی پذیر ممالک کی ترقی کی قیمت پر اپنی معیشت کو فروغ دینے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا تھا۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا پر غیر امتیازی محصولات عائد کیے ہیں، جو ایک صدی سے زائد عرصے میں پہلی بار دیکھنے میں آئے ہیں۔ یہ ‘‘جعلی’’ ٹیکس ظاہر کرتے ہیں کہ اب امریکہ نہ تو عالمی اقتصادی نظام کا مرکز ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے اور نہ ہی آزاد تجارت کا ضامن۔ اس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ پالیسی مقابلے سے خوف کی علامت ہے، جو دراصل امریکی معیشت میں جدت کو فروغ دے سکتی تھی اور جس نے عشروں تک امریکہ اور امریکی عوام کو فائدہ پہنچایا۔ یہ کرایہ خورانہ طرزِعمل (rent-seeking) نہ صرف عالمی معیشت بلکہ خود امریکی معیشت پر بھی بوجھ بن سکتا ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے مطابق، ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل کو متعارف کرائے گئے محصولات کے باعث 2025 میں امریکی شرحِ نمو 1.8 فیصد تک گر سکتی ہے، جو جنوری کی پیشگوئی سے 0.9 فیصد کم ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر آئی ایم ایف بڑی معیشتوں کے درمیان فوری تجارتی مفاہمت کی ضرورت پر زور دے سکتا ہے۔ایسے نازک موقع پر، جب محصولات کی وجہ سے غیر یقینی کی سطح انتہائی بلند ہو چکی ہے، کثیرالجہتی (multilateralism) کو فروغ دینا علاقائی ترقی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ عالمی اکثریت کی نمائندگی کرتا ہے اور اجتماعی مشاورت و تفہیم کے ذریعے غیر قانونی محصولات و پابندیوں کے خلاف مشترکہ آواز بلند کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
برکس نے اپنے بنیادی اصولوں متفقہ فیصلہ سازی، ترقی و مساوات کو فروغ دینے، اور عالمی اداروں میں اصلاحات و جدید کاری کی بدولت گزشتہ برسوں میں غیر معمولی توسیع حاصل کی ہے۔ انڈونیشیا، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، ایران، اور ممکنہ طور پر سعودی عرب جیسے کئی ابھرتے ہوئے ممالک اب اس تنظیم کا حصہ ہیں۔برکس کی مزید توسیع عالمی سطح پر اس بلاک کے اثر و رسوخ میں نمایاں اضافہ کرے گی اور بکھری ہوئی دنیا میں شمولیت اور ہم آہنگی لائے گی، اور خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ و شمالی افریقہ جیسے خطوں میں جو کہ غزہ پر قبضے کی امریکی دھمکیوں، تہران پر فوجی کارروائی کے امکانات، اور تیل کی مارکیٹ میں محصولات سے پیدا ہونے والی کساد بازاری جیسے بڑے چیلنجز سے دوچار ہیں استحکام اور ترقی کو فروغ دے گی۔
اگرچہ برکس پر مغرب کی قیادت میں قائم اقتصادی اداروں کو چیلنج کرنے اور متبادل عالمی نظام قائم کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، مگر یہ دعویٰ دلیل سے خالی ہے۔ برکس دراصل موجودہ عالمی نظام میں گلوبل ساؤتھ کے خلاف موجود تعصبات کو ختم کرنے، کثیرالجہتی کو فروغ دینے، بین الاقوامی اداروں کی اصلاح اور ایک مؤثر، جامع اور نمائندہ نظام کی تعمیر کے لیے کام کر رہا ہے۔ وانگ ای کی تجاویز اقوام متحدہ کے ویژن سے ہم آہنگ ہیں، جس کا ‘‘پیکٹ آف دی فیوچر’’ عالمی حکمرانی کو بدلنے کے لیے کوشاں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے گزشتہ برکس اجلاس میں گروپ کے کثیرالجہتی کے فروغ میں کردار پر زور دیا، ڈیجیٹل خلیج کے بڑھنے پر خبردار کیا، بریٹن ووڈ اداروں میں گلوبل ساؤتھ کی کم نمائندگی کا اعتراف کیا، اور زیادہ منصفانہ مالیاتی نظام، موسمیاتی اقدامات، ٹیکنالوجی تک رسائی اور امن کے قیام میں برکس سے کردار ادا کرنے کی اپیل کی ۔برکس کا ‘‘کنٹیجنٹ ریزرو ارینجمنٹ’’ عالمی مالیاتی نظام کی مضبوطی میں مدد دیتا ہے اور آئی ایم ایف کے معاون میکانزم کا تکملہ ہے، جب کہ اس کا ‘‘نیو ڈیولپمنٹ بینک’’ قابلِ تجدید توانائی، ا سمارٹ ٹرانسپورٹ اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ منصوبوں کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، جو اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی تباہی سے الگ کرتا ہے۔ برکس کی توسیع ایتھوپیا جیسے ممالک کو ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر کے ڈیجیٹل خلیج کو پاٹنے میں مدد دیتی ہے۔
تنظیم سفارت کاری، شمولیتی مکالمے، تنازعہ سے بچاؤ، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کی بنیاد پر اقوام متحدہ کی قیادت میں ایک نئی اور اصلاح شدہ کثیرالجہتی نظام کو فروغ دیتی ہے۔ ثقافتی تبادلوں اور انسان دوست منصوبوں پر باہمی اتفاق سے اس کی شناخت ایک ہمہ جہت تنظیم کے طور پر ابھر رہی ہے۔آج جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے، وہ امریکی قوم پرستانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے، جو عالمی امن کو نقصان پہنچا رہی ہیں اور کبھی مربوط رہنے والی گلوبلائزیشن کو ذاتی مفادات کے لیے تہ و بالا کر رہی ہیں۔ مغرب کی بالادستی والے ادارے موجودہ بحرانوں، جیسے یوکرین اور مشرق وسطیٰ کے مسائل، کا حل فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، جس کے باعث گلوبل ساؤتھ میں اس ‘‘لبرل’’ نظام سے بددلی بڑھ رہی ہے۔برکس کی صورت میں گلوبل ساؤتھ، خاص طور پر پسماندہ ممالک کو ایک ایسا پلیٹ فارم ملا ہے جہاں ان کے ساتھ باہمی احترام، کھلے پن، شمولیت اور یکجہتی کے جذبے کے تحت برتاؤ کیا جاتا ہے۔ یہ ممالک اب عالمی ناانصافیوں اور اقتصادی ناہمواریوں کے خلاف اجتماعی آواز بلند کر سکتے ہیں، عالمی پالیسی سازی میں حصہ لے سکتے ہیں، ایک منصفانہ اور برابری پر مبنی اقتصادی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور حقیقی کثیرالجہتی کو فروغ دے کر گلوبلائزیشن کو دوبارہ استحکام دے سکتے ہیں۔ برکس ممالک دنیا کی تقریباً نصف آبادی، 36 فیصد رقبے، 39 فیصد عالمی GDP جبکہ G7 کا 28.4 فیصدحصہ ہے، اور 23 فیصد عالمی تجارت
کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
اس اتحاد کے پاس اتنے وسائل اور معاشی و آبادیاتی طاقت ہے کہ وہ دنیا میں موجود عدم توازن کو ختم کر سکے اور مغرب کے زیر اثر عالمی نظام کو متوازن کر سکے۔ اگر یہ ممالک آپس میں اتحاد، کثیرالجہتی کے فروغ اور بہتر عالمی حکمرانی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ نہ صرف ٹرمپ کی مالی خودمختاری پر حملے کو روک سکیں گے، بلکہ عالمی امن، استحکام اور ترقی پذیر دنیا میں مشترکہ ترقی کو فروغ دینے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ برکس اب خود کو تاریخی طور پر محکوم اقوام کے اتحاد کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس کے اراکین اور شراکت داروں کی فہرست ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔ 2025 میں کولمبیا اور بولیویا نے رکنیت میں دلچسپی ظاہر کی۔ خاص طور پر کولمبیا کی گزشتہ3 برسوں میں امریکی اثر سے علیحدگی اور زیادہ خودمختار خارجہ پالیسی کی طرف پیش رفت قابلِ ذکر ہے۔ برکس کے موجودہ مکمل رکن ممالک میں برازیل، روس، بھارت، چین، جنوبی افریقہ، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ایران شامل ہیں جبکہ اس کے شراکت دار ممالک میں بیلاروس، بولیویا، کیوبا، قازقستان، ملائیشیا، نائجیریا، تھائی لینڈ، یوگنڈا اور ازبکستان شامل ہیں۔
2024 میں 30 سے زائد ممالک نے برکس میں مکمل رکن یا شراکت دار بننے کی خواہش ظاہر کی۔2025 کی کانفرنس نسبتاً کم نمایاں سمجھی جا رہی تھی، خاص طور پر 2024 کی کازان کانفرنس کے مقابلے میں،کیونکہ برازیل اس سالCOP30 کی میزبانی بھی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی توجہ منقسم نظر آئی۔ اس کے باوجود، برکس 2025 نے میڈیا کی توقع سے زیادہ توجہ حاصل کی۔ اس تنظیم سے امریکہ کے خوف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس میں شامل ہونے یا امریکی ڈالر کو بائی پاس کرنے والے کسی بھی ملک پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کی دھمکی دی ہے۔ اس سے یہ بات زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ خودمختار کرنسیوں میں دوطرفہ تجارت اور امریکی معاشی پالیسیوں، خاص طور پر ٹرمپ کی 100% ٹیرف کی تجاویز پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد، عالمی منڈیوں کو ہلا رہا ہے۔ امریکی ڈالر انڈیکس کے مطابق، جون 2024 سے ڈالر کی قدر میں تقریباً 8.8فیصد کمی ہوئی ہے۔2023 میں اقوامِ متحدہ کے تحت کچھ سرمایہ کاری بینکوں نے خبردار کیا تھا کہ امریکی ڈالر عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر اپنی حیثیت کھو سکتا ہے، اور اس کی جگہ چینی یوان، جاپانی ین یا ممکنہ برکس کرنسی لے سکتی ہے۔
برکس 2025 کانفرنس میں بڑے جغرافیائی تنازعات پر بھی بات کی گئی۔جون میں ایران پر امریکی اور اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کی گئی اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔بھارت کی جانب سے ان قراردادوں کی حمایت ایک اسٹریٹیجک توازن کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ بھارت برکس کے نوآبادیاتی مخالف بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے، لیکن اگر بین الاقوامی قانون کے نفاذ میں یکسانیت کا مطالبہ بڑھا تو اسرائیل سے اس کے قریبی تعلقات اور کشمیر پر اس کا غیر قانونی قبضہ، برکس میں اس کے کردار پر سوالات اٹھا سکتا ہے ۔2024 کی کازان کانفرنس نے برکس کے ادارہ جاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس میں متعدد اقدامات شامل تھے جیسے برکس فنانس ٹریک مرکزی بینک ورکنگ گروپ ادائیگیوں کا تعاون کونسل تیز معلوماتی سلامتی چینل انسداد بدعنوانی ورکنگ گروپ برکس اسپیس کونسل برکس ہیلتھ کیئر اور نیوکلیئر میڈیسن ورکنگ گروپ وغیرہ برازیل نے اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سال5 نئے ورکنگ گروپس شروع کیے۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبارSMEsانسداد دہشت گردی، آفات سے نمٹنے اور انسداد اجارہ داری اور مقابلہ پالیسی برکس 2025 کو عالمی جنوب کے مابین گہرے تعاون کی جانب ایک اور قدم قرار دیا جا رہا ہے، اس کا مقصد جامع اور پائیدار عالمی نظم و نسق قائم کرنا ہے۔جہاں 2024 کی کازان کانفرنس کثیرالجہتی ترقی اور سلامتی پر مرکوز تھی، وہیں ریو کی کانفرنس عالمی جنوب کی آواز کو ابھارنے پر زیادہ مرکوز رہی۔2026 کی برکس کانفرنس کی میزبانی بھارت کرے گا، اور یہ کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ ماہرین بھارت کے برکس کے اصلاحاتی ایجنڈے سے طویل المدتی وابستگی پر غیر یقینی کا اظہار کر رہے ہیں۔یہ کانفرنس بھارت کے لیے ایک آزمائش ہوگی اور اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ کیا وہ واقعی برکس کے کثیرالجہتی، جامع حکمرانی، اور جنوب۔جنوب تعاون کے وژن کے ساتھ کھڑا ہے، یا اس کی پالیسی اسٹریٹیجک ابہام پر ہی قائم رہے گی؟