وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اس بار کوئی منی بجٹ نہیں آئےگا، ٹیکس دہندگان پر اضافی بوجھ ڈالے بغیر سالانہ ریونیو ہدف پورا کریں گے۔

غیرملکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ٹیکس ریونیو درست سمت میں جارہا ہے جبکہ جی ڈی پی کا ہدف پورا کرلیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان سعودی عرب کے وژن 2030 سے سیکھنے کے لیے پُرعزم ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

محمد اورنگزیب نے کہاکہ مہنگائی اور شرح سود میں کمی کے لیے حکومت کی جانب سے اہم فیصلے کیے جارہے ہیں، ہماری توجہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور نجکاری کے عمل کو تیز کرنے پر بھی مرکوز ہے۔ انہوں نے چینی مارکیٹ میں جلد پانڈا بانڈ جاری کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

وزیر خزانہ نے کہاکہ ٹیکس اور توانائی سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ ہم معدنیات، زراعت اور آئی ٹی سروسز میں سرمایہ کاری کے لیے پُرامید ہیں۔

انہوں نے کہاکہ سعودی عرب کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی حکومتی سطح پر منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔

وزیر خزانہ نے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے آئی ایم ایف سے فنڈز ملنے کی امید بھی ظاہر کردی۔

قبل ازیں اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ سے عالمی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرز کے وفد نے ملاقات کی اور نئے کنٹری فریم ورک پراظہار تشکر کیا۔

یہ بھی پڑھیں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات، اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال

وزیر خزانہ نے اقتصادی اور ترقیاتی حکمت عملی کے لیے عالمی بینک کی معاونت کو سراہا اور کہاکہ نئے کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت عالمی بینک ترقیاتی ترجیحات کے لیے 20 ارب ڈالر کی غیرمعمولی مالی معاونت دےگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews توانائی ٹیکس جی ڈی پی سالانہ ریونیو ہدف محمد اورنگزیب منی بجٹ وفاقی وزیر خزانہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: توانائی ٹیکس جی ڈی پی سالانہ ریونیو ہدف محمد اورنگزیب وفاقی وزیر خزانہ وی نیوز وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہاکہ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی،  اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔

جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے،  پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ  دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،

آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔

انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی،  وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے،  خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ  افغانستان ہمارا دشمن ہے  اور محمود غزنوی کو  لٹیرا  قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ  یہ کہنا کہ  ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے،  تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔

پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  •   ایف بی آر کو جولائی تا اکتوبر 270 ارب روپے کے ریونیو شارٹ فال کا سامنا
  • ٹیکس آمدن میں اضافہ ایف بی آر اصلاحات کا نتیجہ، غیررسمی معیشت کا خاتمہ کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ