Nai Baat:
2025-09-17@23:47:55 GMT

اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

اداکارہ روحی بانو، عبدالقادر جونیجو اور کتا (پہلی قسط)

گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا ہی دو
جو نقش بن نہیں سکتا اسے مٹا ہی دو
گزرا زمانہ، گزرا وقت، گزرے بڑے لوگ یاد ماضی کی طرح آج بھی کم از کم میرے جیسے لوگوں کے دلوں میں آباد ہیں۔ اس لئے کہ میں اس زمانے کا جس کا میں ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ میں اس کا ہمسفر تھا۔کامیاب زمانوں کے کامیاب لوگ یعنی جہاں زمانے نے ان کو عزت دی وہاں وہ بھی زمانے کو اپنے نام سے منسوب کر گئے۔ فرانس کے سابق صدر ڈیگال مرحوم کا قول ہے کہ عظیم انسانوں کے بغیر کوئی کام عظیم نہیں ہوتے۔ وہ کیوں عظیم ہوتے ہیں تو ڈیگال نے کہا کہ ان کے کئے کاموں میں ارادے کی پختگی ان کو عظیم سے عظیم تر بنا جاتی ہے۔ ڈیگال کے اس موقف کے بعد بڑے لوگوں کے بارے میں کسی بھی طرح کی رائے اس کے آگے مانند پڑ جاتی ہے۔ ایک طویل عرصہ شوبز کی زندگی میں وابستگی کے بعد بہت دل کرتا ہے کہ اپنی یادوں کو قلم کے حوالے کروں۔ عزت، شہرت، دولت کے حوالے سے ان فنکاروں کے بارے بات کروں جنہیں وقت اور ان کے کئے کاموں نے بہت اونچا کر دیا اور وہ جو بہت نام تو کما گئے مگر نہ دولت اور نہ عزت سنبھال پائے۔ میں ان کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس دولت بارش کی طرح برستی تھی اور وہ اس کو لٹاتے بھی بارش کی طرح تھے اور جب سب کچھ لٹاتے لٹاتے ختم ہو گیا تو نہ عزت رہی نہ دولت رہی نہ زمانہ رہا اور جب وقت رخصت قریب آیا تو آخری زندگی میں نہ دوست نہ غم خوار، نہ دل دینے والے کام آئے اور موت بھی آئی تو کسمپرسی کی حالت میں…
میں پی ٹی وی کے 70ء سے 2000ء تک کے دور کا چشم دید گواہ ہوں۔ اس زمانے کی چھوٹی بڑی سکرین کے بڑے لوگوں کے ساتھ گہرا تعلق رہا۔ ایک نہیں سینکڑوں چھوٹے بڑے نام اور بڑے فنکاروں اور ان کی ذاتی زندگیوں سے لے کر فلمی سکرین پر کئے کاموں تک کو بڑے اخبارات کے سپرد قلم کر چکا ہوں۔ زندگی نے وفا کی تو اب چند اہم بڑے فنکاروں کے بڑے یادگار واقعات کو نئی نسل کے حوالے ضرور کروں گا۔ ایسی اداکارائیں، گلوکارائیں، اداکار اور گلوکار، ہدایت کار، کہانی نویس، موسیقاروں کی ایک لمبی فہرست آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ایک طویل ڈرامے کی سیریل کی طرح چل رہی ہے۔ کئی ان گنت واقعات، ان گنت کہانیاں، ان گنت داستانیں کسی بھی بڑے ناموں کے ساتھ واقعات کا ہونا لازمی امر بن جاتا ہے۔ ان میں کچھ واقعات تاریخ کا حصہ بن تو کچھ واقعات دوسروں کے لئے سبق آموز بن کر دوسروں کے لئے بڑا پیغام دے جاتے ہیں۔ آج کے کالم کے ذریعے ماضی کے حوالے سے ماضی کی ایک عظیم اداکارہ کا ذکر کرنے جا رہا ہوں جس نے ایک زمانے تک ٹی وی کے ذریعے نہ صرف خود کو منوایا بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ ٹی وی کے ہر ڈرامے کی ضرورت بن گئی۔ اس وقت اس اداکارہ کی خوش قسمتی یہ رہی کہ ایک وہ دور جب وہ ڈراموں کو بہت اپنے نام کر گئی۔ دوسری طرف اس نے عروج سے موت تک زندگی کے بڑے عذاب بھی جھیلے۔ کبھی پاگل خانے کبھی کسی ایسی جگہوں جہاں نفسیاتی امراض کو پناہ دی جاتی ہے۔ میری مراد روحی بانو سے ہے جس نے زندگی کی جہاں آسانیاں دیکھیں وہاں بہت مشکلات کا سامنا کیا۔

اپنے دور کی سپر سٹار ٹی وی اداکارہ روحی بانو برصغیر کے مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کی بیٹی اور طبلہ نواز ذاکر حسین کی سوتیلی بہن بھی تھی۔ یاد رہے ذاکر حسین کا 2024ء کو بھارت میں انتقال ہوا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے نے روحی بانو کی طرح کئی فنکاروں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ وہ اپنے دور کی جتنی بڑی انسان، جتنی بڑی اداکارہ تھی اس سے کئی گناہ عذاب جھیلتی رہی۔ اس کی اور بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک کرائم واقعہ میں اس کا جوان بیٹا مار دیا گیا اور یہی نہیں دولت اور گھر کے لالچ میں روحی بانو کو اس کے اپنوں نے اسے اس کے اپنے ہی گھر سے بے گھر کردیا گیا۔ جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ نتیجتاً وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی اور اپنے آخری وقت میں وہ گلبرگ کی گلیوں میں پاگلوں کی طرح پھرتی رہی۔ آخرکار اس کی ایک بہن فرام ترکی اسے اپنے ساتھ لے گئی اور وہیں روحی بانو کا انتقال ہو گیا۔ مشہور زمانہ رائٹر منو بھائی (مرحوم) روحی بانو کو سب سے زیادہ باصلاحیت اداکارہ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے روحی کردار کو اوڑھ لیتی ہے۔ ہدایت کار جتنا بتاتا ہے، وہ اس سے زیادہ سمجھتی ہے۔ منو بھائی کے لکھے کئی ڈراموں میں روحی بانو نے یادگار کردار ادا کئے۔منو بھائی کی نظر شناسی ایک جگہ سہی میرے نزدیک روحی بانو ایک ذہین انسان ہی نہیں وہ اپنے دور کی کسی بھی بڑی فنکارہ سے کم حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اس نے زندگی کے ساتھ کیا کھیل کھیلا یا زندگی اس کے ساتھ کیا کھیل گئی۔ یہ سوال اس کی آخری گزری زندگی کے دوران بھی اٹھا تھا۔ اگر ان واقعات کی طرف جائوں گا تو یہ ایک پوری داستان بن جائے گی۔ کہیں وہ خود تو کہیں زمانے نے بھی اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ وہ تو تہذیب کی اداکارہ تھی۔ وہ تو زندگی کے اصل کرداروں کی اداکارہ تھی، وہ تو کردار کے اندر ڈوب کر مر جانے والی اداکارہ تھی، وہ تو اداکاری میں اس حد تک چلی جاتی تھی کہ کردار بھی اس کے آگے لاجواب ہو جاتے اور بہت شہرت حاصل کی گئی عزت اور بہت کچھ ہونے کے باوجود اس کی زندگی اتنی عبرتناک ماحول اور برے حالات میں گزرے گی یہ کسی نے سوچا تک نہیں تھا۔ نجانے اس کی زندگی میں اس سے کونسی خطا ہو گئی، کیا بھول ہو گئی کہ اس کو نہ صرف کئی بار پاگل خانے میں دن گزارنے پڑے اور کئی دکھوں کے ساتھ زندگی اس کو اپنوں سے بھی دور کر دی گئی۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اداکارہ تھی زندگی کے کے حوالے کے ساتھ اس کے ا کی طرح

پڑھیں:

تارا محمود نے سیاستدان کی بیٹی ہونے کا راز کیوں چھپایا؟ اداکارہ نے بتادیا

پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی باصلاحیت اداکارہ تارا محمود کے نجی زندگی سے متعلق حالیہ انکشاف نے مداحوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

تارا کے اداکاری سفر کا آغاز امریکہ میں تعلیم مکمل کرنے اور کئی سال وہاں کام کرنے کے بعد ہوا اور جب وہ پاکستان واپس آئیں تو انہوں نے اداکاری کو بحیثیت کیریئر فل ٹائم جاب اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بڑے اور کامیاب ڈراموں کا نمایاں کردار بننے لگیں۔

شائقین تارا محمود کی بے ساختہ، قدرتی اور جاندار اداکاری کے پہلے ہی سے مداح تھے، مگر انہیں اس وقت واقعی حیرت کا جھٹکا لگا جب برسوں بعد یہ انکشاف ہوا کہ وہ کسی عام گھرانے کی چشم و چراغ نہیں بلکہ پاکستان کے ایک نہایت بااثر سیاسی شخصیت کی صاحبزادی ہیں ۔

اس انکشاف نے نہ صرف ان کے مداحوں کو چونکا دیا بلکہ شوبز انڈسٹری میں بھی ہلچل مچا دی، کیونکہ تارا نے ہمیشہ اپنی پہچان صرف اور صرف اپنے فن کے ذریعے بنائی تھی، نہ کہ خاندانی پس منظر کے سہارے۔

تارا محمود کے والد شفیق و تعلیم دوست سیاستدان شفقت محمود ہیں، جو پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہیں کووِڈ کے دوران تعلیمی شعبے میں طلبہ کے حق میں کیے گئے فیصلوں بالخصوص امتحانات منسوخ کرنے، آن لائن کلاسز شروع کرنے اور نئی تعلیمی پالیسی لانے کی وجہ سے نوجوانوں میں بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔

ان کی شفاف اور سنجیدہ شخصیت کی وجہ سے انہیں سیاست کے ساتھ ساتھ تعلیم، ثقافت اور سماجی ترقی کے شعبوں میں بھی ایک وژنری شخصیت سمجھا جاتا ہے۔

 

 

جب سوشل میڈیا پر تارا اور ان کے والد کی مشترکہ تصاویر وائرل ہوئیں تو مداح یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ ایک سیاستدان کی بیٹی ہیں۔

احمد علی بٹ کے پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کے دوران تارا محمود نے بتایا کہ ان کے چند قریبی دوستوں کو ان کے والد کے بارے میں علم تھا، لیکن کراچی میں یا شوبز انڈسٹری کے کسی اور شخص کو ان کے سیاسی پس منظر کا علم نہیں تھا۔

 

 

تارا کا کہنا تھا کہ۔ یہ فیصلہ میرا اپنا تھا کیونکہ یہ میرے لیے سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی بہتر تھا۔ میں نے کبھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا شہرت کا فائدہ نہیں اٹھایا۔

 یہ انکشاف کیسے ہوا؟ تارا نے بتایا کہ جب وہ ڈرامہ چُپکے چُپکے کی شوٹنگ میں مصروف تھیں۔ ڈائریکٹر دانش نواز نے ان سے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک وزیر کی بیٹی ہیں اور سیکیورٹی کے ساتھ کیوں نہیں آتیں اور ایک عام سیلیبریٹی کی طرح نظر آرہی ہیں اس پر تارا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی پہچان صرف بطور اداکارہ ہی بنانا چاہی۔

تارا کا کہنا تھا کہ اس خبر اور والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بھونچال سا آگیا تھا جس سے میں کافی پریشان ہو گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے اپنی خاندانی اور سیاسی شناخت لوگوں میں ظاہر نہیں کی تھی۔

آج تارا محمود اپنے فن، پیشہ ورانہ رویے اور خوداعتمادی کی بدولت ڈرامہ انڈسٹری میں نمایاں مقام رکھتی ہیں اور ان کی یہ عاجزی ان کے مداحوں کے دل جیت رہی ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پروفیسر عبدالحمید جونیجو کو پرنسپل گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج بدین تعینات کردیاگیا
  • وہ مشہور اداکارہ کون ہے جسے پہلی ہی فلم سے نکال کر رانی مکھرجی کو کاسٹ کرلیا گیا
  • صبا قمر کی شادی ہونے والی ہے؟
  • ’ کیا میں ایسی عورت لگتی ہوں؟‘ تنوشری دتہ نے 1 کروڑ 65 لاکھ روپے کی بگ باس آفر فوراً  ٹھکرا دی
  • کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کی پہلی تربیت یافتہ خاتون گھڑی ساز کون ہیں؟
  • مالی تنازع پر عدالت آنے والے بھائیوں پر فائرنگ، 1 جاں بحق
  • 80 کی دہائی کی مقبول اداکارہ سلمی آغا اب کہاں ہیں؟
  • اداکارہ تارا محمود کا والد کے سیاسی پس منظر اور دھمکیاں ملنے کا انکشاف
  • تارا محمود نے سیاستدان کی بیٹی ہونے کا راز کیوں چھپایا؟ اداکارہ نے بتادیا
  • پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی روشن الدین جونیجو انتقال کرگئے