دفعہ 2 ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی، وکیل: آپ گورنر، اٹارنی رہے خاتمہ نہ کیا: جسٹس مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اکمل شہزاد/ سٹاف رپورٹر) عدالت عظمی کے آئینی بنچ میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی 9مئی کی دہشت گردی اور جلائو گھیرائو میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سات رکنی آئینی بینچ نے بدھ کے روز اپیلوں کی سماعت کی۔ دوران سماعت اعتزاز احسن ایڈووکیٹ نے سلمان اکرم راجہ کے گزشتہ روز کے دلائل پر اعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سلمان اکرم راجہ میرے بھی وکیل ہیں، انہوں نے کل جسٹس منیب اختر کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا حالانکہ میں نے انہیں ایسی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں ہم بھی نہیں دیکھتے ہیں۔ انہوںنے واضح کیا کہ سوشل میڈیا کو دیکھ کر نہ اثر لینا ہے نہ اس سے متاثر ہو کر فیصلے کرنے ہیں۔ جبکہ جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا کو بھی رپورٹنگ میں احتیاط کرنی چاہیے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ میرے خلاف بھی بہت خبریں لگتی ہیں، بہت دل کرتا ہے جواب دوں، لیکن میرا منصب اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے دلائل شروع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پوری قوم کی نظریں اس مقدمہ کے فیصلے کی جانب ہیں، اس مقدمہ کی وجہ سے سپریم کورٹ بھی انڈر ٹرائل ہے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا سویلین ملزمان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا کیونکہ فوجی ٹرائل میں جج اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا دفعہ ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔ جسٹس جمال مندو خیل نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ وفاقی وزیر، سینیٹر، رکن اسمبلی، گورنر اور اٹارنی جنرل بھی رہ چکے ہیں، آپ نے ان عہدوں پر رہتے ہوئے آج تک دفعہ ٹو ڈی کو ختم کروانے کے لئے کیا قدم اٹھایا ہے؟۔ ہماری طرف سے تو بے شک آج ہی پارلیمنٹ اس سیکشن کو ختم کردے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پارلیمنٹ میں آپ کچھ اور بات کرتے ہیں جبکہ یہاں کچھ اور ہی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتیں تو بعد میں قائم ہوئی تھیں، سقوط ڈھاکہ کی وجوہات کچھ اور تھیں؟۔ لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ سب کچھ تو آپ کے سامنے ہے، سویلین ملزمان کا فوجی عداتوں سے ٹرائل ختم کروانے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے۔ چھبیسویں ترمیم کیسے منظور ہوئی ہے، زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے تھے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں نے چھبیسویں آئینی ترمیم منظور کی ہے اور پھر اس عدالت سے کہتے ہیں کہ ہم اسے ختم کردیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا ہم نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ لطیف کھوسہ نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی رپورٹ کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا عالمی عدالت انصاف کے ممبران کے ملک میں بھی دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں؟۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہاں فوجی املاک کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟۔ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ اس رپورٹ پر پرائیویٹ ممبر بل لے آتے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کھوسہ صاحب یہ 2019 کی رپورٹ ہے، آج کل آپ کو اس پر پریشانی ہے، اس وقت تو آپ کی جماعت (پی ٹی آئی )کو کوئی پریشانی نہیں تھی، برا وقت تو بعد میں آیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ مختاراں مائی کیس میں ملک کی کتنی بدنامی کی گئی تھی، مختاراں مائی کیس ثابت نہیں ہوا ہے۔ فاضل وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مختاراں مائی کیس جھوٹا نہیں تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ نو مئی کو لاشیں چاہتے تھے؟۔ اس کے بعد عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری روسٹرم پر آگئے اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو مکمل سپورٹ کرتا ہوں۔ جسٹس امین الدین نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ آرمی ایکٹ سے ٹو ڈی اور ون ٹو کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟۔ جس پر انہوںنے جواب دیا کہ وقت بدل رہا ہے، ایف بی علی مقدمہ اب متعلقہ نہیں رہا ہے۔ وکیل نے کہا اگر عدالت سپریم کورٹ ( پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ سے متعلق کیس میں ہماری بات مان لیتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی؟۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آئینی بنچ اپیلوں کے دائرہ اختیار پر بھی اپنا فیصلہ جاری کرے گا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندو خیل نے جسٹس مسرت ہلالی نے جسٹس امین الدین لطیف کھوسہ نے نے کہا کہ کہ کیا
پڑھیں:
جسٹس منصور علی شاہ نے بطور قائم مقام چیف جسٹس پاکستان ذمہ داریاں سنبھال لیں
سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف برداری کی پُروقار تقریب لاہور میں سپریم کورٹ رجسٹری میں منعقد ہوئی، جہاں جسٹس عائشہ اے ملک نے ان سے حلف لیا۔
یہ بھی پڑھیں:ہراسگی عالمی مسئلہ ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا اہم فیصلہ
تقریب میں اعلیٰ عدلیہ کے ججز، معروف وکلاء، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، اور دیگر قانونی ماہرین نے شرکت کی۔ اس موقع پر جسٹس شاہد وحید، جسٹس عامر فاروق، جسٹس شاہد بلال اور جسٹس علی باقر نجفی بھی موجود تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی بطور قائم مقام چیف جسٹس تقرری آئین کے مطابق عمل میں لائی گئی، جب کہ باقاعدہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ غیر ملکی دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کی عدلیہ میں شفاف اور اصلاحاتی سوچ کی شہرت ہے، اور ان سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی عبوری قیادت میں عدالتی نظام کی کارکردگی اور شفافیت کو مزید بہتر بنائیں گے۔
عدلیہ سے وابستہ حلقوں نے ان کی تقرری کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے، کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ ماضی میں بھی عدالتی اصلاحات اور جدید عدالتی نظام کے حامی رہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق، ماحولیاتی انصاف، اور عدالتی شفافیت جیسے موضوعات پر گہری بصیرت رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں، اللہ مالک ہے، جسٹس منصور علی شاہ
حلف برداری کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ قانون کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی بروقت فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس منصور علی شاہ حلف سپریم کورٹ قائم مقام چیف جسٹس