اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 فروری ۔2025 )سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق اپیلوں کی سماعت ہوئی پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے 9 مئی سے متعلق قرارداد کو سیاسی قرار دیتے ہوئے دلائل میں کہاکہ فوجی عدالتیں سویلین عدالتوں کی جگہ نہیں لے سکتیں.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی دوران سماعت عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ فوج کو سویلین کی معاونت کے لیے طلب کیا جا سکتا ہے لیکن فوجی عدالتیں سویلین عدالتوں کی جگہ نہیں لے سکتیں9مئی اور 10 مئی کو جو ہوا اس وقت آرٹیکل 245 کا اطلاق ہوا فوج نے سویلین کی کسٹڈی مانگی تھی پنجاب حکومت نے آرٹیکل 245 کا نوٹیفکیشن نکالا.

جسٹس محمد علی مظہرنے استفسارکیاکہ کیا سویلین کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کابینہ کا کوئی فیصلہ تھا عزیر بھنڈاری نے موقف اپنایا کہ قومی اسمبلی کی قراردادیں اور کابینہ کا فیصلہ بھی موجود ہے اس قرارداد میں 3 قوانین کے تحت ملٹری ٹرائل کی حمایت کی گئی ہے جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین سازی کی پاور صرف پارلیمنٹ کو ہے عزیر بھنڈاری نے موقف اپنایا کہ 9 مئی سے متعلق ملٹری ٹرائل کی قرارداد سیاسی نوعیت کی ہے.

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے تو 5 ججز کے فیصلے کے خلاف بھی قرار داد پاس کی عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ججز سے متعلق تو پارلیمنٹ بہت کچھ کہتی رہتی ہے آئین میں سویلین کے کورٹ مارشل کی کوئی شق موجود نہیں 245کے علاوہ فوج کے پاس سویلین کے لیے کوئی اختیار نہیں عدالت نے کیس کی مزید سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی، آئندہ سماعت پر بھی عزیر بھنڈاری دلائل جاری رکھیں گے.

واضح رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بعض اوقات جھوٹے واقعات سے ملک کو بدنام بھی کیا جاتا ہے جس کا جتنا دل چاہتا ہے ملک کو بدنام کرتا ہے عمران خان کے وکیل کے بجائے اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے پہلے دلائل دینے کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کر لیا تھا. عدالت نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ قانونی نکات پر دلائل شروع کریں پہلے سیکشن ٹو ڈی کی قانونی حیثیت پر دلائل دیں، سیکشن ٹو ڈی کو نو اور 10 مئی کے ساتھ مکس نہ کریں پہلے ان سیکشنز کی آزادانہ حیثیت کا جائزہ پیش کریں سیکشن ٹو ڈی کا نو مئی پر اطلاق ہوتا ہے یا نہیں اس پر بعد میں بات کریں گے لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم کی نظریں اس کیس پر ہیں اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ انڈر ٹرائل ہے جسٹس امین الدین خان نے جواباًکہا کہ سپریم کورٹ انڈر ٹرائل نہیں ہے عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے.

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئین میں بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے سیکشن ٹو ڈی برقرار نہیں رکھا جا سکتا ملٹری کورٹس کی تشکیل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا ہو گا سیکشن ٹو ڈی کا قانون 1967 میں لایا گیا سیکشن ٹو ڈی کی وجہ سے پاکستان ٹوٹ گیا ملک ٹوٹ کر دوسرا حصہ بنگلہ دیش بن گیا حمودالرحمان کمیشن رپورٹ میں لکھا گیا کہ وہاں اداروں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں قانون سازی کرنے پر کوئی ممانعت ہے.

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ملٹری کورٹس کے لیے انہیں 21ویں ترمیم کرنی پڑی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا ملٹری ٹرائل میں ججز اور ٹرائل آزاد نہیں ہوتا اس لیے نو مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی بات کی گئی نو مئی کا ذکر کرنے پر جسٹس امین الدین خان نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ کھوسہ صاحب آپ پھر دوسری طرف چلے گئے ہیں لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ میں کسی جماعت کی نمائندگی نہیں کر رہا ساری عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی ہے سیکشن ٹو ڈی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ملٹری ٹرائل خفیہ کیا جاتا ہے.

لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے سامنے ہیں 26ویں ترمیم کیسے پاس ہوئی26 ترمیم کیسے پاس ہوئی زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے آپ اس کیس میں فیصلہ دیں ہم اس کے دفاع میں کھڑے ہوں گے سویلین کا فوجی ٹرائل ختم کرنے پر عوام آپ کے شیدائی ہو جائیں گے لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم مضبوط فوج چاہتے ہیں جس کے ساتھ عوام بھی کھڑی ہو چاہتے ہیں فوج ٹرائلز کے معاملے سے باہر نکلے آرٹیکل 175 کے خلاف تمام قانون سازی کالعدم ہوتی رہی ہے لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی فوج ہے پھر بھی دہشت گردی کیوں ختم نہیں ہو رہی؟فوج آئینی دائرے میں رہتے ہوئے دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کرے عدالت فوج کو ٹرائلز سے نکال کر ان کا احترام کرائے دنیا میں جہاں بھی سازش ہوئی پہلے فوج کو عوام سے دور کیا گیا سب ادارے آئین کے دائرے میں رہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا لطیف کھوسہ نے کہا کہ اخبار میں خبریں دیکھ کر شرم آئی کہ لوگوں کو چن چن کر گولیاں ماری گئیں سندھی پنجابی بلوچی اور پٹھان کی تفریق سے نکلنا ہو گا بدقسمتی سے 18ویں ترمیم سے بھی صوبائیت کو ہوا ملی.

جسٹس مسرت ہلالی نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ آپ ایم این اے ہیں یہ باتیں پارلیمنٹ میں کریں آپ 26ویں ترمیم منظور کرتے ہیں پھر ہمیں کہتے ہیں کالعدم قرار دیں جسٹس جمال مندوخیل نے بھی اس موقع پر ریمارکس دیے کہ یہ مسائل پارلیمنٹ کے حل کرنے والے ہیںکیا آپ نے آئینی ترمیم کی مخالفت میں ووٹ دیا؟ آپ کا کام مخالفت کرنا تھا اپنا کردار تو ادا کرتے خیر اس بات کو چھوڑیں یہ سیاسی بات ہو جائے گی.

بیرسٹرلطیف کھوسہ نے آئی سی جے عدالت کی رپورٹ کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عالمی عدالت انصاف کے ممبران کے ملک میں بھی دہشت گردی واقعات ہوتے ہیں؟تو لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ بالکل وہاں پر دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں. لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ پانچ ہزار ملزمان سے 103 کا انتخاب کیسے ہوا معلوم نہیں میں نے عدالت میں تحریری معروضات جمع کروائی ہیں ہم نے تو نو مئی پر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا ہے آئی جی کو پوچھنا چاہیے روکا کیوں نہیں جوڈیشل کمیشن کے لیے کیوں اتنی ہچکچاہٹ ہے عدالت نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ہم آپ کی تحریری معروضات کو پڑھ لیں گے اس کے بعد وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہو گئے تھے.

سابق وزیراعظم عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل ک آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں فوجی عدالتوں سے متعلق گذشتہ برس کے جسٹس عمر عطا بندیال کے اوریجنل فیصلے کو مکمل سپورٹ کرتا ہوں فوج ایگزیکٹو کا حصہ ہے عدالتی اختیار اس کے پاس نہیں ہے فوج آرٹیکل 245 کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جسٹس امین الدین خان جسٹس جمال مندوخیل عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے ریمارکس دیے کہ نے جواب دیا کہ لطیف کھوسہ نے ملٹری ٹرائل ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ مندوخیل نے سویلین کے دیتے ہوئے نے دلائل عدالت نے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟

اسلام ٹائمز: یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔ تحریر: روزمیری ای کلارک (کالم نگار فارن پالیسی)
 
گذشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بیٹھے سیاست دان امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری جنگ کی خطرناک تصویر پیش کرنے میں مصروف ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یا تو ایران اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرنے پر تیار ہو جائے گا یا پھر امریکہ اس پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی دھمکی آمیز رویہ جاری رکھے ہوئے ہے اور دو ٹوک انداز میں ایران کی جانب سے اس کی پیش کردہ شرائط قبول نہ کرنے کی صورت میں تباہ کن نتائج کی دھمکیاں لگا رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کے صرف دو ہی راستے ہیں: "یا مذاکرات کے ذریعے انہیں ختم کیا جائے یا فوجی طاقت کے بل بوتے پر"۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کی دھمکیاں کس حد تک حقیقت پر مبنی ہیں؟
 
سرخ لکیر یا بڑھک؛ واشنگٹن ایران کی جوہری ترقی کے پھندے میں
یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکی صدر کی جانب سے ایران کے سامنے دو راستے قرار دینے پر اصرار، حقیقت پر مبنی ہونے کی بجائے محض زبانی کلامی دھمکیوں اور نفسیاتی جنگ پر استوار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسرا راستہ بھی پایا جاتا ہے؛ ایسا راستہ جو زیادہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ موجودہ زمینی حقائق کو قبول کر لینے پر مشتمل ہے۔ واشنگٹن کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کر لے کہ ایران کا جوہری پروگرام ایک عارضی بحران نہیں بلکہ اب وہ خطے کے زمینی حقائق کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کئی سالوں سے جوہری طاقت کا امکان رکھنے والے ایران کو برداشت کرتا آیا ہے اور اس تلخ حقیقت کے انکار کا نتیجہ امریکی مفادات کو زک پہنچانے کے سوا کوئی اور نہیں نکلے گا۔ اس کے باوجود امریکی حکمران اس خام خیالی کا شکار ہیں کہ وہ ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے پہلے والی پوزیشن میں واپس پلٹا سکتے ہیں۔
 
دھمکی، ٹارگٹ کلنگ، پابندی؛ واشنگٹن کے مقابلے میں ایران کی جوہری ترقی کا راز
دراصل گذشتہ چند عشروں کے دوران ایران کے خلاف عائد کردہ پابندیوں، فوجی دھمکیوں اور خفیہ طور پر انجام پانے والی ٹارگٹ کلنگ کی کاروائیوں نے ہی ایران کو اپنے جوہری پروگرام میں وسعت اور ترقی لانے پر مجبور کیا ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی کے شعبے میں تہران کی حالیہ ترقی تین اہم مراحل میں انجام پائی ہے اور ان تینوں مراحل میں واشنگٹن یا تل ابیب کی جانب سے براہ راست دشمنی پر مبنی اقدامات انجام پائے ہیں۔ پہلا مرحلہ ایران سے جوہری معاہدے بورجام کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ اس معاہدے نے 2015ء میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو شدید حد تک محدود کر دیا تھا۔ لیکن 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہو گئے۔ یہ دستبرداری ایسی صورت میں انجام پائی جب خود ٹرمپ حکومت نے بھی جولائی 2017ء تک اس معاہدے کی مکمل پابندی کی تھی۔ ایران نے بورجام معاہدہ ختم ہو جانے کے بعد بھی ایک سال تک اس کی پابندی جاری رکھی۔
 
فیصلہ کن موڑ اس وقت رونما ہوا جب امریکہ نے مئی 2019ء میں دھمکی آمیز اقدام کے طور پر یو ایس ایس ابراہم جنگی بحری بیڑہ ایران کے پانیوں کے قریب بھیج دیا تاکہ یوں اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے بقول ایران کو واضح پیغام دے سکے۔ اسی فوجی تناو کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے بورجام معاہدے کی پابندی ختم کر دی اور چند ماہ بعد ایران کی یورینیم افزودگی 4.5 فیصد تک جا پہنچی۔ دوسرا قدم ایران نے دسمبر 2020ء میں اٹھایا۔ ایران نے اعلان کیا کہ وہ یورینیم افزودگی کی سطح 20 فیصد تک بڑھانا چاہتا ہے۔ اس اعلان کے چند دن بعد ہی ایران کے ممتاز جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اپریل 2021ء میں یورینیم افزودگی کی سطح 60 فیصد تک بڑھانے کا اعلان کر دیا۔
 
ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
مذکورہ بالا مطالب کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ "یا معاہدہ یا جنگ" کا نعرہ نہ صرف انتہائی سادہ لوحی پر مبنی ہے بکہ انتہائی شدید حد تک خطرناک بھی ہے۔ ایران کے خلاف فوجی اقدام نہ صرف ایران کی جوہری صلاحیتوں کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہے بلکہ عین ممکن ہے اس کے ایسے نتائج سامنے آئیں جو واشنگٹن کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوں، جیسے ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی۔ اگرا امریکہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار اپناتا ہے تو ایسی صورت میں اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تہران جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے زیادہ پر عزم نہ ہو جائے اور اپنی جوہری ترقی میں مزید تیزی نہ لے آئے؟
 
ممکن ہے اسرائیل کو امریکی سیاست میں یہ یوٹرن ناگوار گزرے لیکن ایسے فیصلے کے سفارتی نتائج ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کی ذات کا حصہ ہیں۔ ٹرمپ ایسا صدر ہے جو بین الاقوامی تعلقات عامہ میں اعلانیہ طور پر "پاگل شخص" والے ماڈل کا پیروکار ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ یہ ایسا طریقہ کار ہے جو غیر متوقع اقدامات پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کے بارے میں پہلے سے اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے۔ امریکہ کے لیے ضروری نہیں کہ خود کو "معاہدہ یا جنگ" جیسے دو راہے کے پھندے میں پھنسائے۔ ایران کی موجودہ جوہری صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے ایک ہی حالت میں برقرار ہے اور وہ کوئی بحرانی صورتحال نہیں ہے جس کا فوری راہ حل تلاش کرنے کی ضرورت ہو۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کا نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے والے آئی سی سی ججوں کی حمایت کا اعلان
  • کرکٹر سے ممبر پارلیمنٹ کی منگنی ہوگئی، ویڈیو وائرل
  • عظمیٰ بخاری کا سندھ حکومت کے خلاف بیان
  • ایک اور ماڈل بھارتی کرکٹر کے پیار میں 'دیوانی' ہوگئیں
  • کیا بجلی کے دو میٹر لگانے پر پابندی عائد ہوگئی ہے؟ پاور ڈویژن کا اہم بیان سامنے آگیا
  • پاور ڈویژن نے دو بجلی میٹرز پر پابندی کی خبروں کی تردید کر دی
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ: 4 سیٹر رکشوں پر پابندی
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا
  • ایران کے خلاف دھمکی آمیز رویہ بے سود کیوں؟
  • آئی سی سی ججوں پر امریکی پابندیاں نظام انصاف کے لیے نقصان دہ، وولکر ترک