Jasarat News:
2025-11-04@04:25:30 GMT

مصر میں3 ہزار5سو سال قدیم فرعون تحتمس دوم کا مقبرہ دریافت

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

مصر میں3 ہزار5سو سال قدیم فرعون تحتمس دوم کا مقبرہ دریافت

قاہرہ: مصری اور برطانوی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک مشترکہ مہم نے قدیم مصر کے فرعون تحتمس دوم کا مقبرہ دریافت کر لیا، جو تقریباً3 ہزار 5سو سال پرانا ہے، مصر کی وزارتِ سیاحت و نوادرات نے اس اہم دریافت کا اعلان کیا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق یہ مصر کے 18ویں شاہی خاندان کا آخری نامعلوم مقبرہ تھا اور 1922 میں توتنخمون کی دریافت کے بعد پہلا شاہی مقبرہ ہے جو کسی فرعون کا ہے۔

برطانوی ماہر آثارِ قدیمہ ڈاکٹر پیئرز لیتھرلینڈ کے مطابق یہ مقبرہ 2022 میں دریافت ہوا تھا اور اس میں موجود ٹوٹی ہوئی عمارتی اشیا، عالیشان سجاوٹ، اور عقیق کے مرتبانوں کے ٹکڑوں سے اس کا تعلق تحتمس دوم سے ثابت ہواتاہم حیران کن طور پر یہ مقبرہ مکمل طور پر خالی تھا۔

 ماہرین کے مطابق یہ چوری کا شکار نہیں ہوا بلکہ جان بوجھ کر خالی کیا گیا، غالباً بادشاہ کی تدفین کے چند سال بعد سیلاب کی زد میں آنے کے سبب۔

تحتمس دوم کی اصل ممی (حقیقی لاش) انیسویں صدی میں اسی علاقے میں دریافت ہوچکی تھی جو اس نئی دریافت سے کچھ فاصلے پر تھی۔

تحتمس دوم اور ملکہ حتشپسوت کون تھے؟

تحتمس دوم کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں، البتہ وہ اپنی بیوی ملکہ حتشپسوت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، جو مصر کی تاریخ کی عظیم ترین اور چند خواتین فرعونوں میں سے ایک تھیں۔

یہ دریافت اس بات کی بھی تصدیق کرتی ہے کہ تحتمس دوم کی تدفین خود ملکہ حتشپسوت نے کروائی، جو بعد میں وادی الملوک (Valley of the Kings) میں دفن ہوئیں۔

ڈاکٹر لیتھرلینڈ نے بتایا کہ ان کی ٹیم ابھی مزید کھدائی میں مصروف ہے اور تحتمس دوم کے دوسرے مقبرے کا ایک ممکنہ مقام بھی ان کے علم میں ہے،  وہ پرامید ہیں کہ اگر یہ مقبرہ محفوظ حالت میں ملا، تو اس میں بیش قیمت خزانے اور نوادرات موجود ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔

یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔

یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔

یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘

اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • پختونخوا‘ سوات سے ٹیکسلا تک مزید 8 تاریخی مقامات دریافت
  • نیڈرلینڈز نے مصر کو 3 ہزار 500 سال قدیم مجسمہ واپس کرنے کا اعلان کردیا
  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • گورنرسند ھ کامران خان ٹیسوری کا تھائی ملکہ کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی