بلانچ مونیئر نامی لڑکی کی کہانی ایسی ہے جو کسی شخص کا بھی انسانیت پر سے اعتماد ختم کر سکتی ہے۔

بلانچ کی کہانی مئی 1901 میں منظر عام پر آئی، جب پیرس کے اٹارنی جنرل کو 25 سال پرانے کیس کے بارے میں ایک عجیب و غریب خط موصول ہوا۔

اس کے مندرجات اٹارنی جنرل کے لیے اتنے پریشان کن تھے کہ انھوں نے فوراً تحقیقات کا آغاز کیا اور چونکا دینے والے نتائج پر پہنچے۔

یہ سب مونیئر خاندان اور ان کی بیٹی بلانچ مونیئر سے متعلق تھا جنا کی معاشرے میں بڑی عزت اور اعلیٰ مقام تھا۔

بلانچ مونیئر 1849 میں میڈم لوئیس مونیئر اور چارلس مونیئر کے ہاں پیدا ہوئی۔ والدہ میڈم لوئیس معاشرے میں اپنے خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں اور والد چارلس مونیئر مقامی آرٹس فیسیلیٹی کے انچارج تھے۔

بلانچ ایک سماجی کارکن، بہت نرم مزاج، اچھی طبیعت اور جسمانی طور پر خوبصورت لڑکی تھی جسے ایک بڑی عمر کے وکیل سے پیار ہو گیا تھا۔ اس کی اس حرکت نے اس کے والدین کو بہت ناراض کیا اور انہوں نے اس رشتے کو قبول نہیں کیا۔ بیٹی کو کئی بار سمجھایا لیکن وہ اپنی ضد پر ڈٹ گئی۔

معاشرے میں مونیئر خاندان کی شہرت کیوجہ سے بلانچ اکثر لوگوں کی نظروں میں رہتی تھی اور ایک دن اچانک وہ غائب ہو گئی جسے لوگوں نے فوراً محسوس کیا۔

جب لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا تو والدہ نے لوگوں کو بتایا کہ بلانچ سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے لڑکی کے بارے میں سوال کرنا چھوڑ دیا اور اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔

لیکن پھر دو دہائی سے زائد عرصے کے بعد 1901 میں مقامی اٹارنی جنرل کو ایک گمنام خط آیا جس نے بلانچ کے ٹھکانے کی خوفناک حقیقت کو ظاہر کیا۔

خط میں لکھا تھا: محترم اٹارنی جنرل: مجھے یہ اعزاز حاصل ہورہا ہے کہ میں آپ کو ایک غیر معمولی سنگین کیس سے آگاہ کررہا ہوں۔

میں ایک غیر شادی شدہ عورت کی بات کر رہا ہوں جو مونیئر خاندان کے گھر میں بند ہے جو گزشتہ پچیس سالوں سے بھوکی ہے اور اپنی ہی غلاظت و گندگی میں زندگی گزار رہی ہے۔

خط موصول ہوتے ہی جلد ہی حکام نے گھر کی تلاشی لی۔ اگرچہ گھروالوں نے اہلکاروں کو اندر آنے کی کوششوں کی مزاحمت کی لیکن وہ بالآخر ناکام رہے۔

سیکورٹی اہلکاروں نے گھر کی تلاشی شروع کی اور محسوس کیا کہ اوپر والے دروازے سے بدبو آرہی ہے جو سختی سے بند تھا۔

پولیس دروازہ توڑ کر داخل ہوئی اور جو کچھ دیکھا اس پر یقین نہیں کر سکی۔

گھپ اندھیرے میں غلاظت کے درمیان برہنہ لڑکی بستر پر رسیوں سے بند تھی۔ سورج کی روشنی نے کمزور عورت کے ارد گرد سڑی ہوئی مچھلی، گوشت، روٹی کے ٹکڑے، پاخانوں اور کیڑے مکوڑوں کو ظاہر کیا۔

کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا جب بلانچ کو کسی باہر کے لوگوں نے دیکھا تھا اور 1876 کے بعد پہلی بار اس نے سورج کی روشنی دیکھی تھی۔

سابق سماجی کارکن کے پاس اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ بیت الخلا جا سکے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہی فضلے میں گھری ہوئی تھی۔

یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ ابھی تک زندہ تھی۔ سیکورٹی نے اس کی والدہ اور بھائی مارسل کو گرفتار کرنے کے بعد بلانچ کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا جبکہ والد کا انتقال کچھ سال پہلے ہوا تھا۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بلانچ آزاد تو ہوگئی تھی لیکن بہت زیادہ نفسیاتی اور جسمانی اذیت کیوجہ سے وہ کبھی بھی نارمل زندگی نہیں گزار پائی۔

اس نے اپنی باقی زندگی بوئس کے ایک طبی ادارے میں گزاری اور 1913 میں 64 سال کی عمر میں اس کا انتقال ہو گیا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اٹارنی جنرل لوگوں نے

پڑھیں:

بلوچستان میں والدین و اساتذہ پر مشتمل اسکول انتظامی کمیٹیوں کا قیام

یونیسف اور یورپی یونین کے تعاون سے بلوچستان کے اسکول ایجوکیشن کے محکمے نے صوبے بھر میں والدین، اساتذہ اور اسکول انتظامی کمیٹیوں کے قیام کا آغاز کردیا۔

اسی سلسلے میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول مرغہ زکریازئی، تحصیل نان صاحب، ضلع پشین میں مقامی تعلیمی کونسل کے اراکین نے 3 سالہ مدت کے لیے حلف اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟

اس موقع پر والدین، قبائلی عمائدین، سرکاری نمائندگان اور محکمہ تعلیم کے افسران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں مجموعی طور پر 1,068 اسکولوں میں والدین اور اساتذہ پر مشتمل انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

ان کمیٹیوں کے 11,000 اراکین کو منصفانہ اور شفاف انتخابی عمل کے ذریعے منتخب کیا گیا ہے۔

یہ اقدام صوبے میں تعلیمی نظام کی بہتری، شفافیت، جوابدہی اور مقامی سطح پر شمولیت کو فروغ دینے کی جانب ایک تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز

یہ کمیٹیاں اسکولوں کی کارکردگی کی نگرانی، وسائل کے مؤثر استعمال، طلبا کے داخلے اور حاضری میں بہتری، اور مقامی سطح پر تعلیمی مسائل کے حل میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔

ان کمیٹیوں کے قیام سے والدین، اساتذہ اور مقامی برادری کے درمیان مؤثر شراکت داری کو فروغ ملے گا، جو معیارِ تعلیم میں بہتری کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گی۔

اس سلسلے میں ڈائریکٹر اسکولز کی جانب سے صوبے کے تمام اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔

یہ فوکل پرسن اپنے متعلقہ اضلاع میں کمیٹیوں کی تشکیل، فعال کردار اور مسائل کے بروقت حل کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے۔

مزید پڑھیں: ژوب میں اسکلز ایجوکیشن سنٹر کا افتتاح، گورنر بلوچستان کا تعلیم اور ہنرمندی کو یکجا کرنے کا عزم

حکومتِ بلوچستان کا عزم ہے کہ تعلیم کے شعبے میں مقامی کمیونٹی کو بااختیار بنا کر بہتر نظم و نسق، شفافیت اور شمولیتی طرزِ حکمرانی کے ذریعے صوبے کے تعلیمی نظام کو استحکام اور معیار کی نئی بلندیوں تک پہنچایا جائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسکول انتظامی کمیٹیوں ضلع پشین فوکل پرسن مقامی تعملیمی کونسل یورپی یونین یونیسیف

متعلقہ مضامین

  • سوڈان کی قیامت خیز جنگ سے فرار کے دوران خاندان بچھڑ گئے، بچے والدین کے سامنے قتل
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے: حافظ نعیم
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کوئٹہ میں سردیوں کی آمد، موسم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج بھی بدلنے لگے
  • 1947 میں گلگت کے لوگوں نے خود آزادی لیکر پاکستان کیساتھ الحاق کیا، صدر مملکت
  • کمرے میں صرف کتوں کے ایوارڈ ہیں، مجھے ایک بھی ایوارڈ نہیں ملا، کاشف محمود
  • کراچی گندا نہیں، لوگوں کی سوچ گندی ہے:جویریہ سعود
  • اُف نہ کہنا، غُصّے کا اظہار نہ کرنا
  • بلوچستان میں والدین و اساتذہ پر مشتمل اسکول انتظامی کمیٹیوں کا قیام
  • پاک افغان مذاکرات میں ایسی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جس سے زیادہ امیدیں وابستہ کی جائیں، خواجہ آصف