ویسے تو یہ کہنا نیا نہیں بلکہ آپ نے بار بار سنا ہوگا کہ گوگل آپ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ گوگل کی متعدد ٹریکنگ سروسز ہر وقت متحرک رہتی ہیں اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والے افراد کے بارے میں اس کمپنی کو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کہاں ہیں اور آن لائن کیا کچھ کرتے ہیں۔ اب تک صارفین کے پاس آپشن تھا کہ وہ کسی حد تک گوگل کو مختلف ڈیوائسز میں ٹریکنگ سے روک سکیں۔

مگر اب گوگل نے کنکٹڈ ڈیوائسز کے لیے نئی ٹریکنگ پالیسی کا اطلاق کیا ہے۔برطانوی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اسمارٹ فونز، کنسولز اور اسمارٹ ٹی وی وغیرہ میں اب گوگل کی جانب سے صارفین کی مکمل ٹریکنگ کی جائے گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 2019 میں گوگل نے اس طرح کی ٹریکنگ کو غلط قرار دیتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کیا تھا مگر اب دوبارہ ایسا کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گوگل کی نئی پالیسی کے تحت آن لائن افراد کو ٹریک کیا جا رہا ہے اور اس طرح صارفین کی پرائیویسی کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ صارفین کے پاس گوگل کو ٹریکنگ سے روکنے کا آپشن ہی موجود نہیں کیونکہ گوگل نے خود اور اشتہاری صنعت کو اس کی کھلی اجازت دے دی ہے۔

گوگل نے اس حوالے سے بتایا کہ پرائیویسی کو بہتر بنانے متعلق ٹیکنالوجیز سے ہمارے شراکت داروں کو ابھرتے پلیٹ فارمز میں کامیابی کے نئے راستے ملے ہیں اور صارفین کی پرائیویسی بھی متاثر نہیں ہوتی۔گوگل کی جانب سے نئی ٹریکنگ پالیسی کا اعلان سب سے پہلے دسمبر 2024 میں کیا گیا تھا جب کچھ حلقوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا تھا مگر اب زیادہ تنقید کی جا رہی ہے۔گوگل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کنکٹڈ ڈیوائسز سے کوکیز کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد اس کا بنیادی ہدف صارفین کو ٹارگٹ اشتہارات دکھانا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گوگل کی جانب سے براؤزر اور ڈیوائس سے تفصیلات اکٹھی کرکے صارف سے متعلق ایک پروفائل تیار کی جاتی ہے۔اس ڈیٹا کو مخصوص اشتہارات دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ڈیٹا سے اشتہاری کمپنیوں کو ڈیوائسز کی اسکرین کے حجم اور زبانوں کی سیٹنگز جیسے عناصر کو مدنظر رکھ کر اشتہارات دکھانے کا موقع ملتا ہے۔اسی طرح دیگر تفصیلات جیسے بیٹری لیول، ٹائم زون، براؤزر ٹائپ اور دیگر ڈیٹا کو اکٹھا کر دیا جاتا ہے جس سے گوگل کو معلوم ہوتا ہے کہ صارف کونسی ویب سروسز کو استعمال کر رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: گوگل کی جانب سے گوگل نے رہا ہے کیا جا

پڑھیں:

بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟.الیکشن کمیشن

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )الیکشن کمیشن کے ممبر خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کیسے بن گئے؟ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں، نہ ہی انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر کمیشن جماعت کو ریگولیٹ کر سکتا ہے.

(جاری ہے)

تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں بینچ نے کی پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی کیس میں الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا ہے جس پرچیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا. دوران سماعت الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لا نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوتی ہے، پی ٹی آئی 2021 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند تھی، پی ٹی آئی نے نیشنل کونسل کی عدم موجودگی میں جنرل باڈی سے آئین منظور کروایا، کیا پارٹی آئین میں جنرل باڈی ہے؟انہوں نے کہا کہ انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں فنانشل اکاﺅنٹ کسی تصدیق کے بغیر ہیں.

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کے فنڈز منجمد کیے جائیں، انتظامی ڈھانچے کے بغیر انتخابات کیسے ہوئے؟ سلمان اکرم راجہ کو سیکریٹری جنرل بنانا غیر آئینی ہے الیکشن کمیشن کے ممبر کے پی جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس کہا کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات پارٹی ویب سائٹ پر موجود ہیں.

ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن تو کروائے تاہم خلاف قانون ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر 23 نومبر کو الیکشن کرائے گئے لیکن کمیشن نے الیکشن تسلیم ہی نہیں کیا آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے؟. وکیل نے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے جائیں تو کیا پارٹی ختم ہو جاتی ہے؟ اگر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو پھر چلے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر سیاسی جماعت ریگولیٹ کرنے اور پارٹی معاملات میں مداخلت کا اختیار ہی نہیں الیکشن کمیشن نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت ملتوی کر دی.

متعلقہ مضامین

  • ’حنا میں چاہتا ہوں آپ اچھی طرح سے میری طرف دیکھیں‘، ملک احمد خان کے مکالمے نے انٹرنیٹ پر بحث چھیڑ دی
  • مودی جی ڈرامہ بند کرو، اگر آپ انصاف نہیں دے سکتے تو کیاپاکستان سے مدد لیں؟ بھارتی فوجی کی دھائی
  • نیٹ ورک مسائل سے کاروبار کے تسلسل اور صارفین کے اعتماد کو خطرہ: کاسپرسکی
  • افغان باشندے دوبارہ پاکستان آنا چاہیں تو ویزا لے کر آ سکتے ہیں: طلال چوہدری
  • بھارت کا پاکستان پر الزام لگانا مناسب نہیں، کہیں بھی دہشتگردی ہو مذمت کرتے ہیں، خواجہ آصف
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ نہروں کے مسئلے پر ڈرامے کررہی ہیں: فیصل جاوید
  • پہلگام واقعے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں، دہشتگردی کو کہیں بھی سپورٹ نہیں کرتے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے  پالیسی طلب کر لی
  • بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟.الیکشن کمیشن