UrduPoint:
2025-09-18@13:09:30 GMT

جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) یہ ایک مختصر لیکن سخت انتخابی مہم تھی، جس میں اکثر ایک لفظ سامنے آتا رہا، سمت کی تبدیلی۔ انتخابات سے دو ہفتے قبل قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو/ سی ایس یو کی طرف سے چانسلر کے امیدوار فریڈرش میرس نے کہا، ''آپ نے جرمنی میں تین برس تک بائیں بازو کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ اب اسے جاری نہیں رکھ سکتے۔

‘‘

میرس جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں، ایس پی ڈی اور گرین پارٹی سے مخاطب تھے، جنہوں نے 2021 سے ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت کی۔ نومبر 2024 میں دو بائیں بازو اور ایک معاشی طور پر لبرل پارٹی کا اتحاد بجٹ میں پیسے کی کمی کے معاملے پر مہینوں کے تنازعے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ اس لیے 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ایس پی ڈی کے گرنے کا خطرہ

اگرچہ گرین پارٹی کو موجودہ انتخابات میں 2021 کی طرح ہی لوگوں کی حمایت حاصل ہے ، لیکن ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کی حمایت میں کمی ہوئی ہے۔

ایف ڈی پی، پارلیمان میں پہنچنے کے لیے لازمی پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو سکتی ہے، جبکہ ایس پی ڈی کو سخت شکست کا خطرہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تاریخ میں ایس پی ڈی کے لیے بنڈس ٹاگ کے انتخابات میں 20 فیصد سے کم کا نتیجہ بدترین ہو گا اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایس پی ڈی اس قدر سے کوسوں دور ہے۔

چانسلر اولاف شولس گزشتہ 50 سالوں میں سب سے کم مدت کے ساتھ حکومت کے سربراہ ہوں گے اور ایس پی ڈی کے واحد چانسلر ہوں گے جو دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے۔

یونین سب سے آگے، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق فریڈرش میرس کے چانسلر بننے کے بہترین امکانات ہیں۔ سی ڈی یو کے چیئرمین سی ڈی یو اور سی ایس یو اتحاد کی قیادت کرتے ہیں، جو 16 سال حکومت میں رہنے کے بعد 2021 میں بنڈس ٹاگ میں سب سے مضبوط اپوزیشن قوت بن گئی۔ انتخابات میں دوسرے نمبر پر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی ہے جسے 20 فیصد تک ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔

یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں دو گنا ہو گی۔

ایس پی ڈی کا ڈرامائی زوال اور اے ایف ڈی کا عروج، یہ کیسے ہوا؟ یونین چانسلر کے امیدوار میرس معیشت کے کریش کا حوالہ دیتے ہیں: ''ہمارے ملک، وفاقی جمہوریہ جرمنی کی معیشت اب یورپی یونین میں سب سے نیچے ہے۔‘‘
50,000 کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں، اور ہر سال تقریبا 100 بلین یورو کا کارپوریٹ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''ہماری معیشت سکڑ رہی ہے، مسلسل تیسرے سال ہم کساد بازاری کا شکار ہیں۔ جرمنی میں جنگ کے بعد کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘‘

میرس نے کہا کہ شولس اور ان کے وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک، جو گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں، ''اب حقیقت کو بالکل نہیں سمجھیں گے۔‘‘
فریڈرش میرس کا مزید کہنا تھا، ''کیا آپ جانتے ہیں آپ مجھے کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ دو ایسے تنخواہ دار منیجنگ ڈائریکٹرز، جنہوں نے کمپنی کو دیوار سے لگا دیا ہو اور پھر مالکان کے پاس جا کر کہتے ہوں کہ ہم مزید چار سال تک اسی طرح کام جاری رکھنا چاہیں گے۔

‘‘ جنگ، توانائی کا بحران اور افراط زر

اگرچہ میرس نے انتخابی مہم میں ایک حریف کے طور پر ان پر سخت سے سخت حملہ کیے، تاہم چانسلر شولس ظاہری طور پر،حالیہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جرات مند، خود اعتماد اور لڑاکا دکھائی دیتے تھے، تاہم وہ اکثر اپنی پالیسیوں کا دفاع اور جواز ہی پیش کرتے رہے۔

یہ ان کی حکومت نہیں بلکہ یوکرین پر روس کا حملہ تھا جس کی وجہ سے توانائی کا بحران اور افراط زر پیدا ہوا۔

شولس کے بقول، ''آج تک، معیشت اس کے نتائج سے نبرد آزما ہے۔‘‘ آنے والے برسوں میں امریکہ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 'پریشان کن‘ مطالبات کے حوالے سے صورتحال آسان نہیں ہوگی: ''ہوا سامنے کی طرف سے چل رہی ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں اس صورتحال بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔‘‘ مائیگریشن، سب سے بڑا معاملہ

انتخابی مہم کے دوران کمزور معیشت ایک بہت زیادہ زیر بحث موضوع رہا۔

تاہم شافن برگ میں ایک ایسے افغان پناہ گزین کی طرف سے مہلک چاقو کے مہلک حملے کے بعد مہاجرت کا موضوع غالب رہا، جس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی۔ خاص طور پر جب فریڈرش میرس نے اس حملے کے فوراﹰ بعد اعلان کیا تھا کہ وہ بنڈس ٹاگ میں انتخابات سے قبل پناہ کی پالیسی کو سخت کرنا چاہتے ہیں، اور اگر ضروری ہو تو اے ایف ڈی کے ووٹوں سے بھی۔

جنوری کے آخر میں یونین کی طرف سے پیش کی گئی پہلی تجویز کو پارلیمان میں اکثریت ملی تو اے ایف ڈی کے پارلیمانی سربراہ برنڈ باؤمان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے: ''اب کچھ نیا شروع ہو رہا ہے، اور ہم اے ایف ڈی کی قوت اس کی قیادت کر رہے ہیں۔‘‘ ان کی پارٹی سی ڈی یو/ سی ایس یو کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کوئی تعاون نہیں

جرمنی میں سی ڈی یو کی طرف سے اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر بنڈس ٹاگ میں قانون سازی کی کوشش کے بعد ملک بھر میں لاکھوں شہریوں نے مظاہرے کیے اور چانسلر شولس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ غیر اہم نہیں ہے کہ آپ انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کام کرتے ہیں یا نہیں۔ جرمنی میں نہیں!‘‘ شہریوں کو اس بات پر یقین نہیں کہ یونین اتحاد بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔

اس کے بعد آنے والے دنوں اور ہفتوں میں میرس نے اے ایف ڈی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا مقصد سی ڈی یو اور سی ایس یو کو تباہ کرنا ہے اور یونین کسی بھی صورت میں اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔

کون کس کے ساتھ اتحاد بنا سکتا ہے؟

لیکن یونین اکیلے حکومت کرنے کے قابل نہیں ہو گی، اسے بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد کم از کم ایک اتحادی شراکت دار کی ضرورت ہو گی۔

جتنی زیادہ پارٹیاں بنڈس ٹاگ میں داخل ہوں گی، اکثریت بنانا اور اس طرح حکومت بنانا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔

اگر ایف ڈی پی کامیابی حاصل کر لیتی ہےاسے حکومت سازی کے لیے ممکنہ طور پر تین جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پڑے گی۔ چونکہ ایف ڈی پی نے پارٹی کانگریس کی قرارداد کے ذریعے گرین پارٹی کے ساتھ نئے سرے سے اتحاد کو مسترد کر دیا ہے، لہٰذا صرف سی ڈی یو / سی ایس یو ، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے اتحاد کا امکان باقی رہے گا۔

اگر بنڈس ٹاگ میں کم پارٹیاں ہیں تو یہ ممکنہ طور پر یونین اور ایس پی ڈی یا یونین اور گرینز ہو سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی الگ تھلگ ہے

اے ایف ڈی کی طرف سے چانسلر امیدوار ایلیس وائیڈل کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اتحاد سے صرف گزشتہ پالیسی کو ہی جاری رکھنا ہی ممکن ہو گا۔ ان کے بقول اے ایف ڈی اسے نہیں روکے گی تاہم سیاسی ''تبدیلی‘‘ آئے گی مگر صرف ''غیر ضروری تاخیر‘‘ ہو گی۔

اے ایف ڈی کے ساتھ ووٹنگ کے معاملے کے بعد، یونین کے مقابلے میں ایس پی ڈی اور گرین کے مابین تعلقات زیادہ بہترین نہیں ہیں۔ آخر میں اتحاد یقینی طور پر اس بات پر منحصر ہو گا کہ متعلقہ جماعتیں اپنے کتنے سیاسی نظریات کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔

انتخابی مہم میں موسمیاتی پالیسی شاید ہی کوئی مسئلہ ہو

ایس پی ڈی سماجی پالیسی کو اولیت دے گی، گرین پارٹی آب و ہوا کے تحفظ کو۔

گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے امیدوار رابرٹ ہاییک نے خبردار کیا، ''اگر جرمنی 23 فروری کو ایک ایسی حکومت منتخب کرتا ہے جو یہ اعلان کرے کہ وہ آب و ہوا کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ یورپ اپنے ماحولیاتی تحفظ کے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے بعد عالمی آب و ہوا کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔

کوئی چانسلر، کوئی ماحولیاتی تحفظ کا وزیر یا کوئی کمشنر، بھارت، انڈونیشیا یا چین جا کر یہ نہیں کہہ سکے گا کہ دوستو، کوئلہ کم جلائیں اور زیادہ قابل تجدید توانائی استمعال کریں۔‘‘

فریڈرش میرس جانتے ہیں کہ مذاکرات آسان نہیں ہو سکتے۔ تاہم، بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے بعد، جرمنی کے مسائل کو حل کرنا ایک ''سیاسی ذمہ داری‘‘ ہے۔

میرس کے بقول یہ اے ایف ڈی کی افزائش گاہ کو ختم کرنے کے ''آخری مواقع میں سے ایک‘‘ ہے۔ میرس کے مطابق، ''اگر یہ کامیاب نہیں ہوتی، تو ہمیں صرف 20 فیصد دائیں بازو کی عوامیت پسندی کا سامنا نہیں ہو گا۔‘‘

میرس کے بقول، ''پھر ایک دن دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کے پاس بنڈس ٹاگ میں نہ صرف ایک بلاکنگ اقلیت ہو گی جو آئینی تبدیلیوں کی اجازت نہیں دیتی، اس کے بعد وہ اکثریت کے قریب آسکتے ہیں۔‘‘

اگلے متوقع چانسلر فریڈرش میرس اسے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی ایک ذمہ داری قرار دیتے ہیں: ''یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے آپ بچ نہیں سکتے اور ہم اسے نبھائیں گے۔‘‘

زابینے کنکارٹس (ا ب ا/ا ا)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی طرف سے چانسلر دائیں بازو کے کے ساتھ اتحاد ایس پی ڈی اور بنڈس ٹاگ میں فریڈرش میرس گرین پارٹی چانسلر کے سی ایس یو ایف ڈی پی سی ڈی یو کے بقول نہیں ہو میرس کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • یہودی تنظیم کا جرمن چانسلر پر اسرائیل کی حمایت کے لیے زور
  • مالدیپ کے سپیکر کی سربراہی میں وفد کی ایاز صادق سے ملاقات
  • یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
  • پاکستان اور مالدیپ کے اسپیکرز کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک حسین پاکستانی ورک فورس کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے دنیا بھر کے ایمپلائرز کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • اسحاق ڈار کو جرمن وزیرخارجہ کا فون، علاقائی و عالمی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • دولت مشترکہ کا پاکستان میں 2024کے عام انتخابات پر حتمی رپورٹ سے متعلق بیان
  • پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں،جرمن سفارتخانے کا متاثرین کیلئے امداد کا اعلان
  • مالدیپ کا پارلیمانی وفد اسپیکر عوامی مجلس کی قیادت میں پاکستان پہنچے گا