UrduPoint:
2025-11-04@06:13:13 GMT

جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

جرمن وفاقی پارلیمانی انتخابات، کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 فروری 2025ء) یہ ایک مختصر لیکن سخت انتخابی مہم تھی، جس میں اکثر ایک لفظ سامنے آتا رہا، سمت کی تبدیلی۔ انتخابات سے دو ہفتے قبل قدامت پسند جماعتوں سی ڈی یو/ سی ایس یو کی طرف سے چانسلر کے امیدوار فریڈرش میرس نے کہا، ''آپ نے جرمنی میں تین برس تک بائیں بازو کی سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ اب اسے جاری نہیں رکھ سکتے۔

‘‘

میرس جرمن پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں، ایس پی ڈی اور گرین پارٹی سے مخاطب تھے، جنہوں نے 2021 سے ایف ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت کی۔ نومبر 2024 میں دو بائیں بازو اور ایک معاشی طور پر لبرل پارٹی کا اتحاد بجٹ میں پیسے کی کمی کے معاملے پر مہینوں کے تنازعے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ اس لیے 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

ایس پی ڈی کے گرنے کا خطرہ

اگرچہ گرین پارٹی کو موجودہ انتخابات میں 2021 کی طرح ہی لوگوں کی حمایت حاصل ہے ، لیکن ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کی حمایت میں کمی ہوئی ہے۔

ایف ڈی پی، پارلیمان میں پہنچنے کے لیے لازمی پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں بھی ناکام ہو سکتی ہے، جبکہ ایس پی ڈی کو سخت شکست کا خطرہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کی تاریخ میں ایس پی ڈی کے لیے بنڈس ٹاگ کے انتخابات میں 20 فیصد سے کم کا نتیجہ بدترین ہو گا اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ایس پی ڈی اس قدر سے کوسوں دور ہے۔

چانسلر اولاف شولس گزشتہ 50 سالوں میں سب سے کم مدت کے ساتھ حکومت کے سربراہ ہوں گے اور ایس پی ڈی کے واحد چانسلر ہوں گے جو دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے۔

یونین سب سے آگے، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق فریڈرش میرس کے چانسلر بننے کے بہترین امکانات ہیں۔ سی ڈی یو کے چیئرمین سی ڈی یو اور سی ایس یو اتحاد کی قیادت کرتے ہیں، جو 16 سال حکومت میں رہنے کے بعد 2021 میں بنڈس ٹاگ میں سب سے مضبوط اپوزیشن قوت بن گئی۔ انتخابات میں دوسرے نمبر پر دائیں بازو کی انتہا پسند جماعت اے ایف ڈی ہے جسے 20 فیصد تک ووٹ ملنے کے امکانات ہیں۔

یہ تعداد 2021 کے مقابلے میں دو گنا ہو گی۔

ایس پی ڈی کا ڈرامائی زوال اور اے ایف ڈی کا عروج، یہ کیسے ہوا؟ یونین چانسلر کے امیدوار میرس معیشت کے کریش کا حوالہ دیتے ہیں: ''ہمارے ملک، وفاقی جمہوریہ جرمنی کی معیشت اب یورپی یونین میں سب سے نیچے ہے۔‘‘
50,000 کمپنیاں دیوالیہ ہو چکی ہیں، اور ہر سال تقریبا 100 بلین یورو کا کارپوریٹ سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''ہماری معیشت سکڑ رہی ہے، مسلسل تیسرے سال ہم کساد بازاری کا شکار ہیں۔ جرمنی میں جنگ کے بعد کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔‘‘

میرس نے کہا کہ شولس اور ان کے وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک، جو گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہیں، ''اب حقیقت کو بالکل نہیں سمجھیں گے۔‘‘
فریڈرش میرس کا مزید کہنا تھا، ''کیا آپ جانتے ہیں آپ مجھے کیسے دکھائی دیتے ہیں؟ دو ایسے تنخواہ دار منیجنگ ڈائریکٹرز، جنہوں نے کمپنی کو دیوار سے لگا دیا ہو اور پھر مالکان کے پاس جا کر کہتے ہوں کہ ہم مزید چار سال تک اسی طرح کام جاری رکھنا چاہیں گے۔

‘‘ جنگ، توانائی کا بحران اور افراط زر

اگرچہ میرس نے انتخابی مہم میں ایک حریف کے طور پر ان پر سخت سے سخت حملہ کیے، تاہم چانسلر شولس ظاہری طور پر،حالیہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جرات مند، خود اعتماد اور لڑاکا دکھائی دیتے تھے، تاہم وہ اکثر اپنی پالیسیوں کا دفاع اور جواز ہی پیش کرتے رہے۔

یہ ان کی حکومت نہیں بلکہ یوکرین پر روس کا حملہ تھا جس کی وجہ سے توانائی کا بحران اور افراط زر پیدا ہوا۔

شولس کے بقول، ''آج تک، معیشت اس کے نتائج سے نبرد آزما ہے۔‘‘ آنے والے برسوں میں امریکہ اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 'پریشان کن‘ مطالبات کے حوالے سے صورتحال آسان نہیں ہوگی: ''ہوا سامنے کی طرف سے چل رہی ہے۔ اور سچ یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں اس صورتحال بڑی تبدیلی نہیں ہو گی۔‘‘ مائیگریشن، سب سے بڑا معاملہ

انتخابی مہم کے دوران کمزور معیشت ایک بہت زیادہ زیر بحث موضوع رہا۔

تاہم شافن برگ میں ایک ایسے افغان پناہ گزین کی طرف سے مہلک چاقو کے مہلک حملے کے بعد مہاجرت کا موضوع غالب رہا، جس کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی۔ خاص طور پر جب فریڈرش میرس نے اس حملے کے فوراﹰ بعد اعلان کیا تھا کہ وہ بنڈس ٹاگ میں انتخابات سے قبل پناہ کی پالیسی کو سخت کرنا چاہتے ہیں، اور اگر ضروری ہو تو اے ایف ڈی کے ووٹوں سے بھی۔

جنوری کے آخر میں یونین کی طرف سے پیش کی گئی پہلی تجویز کو پارلیمان میں اکثریت ملی تو اے ایف ڈی کے پارلیمانی سربراہ برنڈ باؤمان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے: ''اب کچھ نیا شروع ہو رہا ہے، اور ہم اے ایف ڈی کی قوت اس کی قیادت کر رہے ہیں۔‘‘ ان کی پارٹی سی ڈی یو/ سی ایس یو کے ساتھ اتحاد کے لیے تیار ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کوئی تعاون نہیں

جرمنی میں سی ڈی یو کی طرف سے اے ایف ڈی کے ساتھ مل کر بنڈس ٹاگ میں قانون سازی کی کوشش کے بعد ملک بھر میں لاکھوں شہریوں نے مظاہرے کیے اور چانسلر شولس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ غیر اہم نہیں ہے کہ آپ انتہائی دائیں بازو کے ساتھ کام کرتے ہیں یا نہیں۔ جرمنی میں نہیں!‘‘ شہریوں کو اس بات پر یقین نہیں کہ یونین اتحاد بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔

اس کے بعد آنے والے دنوں اور ہفتوں میں میرس نے اے ایف ڈی کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور کہا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا مقصد سی ڈی یو اور سی ایس یو کو تباہ کرنا ہے اور یونین کسی بھی صورت میں اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد نہیں کرے گی۔

کون کس کے ساتھ اتحاد بنا سکتا ہے؟

لیکن یونین اکیلے حکومت کرنے کے قابل نہیں ہو گی، اسے بنڈس ٹاگ انتخابات کے بعد کم از کم ایک اتحادی شراکت دار کی ضرورت ہو گی۔

جتنی زیادہ پارٹیاں بنڈس ٹاگ میں داخل ہوں گی، اکثریت بنانا اور اس طرح حکومت بنانا اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔

اگر ایف ڈی پی کامیابی حاصل کر لیتی ہےاسے حکومت سازی کے لیے ممکنہ طور پر تین جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی ضرورت پڑے گی۔ چونکہ ایف ڈی پی نے پارٹی کانگریس کی قرارداد کے ذریعے گرین پارٹی کے ساتھ نئے سرے سے اتحاد کو مسترد کر دیا ہے، لہٰذا صرف سی ڈی یو / سی ایس یو ، ایس پی ڈی اور ایف ڈی پی کے اتحاد کا امکان باقی رہے گا۔

اگر بنڈس ٹاگ میں کم پارٹیاں ہیں تو یہ ممکنہ طور پر یونین اور ایس پی ڈی یا یونین اور گرینز ہو سکتی ہیں۔ اے ایف ڈی الگ تھلگ ہے

اے ایف ڈی کی طرف سے چانسلر امیدوار ایلیس وائیڈل کا کہنا ہے کہ اس طرح کا اتحاد سے صرف گزشتہ پالیسی کو ہی جاری رکھنا ہی ممکن ہو گا۔ ان کے بقول اے ایف ڈی اسے نہیں روکے گی تاہم سیاسی ''تبدیلی‘‘ آئے گی مگر صرف ''غیر ضروری تاخیر‘‘ ہو گی۔

اے ایف ڈی کے ساتھ ووٹنگ کے معاملے کے بعد، یونین کے مقابلے میں ایس پی ڈی اور گرین کے مابین تعلقات زیادہ بہترین نہیں ہیں۔ آخر میں اتحاد یقینی طور پر اس بات پر منحصر ہو گا کہ متعلقہ جماعتیں اپنے کتنے سیاسی نظریات کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔

انتخابی مہم میں موسمیاتی پالیسی شاید ہی کوئی مسئلہ ہو

ایس پی ڈی سماجی پالیسی کو اولیت دے گی، گرین پارٹی آب و ہوا کے تحفظ کو۔

گرین پارٹی کی طرف سے چانسلر کے امیدوار رابرٹ ہاییک نے خبردار کیا، ''اگر جرمنی 23 فروری کو ایک ایسی حکومت منتخب کرتا ہے جو یہ اعلان کرے کہ وہ آب و ہوا کے تحفظ کے حوالے سے اپنے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہتی تو اس کا مطلب ہے کہ یورپ اپنے ماحولیاتی تحفظ کے اہداف کو پورا نہیں کرنا چاہے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کے بعد عالمی آب و ہوا کا تحفظ ختم ہو جائے گا۔

کوئی چانسلر، کوئی ماحولیاتی تحفظ کا وزیر یا کوئی کمشنر، بھارت، انڈونیشیا یا چین جا کر یہ نہیں کہہ سکے گا کہ دوستو، کوئلہ کم جلائیں اور زیادہ قابل تجدید توانائی استمعال کریں۔‘‘

فریڈرش میرس جانتے ہیں کہ مذاکرات آسان نہیں ہو سکتے۔ تاہم، بنڈس ٹاگ کے انتخابات کے بعد، جرمنی کے مسائل کو حل کرنا ایک ''سیاسی ذمہ داری‘‘ ہے۔

میرس کے بقول یہ اے ایف ڈی کی افزائش گاہ کو ختم کرنے کے ''آخری مواقع میں سے ایک‘‘ ہے۔ میرس کے مطابق، ''اگر یہ کامیاب نہیں ہوتی، تو ہمیں صرف 20 فیصد دائیں بازو کی عوامیت پسندی کا سامنا نہیں ہو گا۔‘‘

میرس کے بقول، ''پھر ایک دن دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کے پاس بنڈس ٹاگ میں نہ صرف ایک بلاکنگ اقلیت ہو گی جو آئینی تبدیلیوں کی اجازت نہیں دیتی، اس کے بعد وہ اکثریت کے قریب آسکتے ہیں۔‘‘

اگلے متوقع چانسلر فریڈرش میرس اسے ایس پی ڈی، گرینز اور ایف ڈی پی کی ایک ذمہ داری قرار دیتے ہیں: ''یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جس سے آپ بچ نہیں سکتے اور ہم اسے نبھائیں گے۔‘‘

زابینے کنکارٹس (ا ب ا/ا ا)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی طرف سے چانسلر دائیں بازو کے کے ساتھ اتحاد ایس پی ڈی اور بنڈس ٹاگ میں فریڈرش میرس گرین پارٹی چانسلر کے سی ایس یو ایف ڈی پی سی ڈی یو کے بقول نہیں ہو میرس کے کے بعد کے لیے

پڑھیں:

موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں

تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
مہمان تجزیہ نگار: علامہ ڈاکٹر میثم  رضا ہمدانی
میزبان: سید انجم رضا
پیش کش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
خلاصہ گفتگو و اہم نکات
عراق اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ دنیا بھر کےمسلمانوں کے لئے اپنے مقامامات مقدسہ کی وجہ سے عقیدت کا مظہر ہے
عراق خاص طور پہ مکتب اہل بیت تشیع کے لئے بہت محترم سرزمین ہے
داعش کے فتنہ کی سرکوبی میں بھی عراقی عوام نے بہت جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا
عراق کی اہمیت زمانہ میں حال میں مقاومت حوالے سے بھی  نمایاں ہے
مقاومت کوئی علیحدہ سے چیز نہیں بلکہ خطے میں امریکی آلہ کاروں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت بھی ہے
گزشتہ دو برس میں طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد خطے میں سیکورٹی صورت حال بہت اہم ہوچکی ہے
اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے عراقی عوام نے ہمیشہ اس کی مذمت کی
طوفان الاقصیٰ کے حوالے عراقی عوام اور حکومت نے غزہ کے فلسطینی عوام کی حمایت کو مقدم جانا
صیہونی حکومت کے اپنی جارحیت کو جمہوری سلامی ایران پہ مسلط کرنے کے دوران بھی عراقی کردار بہت مثبت رہا
موجودہ حالات میں عراق میں نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی اہمیت  بڑھ جاتی ہے
استعماری قوتیں ان  انتخابات میں بیرونی اور اندرونی طور پہ اثر انداز ہونے کی مذموم کوششوں میں ہیں
ایک اہم فیکٹر غزہ میں جنگ بندی کی شرائط میں ح م ا س اور ح زب کو غیر مسلح کرنا ہے
عراق میں ح ش د ال ش ع  ب ی کو بھی غیر مسلح کرنے کا منصوبہ بھی اسی پلان کا حصہ تھا
مگر عراقی پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے ان گروہوں کو اپنی فوج کا حصہ بنالیا
امریکہ آج بھی عراق کے بہت سے علاقوں میں موجود ہے، اور بہت سے سیکورٹی زونز  پہ امریکہ قابض ہے
صدام ملعون جیسے آلہ کارکے سقوط کے بعدبھی  امریکہ خود کو عراق پہ مسلط  رکھنا چاہتا ہے
حاج سردار کو عراقی کمانڈر کے ہمراہ بغداد کے سویلین ایرپورٹ پہ حملہ کرکے شہید کردیا جانا امریکی مداخلت کا واضح ثبوت ہے
اتنی مداخلت کے باوجود عراقی قوم کو جب بھی ذرا سی مہلت ملتی ہے وہ امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں
عراقی قوم ابھی تک کسی استعماری طاقت خصوصا امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے
ٖٹرمپ نے مارک ساوایا کو سازشی منصوبوں کے لئے عراق میں اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے
عراقی، عیسائی تاجر کو ایلچی بنانے کا مقصد عراق کے سیاسی کھیل کو امریکہ کے حق میں موڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا
ساوایا کو ایلچی بنانے سے عراق کی سیاست میں امریکی مداخلت کے نئے دور سے پردہ ہٹنا شروع بھی ہوگیا ہے
مارک ساوایا  بھنگ کا تاجر ہے، اس کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا ہے، سفارتی لحاظ سے کسی بھی قسم کی صلاحیت پائی نہیں جاتی
 
لگتا یہ ہے کہ کہ مارک ساوایا عراق کے حالات کو اسی طرح بگاڑیں گا جس طرح سے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں خلفشار پیدا کیا تھا یا پھر جس طرح سے لبنان میں ٹرمپ کے ایلچی ٹام باراک نے بیروت میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔
عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات محض داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ اس میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
 موجودہ انتخابات میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں الیکشن فہرستوں اور اتحادوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ابھی تک کی صورت حال کے مطابق مقتدا صدر، جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے سے پرہیز کیا ہے۔
مرجع عالی قدر آیت اللہ سیستانی نے عوام کو الیکشن  میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید کی ہے۔
عراق ایک تشیع کا اکثریتی ملک ہے،  عراق میں فساد کے لئے منحرفین کا حربہ بہت استعمال کیا جانے کا خدشہ ہے'
عراقی قوم کا سماجی بیانیہ رواداری اور اتحاد بین المسلمین  کا ہے، قبائل مسلکی اختلافات پہ زیادہ حساس نہیں ہوتے
الیکشن کے نتائج سے توقع ہے کی ایک ایسی حکومت بنے گی جو عراق کی سالمیت پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی
 

متعلقہ مضامین

  • بھارت ابھی تک پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے‘وفاقی وزیر اطلاعات و نشر یات
  • سینیٹ کا اجلاس آج، قومی اسمبلی کا اجلاس کل طلب کرلیا گیا
  • وفاقی وزیرِ ریلوے سے ریکٹر نمل یونیورسٹی کی ملاقات، مارگلہ اسٹیشن کے ترقیاتی مواقع اور ریلوے کی جدید کاری و ڈیجیٹلائزیشن پر تبادلہ خیال
  • بنگلادیش کے چیف ایڈوائزر سے ترکیہ کے پارلیمانی وفد کی ملاقات، باہمی تعلقات مزید مستحکم کرنے پر اتفاق
  • سینیٹ اجلاس کل منگل، قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کرنے کا فیصلہ
  • قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ 5نومبر کو طلب کرنے کا فیصلہ،سمری وزیراعظم کو ارسال
  • موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کیلئے پُرعزم ہے: شہباز شریف
  • پاکستان اور جرمنی جمہوریت، برداشت اور پارلیمانی طرزِ حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مریم نواز
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا