پاکستان کی پلیئنگ الیون کا اعلان ٹاس سے قبل کریں گے، عاقب جاوید
اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT
دبئی :پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈکوچ عاقب جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان کی پلیئنگ الیون کا اعلان ٹاس سے قبل کریں گے۔
دبئی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم متوازن ہے، ہماری ٹیم میں زیادہ تبدیلیاں نظر نہیں آئیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پریشر ہوتا کیا ہے؟ اچھا کرو اور اگر اچھا نہ ہوا تو کیا ہوگا، تو یہ ساری چیزیں میچ سے پہلے اور میچ کے بعد کی ہیں، ابھی تو سب قیاس آرائیاں ہی کر رہے ہیں کہ اس میچ میں کیا ہوگا، یہی خوبصورتی ہے کہ کیا ہوگا۔
عاقب جاوید نے کہا کہ کسی کو کچھ پتا نہیں ہے، پلیئرز کا کام ہی پریشر لینا ہے، اگر پریشر ہٹادیں تو پاک-بھارت میچ میں کیا رہ جاتا ہے، پریشر ہی تو چاہیے ہوتا ہے کسی پلیئر کو اپنی پرفارمنس دکھانے کے لیے۔
دبئی میں بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے میچ میں پچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تھوڑی ٹرن بھی ہو رہی تھی، نئی بال سیم بھی ہوئی اور وکٹ بیٹنگ کے لیے بھی سازگار تھی، میرا خیال ہے کہ پچ متوازن اور سپورٹنگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فخر زمان میچ ونر ہے، لیکن آپ کسی ایک کھلاڑی پر انحصار نہیں کرسکتے، ہماری ٹیم اب بھی مضبوط ہے، ہم میچ جیتنے کی کوشش کریں گے، ہم اچھی کرکٹ کھیلنے کی کوشش کریں گے۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ جب آپ کوچ بنے تو فوکس فاسٹ باؤلنگ سے ہٹا کر اسپن پر لے گئے، یہ بھی ہوم سیریز ہی ہے، باقی ٹیمیں تین، چار اسپنرز کے ساتھ آر ہی ہیں پاکستان کے پاس صرف ایک اسپیشلسٹ اسپنر ہے، اس پر بات کرتے ہوئے عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ میچز میں ہم تھوڑا سا لیک کررہے تھے کہ آپ کے باؤلرز لمبے اسپیلز کرسکیں اور وکٹیں لے سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ کی ٹیم آئی تھی تو اس کے خلاف بیسٹ آپشن یہی تھا کہ اسپن پچز بنائیں، اسپنر کھلائیں۔
عاقب جاوید نے کہا کہ بات ہو رہی ہے کہ ٹیمیں تین، تین، چار، چار اسپنرز لے کر آئے ہیں لیکن آپ ان کی پلیئنگ الیون دیکھیں، ان کی ٹیموں میں ایک اسپشلسٹ اسپنر ہے اور دو، دو آل راؤنڈرز ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک اسپشلسٹ اسپنر ہے جبکہ ایک بائیں ہاتھ کے باؤلر خوشدل شاہ اور ایک آف اسپنر آغا سلمان شامل ہیں، ہمیں بیلنس رکھنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ 5 اسپنرز کھلا دیں اور ایسی پچز کہیں نظر بھی نہیں آئیں گی، جہاں بہت زیادہ بال ٹرن ہو رہی ہو، اور فاسٹ باؤلر کے لیے کچھ نہیں ہے۔
پاکستان ٹیم کے عبوری ہیڈ کوچ نے کہا کہ ماحول بہت اہم ہوتا ہے، اگر آپ نوجوان پلیئرز کو بتائیں کہ پریشر ضرور ہوتا ہے لیکن یہ ایک میچ ہے، جائیں اپنا ٹیلنٹ دکھائیں اور نتائج کو بھول جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈر ہوتا ہے کہ ہار گئے تو کیا ہو گا؟ کچھ بھی نہیں ہوتا، دلیری سے کرکٹ کھیلنی، جو رزلٹ ہوگا 8 گھنٹے میں سب کو سمجھ آجائے گا۔
عاقب جاوید نے کہا کہ یہ کرکٹرز کا پروفیش ہے، آپ کوشش کرتے ہیں، اس میں ہار بھی جاتے ہیں، ایک میچ آپ نے جیتا ہے، ایک ٹیم نے نہیں جیتا، اس سے آپ کی پرفارمنس پر کیا فرق پڑتا ہے؟ کیا پریشر ہوگا؟ ہر میچ مختلف ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک۔بھارت میچ چاہے 10 میچز جیتنے کے بعد بھی ہو یا 6 ہارنے کے بعد بھی ہو، اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کی خوبصورتی بدل نہیں سکتی۔
ان سے سوال پوچھا گیا کہ ٹی 20 کے دور میں بھی ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی ٹیم پرانی کرکٹ کھیل رہی ہے؟ اس پر عبوری ہیڈ کوچ نے بتایا کہ یہ سوچ کی بات ہے، کس طرح آپ سوچتے ہیں، ہم نے یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ یہ کراؤڈ یا پچ، کیا یہ وہ ہے، جو پاکستان میں میچز ہو رہے ہیں یا تھوڑی مختلف ہے، جیسی ٹیم ہے، جیسی پچ ہے ، ہم اس لحاظ سے کھیلیں گے۔
عاقب جاوید نے سوال اٹھایا کہ یہ ضروری ہے کہ ون ڈے میں بھی ٹی 20 کی طرح کھیلنا شروع کر دینا ہے، 50 اوور کی کرکٹ اب بہت زیادہ چیلنجنگ ہو گئی ہے، 35 سے 40 اوور کے بعد اب فٹنس لیول بہت بہتر کرنے پڑیں گے، سارا سال فوکس ٹی 20 پر ہے، تو 20 اوور ختم ہونے کے بعد آپ کو 30 اوور اور گراؤنڈ میں رہنا ہے، میرا خیال ہے کہ فٹنس سب سے بڑا چیلنج ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عاقب جاوید نے کہا ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی کہ پاکستان نے کہا کہ کریں گے ہوتا ہے کیا ہو بھی ہو کے بعد
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan