مینگرووز کراچی کی ڈھال
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
کراچی، یہ شہر جوکبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا، اب بے ترتیبی، آلودگی اور مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ یہاں کے باسیوں کے لیے زندگی کسی نہ ختم ہونے والے امتحان سے کم نہیں۔کبھی پانی کی قلت، کبھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ توکبھی بے ہنگم ٹریفک کا عذاب۔ مگر ان سب مسائل کے بیچ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بہت کم لوگ غورکرتے ہیں اور وہ ہے مینگرووزکا تحفظ۔
یہ مینگرووز جو کراچی کے ساحلی علاقوں میں صدیوں سے موجود ہیں، کسی خاموش محافظ کی طرح ہمارے شہرکو قدرتی آفات سے بچانے میں مصروف ہیں، مگر افسوس کہ ترقی اور شہری آبادی میں اضافے کے نام پر ان قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔
ہم نے اپنے ہاتھوں سے اس شہر کو اس کے قدرتی دفاع سے محروم کردیا ہے اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ ہر سال ساحلی کٹاؤکیوں بڑھ رہا ہے، موسم کیوں بگڑ رہا ہے اور سمندری طوفان کراچی کے لیے خطرہ کیوں بنتے جا رہے ہیں۔ اکثر لوگ نہیں جانتے کہ مینگرووز دراصل کراچی کے لیے قدرت کا ایک قیمتی تحفہ ہیں۔
یہ نمکین پانی کے وہ درخت ہیں جو سمندری طوفانوں لہروں اور ہوا میں موجود زہریلی گیسوں کو جذب کر کے ہمیں ایک قدرتی ڈھال فراہم کرتے ہیں۔ یہ نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں بلکہ سمندر کے کنارے مٹی کو جمنے میں مدد دے کر ساحلی کٹاؤ کو بھی روکتے ہیں۔
جب 2021 میں سمندری طوفان آیا تو کراچی کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہی تھا کہ اگر طوفان نے رخ موڑ لیا تو ساحلی علاقوں کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، مگر مینگرووزکی موجودگی نے شہر کو براہ راست نقصان سے بچایا۔ یہ جنگلات لہروں کی شدت کو کم کرتے ہیں اور طوفانوں کے زور کو توڑ دیتے ہیں، اگر یہ درخت نہ ہوں توکراچی ہر سال کسی نہ کسی سمندری آفت کی زد میں آسکتا ہے۔
کراچی کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے جگہ بنانے کے نام پر مینگرووزکی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ پہلے یہ جنگلات ہزاروں ایکڑ پر پھیلے ہوئے تھے مگر اب ان کا رقبہ کم ہوکر صرف چند مخصوص علاقوں تک محدود رہ گیا ہے۔ ڈیفنس، کلفٹن، پورٹ قاسم اور ملیر کے ساحلی علاقوں میں جہاں کبھی گھنے مینگرووزکے جنگلات ہوا کرتے تھے وہاں اب کنکریٹ کے جنگل کھڑے کردیے گئے ہیں۔
بڑے ہاؤسنگ پروجیکٹس انڈسٹریل زونز اور غیر قانونی قبضہ مافیا نے ان درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر اپنی تجوریاں بھریں مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان چند لاکھ روپے کے لالچ میں ہم نے اپنے مستقبل کو کتنے بڑے خطرے میں ڈال دیا ہے۔اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مینگرووزکا ختم ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں تو یہ ہماری بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی قدرتی اور ماحولیاتی آفات جنم لے رہی ہیں۔
سمندری طوفانوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے جب مینگرووز موجود نہیں ہوں گے تو کسی بھی سمندری طوفان کے براہ راست اثرات کراچی پر مرتب ہوں گے۔ سمندری لہریں زیادہ شدت سے زمین سے ٹکرائیں گی اور ساحلی بستیاں زیرِ آب آسکتی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیاں شدت اختیارکررہی ہیں، کراچی میں گرمی کی شدت ہر سال بڑھ رہی ہے، بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو چکا ہے اور ہوا میں آلودگی کی مقدار خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ مینگرووز ان تمام مسائل کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں مگر ہم نے انھیں تباہ کر کے اپنا ہی نقصان کیا ہے۔
کراچی کی ہزاروں ماہی گیر بستیاں سمندر سے حاصل ہونے والے رزق پر منحصر ہیں۔ مینگرووز مچھلیوں جھینگوں اور دیگر سمندری حیات کے لیے نرسری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے خاتمے سے مچھلیوں کی پیداوار میں کمی ہو رہی ہے اور ماہی گیروں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ گیا ہے۔
مینگرووز قدرتی فلٹر کی طرح کام کرتے ہیں جو ہوا میں موجود زہریلی گیسوں کو جذب کر کے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ جب یہ ختم ہو رہے ہیں تو کراچی کی فضا زہریلی ہو رہی ہے اور سانس کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔یہ سوال کہ کراچی کے لیے مینگرووزکیوں ضروری ہیں؟ یہ بہت ہی بنیادی سوال ہے۔ کراچی کا اور اس کے باسیوں کا مستقبل اس سوال سے جڑا ہے۔ اگر کراچی کو بچانا ہے تو مینگرووز کو بچانا ہوگا۔ ہمیں چند اہم اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ مینگرووز کی کٹائی پر سخت قوانین بنائے اور جو لوگ ان درختوں کو کاٹتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اگر اب بھی اس طرف توجہ نہ دی گئی تو آنے والے وقت میں ہم بہت مشکل میں آجائیں گے، جو درخت کاٹے جا چکے ہیں ان کی جگہ فوری طور پر نئے درخت لگائے جائیں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عام شہریوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ مینگرووز صرف درخت نہیں بلکہ ہمارے شہر کی زندگی کی ضمانت ہیں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اس قدرتی خزانے کو بچانا ہوگا۔ باقاعدہ عوامی آگاہی مہم کا آغاز ہونا چاہیے اور اس میں شہریوں کی بھرپور شمولیت ہونی چاہیے۔
ترقی کے نام پر قدرت کو تباہ کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کراچی کی ترقی اور مینگرووزکا تحفظ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں بس اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ قدرتی ماحول کا تحفظ یقینی بنانا اشد ضروری ہے۔
اگر کراچی کی ہواؤں کو دھول مٹی اور گرمی کی لپیٹ سے بچانا ہے تو ہمیں اس کی قدرتی ڈھال کو بچانا ہوگا۔ مینگرووز کا تحفظ صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ کراچی کی بقا کا سوال ہے۔ اگر ہم نے آج ان درختوں کی حفاظت نہ کی تو آنے والے برسوں میں ہمیں نہ صرف قدرتی آفات بلکہ غذائی قلت آلودگی اور شدید گرمی جیسے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا کہ ہم ایک تباہ حال شہر چاہتے ہیں یا ایک ایسا کراچی جہاں سمندر کی ہوائیں پھر سے تازگی کا احساس دلائیں جہاں ساحل محفوظ ہوں اور جہاں قدرتی حسن اپنی اصل شکل میں برقرار رہے۔ مینگرووز کو بچانا ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری ذمے داری بھی۔ اگر آج ہم نے یہ ذمے داری نہ نبھائی توکل ہمیں اپنی بربادی پر ماتم کرنا پڑے گا۔
چند دن قبل ارتقاء نے اس ہی سلسلے میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا جس کا موضوع تھا کاربن فوٹ پرنٹ کاربن کریڈٹس اور مینگرووز کا تحفظ۔ اس طرح کے پروگرام سے نہ صرف آگاہی میں اضافہ ہوگا بلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے۔
اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ارتقاء نے ایک ڈیڑھ برس قبل اس سلسلے میں سول سوسائٹی کا ایک دن کا دورہ ترتیب دیا تھا جس میں وہ مینگرووزکا دورہ کرانے ریڑھی گوٹھ لے کر گئے تھے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آنے والے وقت میں اگر ہمیں کراچی کو قدرتی آفات سے بچانا ہے تو اس مسئلے پر سنجیدگی سے نہ صرف غورکرنا ہوگا بلکہ اس پر جامع انداز میں کام کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سمندری طوفان کراچی کے لیے کی ضرورت ہے کرتے ہیں کراچی کی کو بچانا ا لودگی قدرتی ا نے والے ہوگا کہ کا تحفظ رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
کراچی میں بارشوں کا موسم آتے ہی ایک ہڑبونگ مچ جاتی ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز پر ہر طرف بس اس ہی سے متعلق خبریں نظر آتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر خوف اور واویلا بپا ہوتا ہے کہ شہر ڈوب رہا ہے، قیامت آگئی ہے، سب کچھ تباہ ہوگیا ہے، ہر بار یہی منظر نامہ دہرایا جاتا ہے۔ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور ہوں کہ کیا بارش اور دریا واقعی آفت ہیں؟ یا آفت وہ ہے جو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے پیدا کی ہے؟
میں نے اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے۔ جب لاہور میں دریائے راوی کو بلڈرز اور طاقتور طبقوں نے اپنے مفاد کی خاطر نوچ ڈالا، اس کے کنارے پر پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائیں اور دریا سے بہنے کا حق چھین لینے کی کوشش کی تو میں نے تب بھی دل گرفتہ ہو کر قلم اٹھایا تھا۔ آج جب کراچی کے لوگوں کو ملیر اور لیاری ندیوں کے بہاؤ سے خوفزدہ دیکھتی ہوں تو دل اور زیادہ اداس ہوتا ہے۔ یہ اداسی اس وقت اور گہری ہو جاتی ہے جب میں اپنے ہی شہر کے باسیوں کی بے بسی اور بے خبری دیکھتی ہوں۔
کراچی کے بزرگوں سے پوچھیے تو وہ بتائیں گے کہ ملیر اور لیاری موسمی دریا صدیوں سے اس خطے کے دھڑکتے ہوئے دل تھے۔ یہ وہ ندیاں ہیں جنھوں نے اس شہر کے وجود کو سنوارا۔ جب برسات کے موسم میں بادل کھل کر برستے تھے تو یہ ندیاں زندگی کا گیت گاتی ہوئی بہتی تھیں، ان کا شور تباہی نہیں بلکہ حیات کی ایک نغمگی تھی۔ مچھیرے،کاشتکار، عام شہری سب ان ندیوں کے ساتھ جیتے تھے، ان سے ڈرتے نہیں تھے بلکہ ان کے بہاؤ کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے تھے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے ملیر کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں۔ مول (Mol) تھڈو (Thaddo) سکن (Sukhan)، لنگیجی (Langheji) یہ سب برسات کے دنوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہتی تھیں، ان کا شور افراتفری نہیں تھا بلکہ فطرت کا سنگیت تھا۔
پھر ہم نے کیا کیا؟ ہم نے ان ندیوں کو کچرے کے ڈھیر میں بدل دیا، ان کے کنارے پر پارکنگ پلازہ بنا دیے، ہم نے ان کے راستے میں کنکریٹ کے جنگل اگا دیے۔ ہم نے یہ سوچے بغیر زمین بیچ ڈالی کہ پانی بھی اپنی راہ چاہتا ہے۔یہی اصل آفت ہے۔ بارش آفت نہیں، دریا آفت نہیں، آفت وہ بے حسی ہے جو ہم میں سرایت کرگئی ہے۔ ہم نے فطرت کے ساتھ دشمنی مول لی ہے اور اب جب فطرت اپنا راستہ تلاش کرتی ہے تو ہم چیخ اٹھتے ہیں کہ تباہی آگئی۔
مجھے یاد ہے کہ لاہورکے راوی کے ساتھ بھی یہی ظلم ہوا۔ بلڈرز نے خواب بیچنے کے نام پر دریا کی سانس روک دی۔ لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی لگا کرگھر بنانے گئے اور آج وہ سیلاب کا شکار ہیں۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا، دریا کو بہنے دو، کیونکہ اگر ہم دریا کا راستہ روکیں گے تو وہ ایک دن اپنی پرانی پگڈنڈی ڈھونڈ لے گا، فطرت کی یاد داشت انسان سے کہیں زیادہ گہری ہے۔
کراچی کی ملیر اور لیاری ندیاں بھی یہی پیغام دے رہی ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ شہرکی بنیادیں فطرت کی شرائط پر رکھی گئی تھیں، ہمارے لالچ اور بدنظمی پر نہیں۔ آج یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ تم چاہے کتنے ہی اونچے پل، فلائی اوور یا ہاؤسنگ اسکیمیں بنا لو، پانی اپنا راستہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
لیاری ندی کے کنارے کبھی بستیاں تھیں، ماہی گیروں کے گاؤں تھے۔ بچے ان کے پانی میں کھیلتے تھے، آج وہی لیاری ندی کچرے، گندگی اور زہریلے پانی سے بھرا ایک خوفناک نالہ بن چکا ہے اور جب بارش کے دنوں میں یہ اپنے پرانے جلال کے ساتھ بہنے لگتی ہے تو شہری چیخنے لگتے ہیں کہ شہر ڈوب رہا ہے۔ نہیں شہر ڈوب نہیں رہا شہر کو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے غرق کیا ہے۔میں جب یہ سب دیکھتی ہوں تو دل پر بوجھ سا بڑھ جاتا ہے۔ لکھنے کو دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کتنی بار لکھوں کسے جھنجھوڑوں؟ لیکن پھر بھی قلم اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں۔
یہ ندیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ فطرت دشمن نہیں ہے۔ دشمن وہ نظام ہے جس نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، جو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زمین کو بیچ ڈالو، پانی کے راستے پر قبضہ کر لو، ہر چیز کو منافع میں تول دو۔ اسی نظام نے ہمارے شہروں کو قبرستان بنا دیا ہے۔
کراچی کے لوگ بارش سے ڈرتے ہیں۔ وہ لیاری اور ملیر کے بہاؤ سے خوفزدہ رہتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اصل ڈر ان حکمرانوں سے ہونا چاہیے جنھوں نے اس شہر کا سانس گھونٹ دیا ہے۔ اصل ڈر ان بلڈرز اور لینڈ مافیا سے ہونا چاہیے جنھوں نے دریا کی زمین کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اصل ڈر اس اندھے ترقی کے تصور سے ہونا چاہیے جو فطرت کو روند کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔
ملیر اور لیاری کی ندیاں ہمارے خلاف نہیں، ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتی ہیں کہ زندگی کی بقا کے لیے فطرت کے ساتھ چلنا ہوگا، اس کے خلاف نہیں۔ بارش ہو یا دریا کا بہاؤ یہ آفت نہیں یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی لالچ، بدنظمی اور کوتاہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں بار بار سمجھاتی ہیں کہ تم نے اگر اپنے راستے درست نہ کیے تو ایک دن تمہاری بستیاں، تمہاری عمارتیں اور تمہاری سڑکیں سب پانی کی لپیٹ میں آجائیں گی۔
یہ دریا ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی شہری منصوبہ بندی پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ ہمیں کچرے کے ڈھیروں کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ ندیاں ہماری دشمن نہیں بلکہ ہماری زندگی کی ضامن ہیں۔ میں آج پھر یہی دہرا رہی ہوں یہ کوئی تباہی نہیں ہے، یہ فطرت کی یاد دہانی ہے۔ یہ وہ دستک ہے جو ہمیں جگا رہی ہے۔ کاش کہ ہم جاگ جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔