پاکستان انڈیا میچ: دلی لاہور سے دور کیوں ہوگیا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
پاکستان اور انڈیا کے میچ کا کیا نتیجہ نکلے گا اس پر بڑے بڑے ماہرین تبصرہ کررہے ہیں، قیاس کے بے لگام گھوڑے دوڑا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی خیال آرائیاں ہیں، تاریخ کے حوالے ہیں اور اعدادوشمار کا گورکھ دھندا۔ اس سب کے بیچ ایک حقیقت جس پر نہ ہونے کے برابر بات ہورہی ہے وہ یہ کہ کرکٹ کا یہ ٹاکرا پاکستان میں ہونا تھا لیکن کھیل کے سیاست کی نذر ہونے کے باعث اب یہ دبئی میں ہو رہا ہے۔
’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘
میچ کا نتیجہ کسی کے حق میں آئے لیکن کرکٹ ہار گئی ہے۔
انگریزی خبروں میں دارالحکومت کی بنیاد پر خبر کی عبارت یوں ہوتی ہے کہ دلی نے یہ فیصلہ کیا یا اسلام آباد کا مؤقف یہ تھا۔ اس طرزِ بیان کی رعایت سے کہا جاسکتا ہے کہ دلی نے پاکستان میں کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اسے یہ آپشن بھی دی گئی تھی کہ وہ چاہے تو سارے میچ لاہور میں بھی کھیل سکتا ہے۔ لیکن اس نے اس شہر کے ساتھ اپنے تاریخی و تمدنی رشتے سے بے پروا ہوکر ایک بے روح اور بلند بانگ عمارتوں کے شہر میں کرکٹ کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی اور وہ شہر جس کے باسیوں نے ہمیشہ انڈین ٹیم کو سر آنکھوں پر بٹھایا وہاں آنے سے چٹا انکار کیا۔ دلی اور لاہور میں قرب و بعد کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
شاہد احمد دہلوی نے میرا جی کے خاکے میں لکھا ہے:
’دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہوکر رات فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سوگئے۔ آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے، سال میں کئی پھیرے لاہور کے ہو جاتے تھے۔‘
یہ تقسیم سے پہلے کا نقشہ تھا بعد میں جو ایسا بگڑا کہ بس نہ پوچھیے۔ جوش ملیح آبادی نے پاکستان ہجرت سے پہلے کے زمانے میں حبیب اشعر دہلوی کو لاہور کے پتے پر خط میں لکھا تھا:
’لاہور اور دلی کے درمیان مسافت ہی کیا ہے صرف چند سو میل لیکن ماحولی و واقعاتی مسافت۔ العظمتہ اللہ۔
’میان کعبہ و بت خانہ فصل یک گامے
میان شیخ و برہمن ہزارہا فرسنگ‘
(کعبہ و بت خانہ ایک قدم کی دوری پر ہیں، شیخ اور برہمن کے درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہے)
یہ ساری باتیں اس رنج فراواں کی تمہید ہیں جو انڈیا کے پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار سے پیدا ہوا ہے۔ اب ہم اس کے کرکٹ اور سیاست پر اثرات اور مضمرات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا آغاز ان بوالعجبیوں سے کرتے ہیں جو انڈیا کے پاکستان میں نہ کھیلنے کی ضد سے پیدا ہوئی ہیں۔
اس بات کا بہت چرچا ہے کہ 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد 29 سال بعد پاکستان آئی سی سی کے کسی ایونٹ کی میزبانی کررہا ہے، لیکن تب اور اب کی میزبانی میں بڑا فرق ہے۔ 1996 میں یہ بات ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے طے تھی کہ ورلڈ کپ کا فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہوگا لہٰذا اسے نیا روپ دینے کے لیے خوب پیسہ بہایا گیا تھا۔ اس دفعہ چیمپیئنز ٹرافی کے لیے بھی بہت اہتمام کیا گیا اور اسٹیڈیم کی نئی چھب نکل آئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی یہ طے نہیں کہ ٹورنامنٹ کا فائنل لاہور میں ہی ہوگا کیوں کہ ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انڈین ٹیم فائنل میں پہنچ نہ پائے۔ 1996 میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی، اس لیے انڈیا اگر سری لنکا سے کلکتہ میں سیمی فائنل جیت لیتا تو اسے فائنل کے لیے لاہور آنا ہی آنا تھا۔ 29 برس بعد ہم پرپیچ رستے پر چلتے ہوئے کہاں آن پہنچے ہیں اس کے بارے میں معروف شاعر عباس تابش کا شعر ملاحظہ کیجیے:
ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آ گے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے
انڈیا کو ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے معلوم ہے کہ اسے فائنل اور سیمی فائنل کس مقام پر کھیلنا ہے لیکن دیگر ٹیموں کے لیے یہ معما فائنل سے فقط چند روز پہلے ہی حل ہو سکے گا کہ انہوں نے یو اے ای میں قسمت آزمانی ہے یا پاکستان میں۔
انڈیا نے ایک ملک اور ایک میدان میں کھیلنا ہے اور کسی دوسری جگہ جانے کی زحمت گوارا نہیں کرنی جبکہ اس کے حریف دو ملکوں کے مہمان بنیں گے اور دو مختلف طرح کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کریں گے۔
2021 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چیمپیئنز ٹرافی کے 15 کے 15 میچ پاکستان کی سرزمین پر کروانے کی منظوری دی تھی جو انڈیا کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد ہائبرڈ ماڈل کے تحت دبئی منتقل ہوگئے جبکہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے انڈیا میں آئی سی سی کے مقابلوں میں شریک ہوتا رہا تھا۔ اس سلسلے کی آخری مثال 2023 کا ون ڈے ورلڈ کپ ہے جس کے 9 میچ پاکستان ٹیم نے انڈین سرزمین پر کھیلے تھے۔ کاش اس سپرٹ کے تحت انڈین ٹیم پاکستان میں کھیلنے کے لیے آتی تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کی امید جاگتی اور کرکٹ کے دیوانے اس پر جھوم جھوم جاتے لیکن افسوس یہ سنہری موقع ضائع کردیا گیا۔
کرکٹ میں انڈیا کی چودھراہٹ کے بارے میں مختلف تحریریں میری نظر سے گزری ہیں لیکن ان میں سے دو زیادہ قابلِ توجہ ہیں کیوں کہ ان میں ایک تو نام نہاد قوم پرستی نہیں اور دوسرے زیادہ سے زیادہ پڑھوائے جانے کا مسالہ بھی نہیں، مؤقف جذبات کے بجائے دلیل کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔
پہلا مضمون معروف کرکٹ رائٹر ٹم وگمور کا ہے جو ٹیلی گراف میں 23 دسمبر 2024 کو شائع ہوا تھا اور دوسرا 14 فروری کو عرب نیوز میں ممتاز پاکستانی صحافی زاہد حسین کا وہ کالم ہے جو فیض فیسٹول میں بھی زیرِ بحث رہا۔
پہلے ہم ٹم وگمور کے مضمون کی بات کر لیتے ہیں جنہوں نے لکھا کہ کرکٹ کی ساکھ کو انڈیا کی خاطر قربان کردیا گیا۔ میزبان ملک میں ٹورنامنٹ کے فائنل کا انعقاد بھی اس صورت میں ہوگا جب انڈیا اس تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گا۔ وگمور کے خیال میں انڈیا کی طرف سے یہ کرکٹ کی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے کی صلاحیت کا اظہار ہے۔ وہ کرکٹ اور سیاست کے تعلق پر بھی بات کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں پہلے انڈین کرکٹ اور سیاست ایک دوسرے میں اس طرح گتھے ہوئے نہیں تھے۔ وہ انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی بی سی سی آئی کے سیکریٹری کا عہدہ چھوڑنے کے بعد آئی سی سی کی سربراہی سنبھالنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔
ٹم وگمور نے ماضی کے بعض دوسرے معاملات پر بھی بات کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ 2019 کے ورلڈ کپ میں آئی پی ایل کی وجہ سے انڈیا کے پہلے میچ کو معرضِ التوا میں ڈالا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ 2021 اور 2022 کے ٹی20 ورلڈ کپ مقابلوں میں انڈیا جس گروپ میں تھا اس کا آخری میچ اسے ہی کھیلنا تھا تاکہ اگر رن ریٹ کی بنیاد پر ناک آؤٹ کے مرحلے میں داخل ہونا پڑے تو اسے پہلے سے علم ہو کہ یہ مرحلہ کس طرح پار کرکے وہ آگے جا سکتا ہے اور دونوں موقعوں پر اس بات کا التزام بھی تھا کہ کمزور ترین ٹیموں سے اس کا واسطہ پڑے۔ اس لیے 2021 میں اس کا مقابلہ نمیبیا سے تھا تو 2022 میں زمبابوے سے۔ اسی طرح 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں اس نے اپنا آخری گروپ میچ نیدر لینڈ سے کھیلا۔
وگمور سمجھتے ہیں کہ چیمپیئنز ٹرافی وہ بڑا مقابلہ تھا جس میں دنیائے کرکٹ اجتماعی طور انڈیا کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات دکھا سکتی تھی لیکن اب یہ ٹورنامنٹ محض کرکٹ پر انڈیا کے تصرف کی ایک اور نشانی کے طور پر دیکھا جائے گا۔
زاہد حسین سیاسی مبصر ہیں، پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں، اور بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ رہے ہیں۔
زاہد حسین نے لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی کشیدگی سے کھیلوں کے مقابلے بھی متاثر ہو رہے ہیں جس کی دنیا میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان انڈیا میں بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی شرکت کو یقینی بناتا رہا لیکن اس کے باوجود انڈیا چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کی غرض سے پاکستان نہیں آیا جس سے پاکستان میں شائقین اس اہم مقابلے میں کرکٹ کے دو بڑے حریفوں کو دیکھنے سے محروم ہوگئے۔ آئندہ پاکستان بھی آئی سی سی کے کسی ایونٹ کے انڈیا میں منعقد ہونے کی صورت میں اپنے میچ نیوٹرل وینیو پر ہی کھیلے گا۔
زاہد حسین نے کرکٹ ڈپلومیسی کی تاریخ بھی بیان کی ہے جو دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرتی رہی ہے۔ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی فضا میں 1987 میں ٹیسٹ کے دوران ضیاالحق کے دورہ بھارت کا حوالہ دیتے ہیں جسے کرکٹ برائے امن سے تعبیر کیا گیا تھا۔ کرکٹ ڈپلومیسی کے اعتبار سے وہ 2003 سے 2008 تک کے عرصے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہیں جب دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے ملک میں دو دفعہ ٹیسٹ سیریز کھیلی لیکن بمبئی حملوں کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی اور دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کا اثر کھیل پر بھی پڑا۔ انڈیا نے دائیں بازو کی حکومت آنے کے بعد سخت مؤقف اپنایا جس سے کرکٹ ڈپلومیسی کی موت واقع ہوگئی۔ زاہد حسین کے خیال میں اگر انڈین حکومت کرکٹ اور سیاست کو خلط ملط نہ کرتی تو چیمپیئنز ٹرافی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی تھی۔
وہ انڈین حکومت کے اس مؤقف کو رد کرتے ہیں کہ انڈین ٹیم کو سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں بھیجا گیا، ان کے بقول کئی مبصرین کی دانست میں انڈین ٹیم کے پاکستان نہ آنے کی یہ حقیقی وجہ نہیں ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر باقی ٹیمیں کیوں پاکستان آتیں جبکہ گزشتہ برسوں میں تقریباً ہر اہم ٹیم پاکستان کا دورہ کرچکی ہے اور کسی کے ساتھ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
زاہد حسین نے لکھا ہے کہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق انڈیا کے پاکستان ٹیم نہ بھیجنے کی صرف سیاسی وجہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے حریف کو اس بڑے مالی فائدے سے محروم کرنا بھی ہے جو اسے انڈیا سے اپنی سرزمین پر میچ کی صورت میں پہنچنا تھا۔
ٹم وگمور اور زاہد حسین نے بڑے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اضافے کی گنجائش کم نکلتی ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان ٹیم نہ بھیجنے کی بنیادی وجہ سیاست اور وہاں انتہا پسند سیاسی جماعت کا اقتدار ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اس جماعت یعنی بی جے پی کی سیاست کمزور ہوئی ہے جسے وہ نفرت کے ذریعے مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ رہی بات کسی واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں نہ آنے کی تو یہ کوئی جواز نہیں کیوں کہ طویل وقفے سے سہی لیکن دونوں ملکوں میں جنگوں کے بعد بھی کرکٹ ہوئی ہے۔ کارگل کے چند سال بعد اس آپریشن کے معمار اعظم جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں کرکٹ ڈپلومیسی کا سب سے اچھا دور ہم نے دیکھا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کے مقابلوں کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ یہ ٹیمیں جب ایک دوسرے کے ملک میں کھیلتی ہیں تو عوام جتا دیتے ہیں کہ ان کے درمیان دوری کی مصنوعی دیواریں کھڑی ہیں جن کو مسلسل روابط سے ڈھایا جا سکتا ہے۔ بس یہی امکان سیاست کے شیخ و برہمن کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔
عام آدمی تو عام آدمی کرکٹ کے کھلاڑی بھی مخاصمت میدان میں چھوڑ آتے ہیں، اس لیے میڈیا میں انہیں جب جب موقع ملتا ہے وہ حریف کھلاڑیوں کی کھیل میں مہارت کا فراخ دلانہ اعتراف کرتے ہیں۔ کرکٹ کے امور میں ایک دوسرے کی مشکل وقت میں مدد کرنے میں بھی انہیں کبھی عار نہیں رہی۔
برصغیر میں کرکٹ ان لوگوں کی توجہ بھی حاصل کر لیتی ہے جنہیں اس کھیل سے کد ہو، اس کی ایک مثال مشہور سوشلسٹ رہنما رام منوہر لوہیا کی ہے۔ انڈیا کے نامور لکھاری اور دانشور رام چندر گوہا نے ’اے کارنر آف اے فارن فیلڈ‘ میں ان کے بارے میں بتایا ہے کہ انہیں کرکٹ سے خدا واسطے کا بیر تھا، وہ اسے نو آبادیاتی دور کی یادگار گردانتے تھے۔
61-1960 میں پاکستان کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر گئی تو بمبئی ٹیسٹ کے دوسرے روز جہاں ایک طرف ہزاروں تماشائی اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے، دوسری طرف رام منوہر لوہیا پریس کانفرنس کررہے تھے جس میں وہ نہرو کے ساتھ ساتھ کرکٹ پر بھی خوب برسے۔
پریس کانفرنس کے بعد صحافی تتر بتر ہوگئے تو وہ ہوٹل سے باہر آئے۔ قریب میں پان کی دکان پر پہنچے، پان لیا اور پھر اسے چباتے ہوئے، دکان دار سے پوچھا:
’حنیف آﺅٹ ہوگیا کیا؟‘
آخر میں یہ عرض کرنی ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے بند کھڑکیوں کو کھولا جائے نہ کہ پہلے سے کھلی کھڑکی بند کردی جائے، کرکٹ وہ روزن دیوار ہے جس سے پہلے بھی امید کی کرنیں پھوٹتی رہی ہیں، اسے بند کرنے سے تیرگی ہی امڈے گی۔
دونوں ٹیمیں آج میچ کھیل لیں گی، شائقین اسے دیکھ بھی لیں گے لیکن بہر حال وہ اس لذت سے محروم رہیں گے جو انہیں پاکستان میں میچ ہونے کی صورت میں ملتی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔
wenews آئی سی سی بیک ڈور ڈپلومیسی پاک بھارت تعلقات پاکستان انڈیا میچ پی سی بی چیمپیئنز ٹرافی حکومتیں دبئی دلی سیاستدان شائقین کرکٹ لاہور وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت تعلقات پاکستان انڈیا میچ پی سی بی چیمپیئنز ٹرافی حکومتیں دلی سیاستدان شائقین کرکٹ لاہور وی نیوز پاکستان اور انڈیا کے انڈیا کے پاکستان چیمپیئنز ٹرافی دونوں ملکوں کے کرکٹ اور سیاست زاہد حسین نے پاکستان میں سے پاکستان ایک دوسرے کے درمیان انڈین ٹیم لاہور میں کرتے ہیں کی بنیاد میں کرکٹ انڈیا کی ٹم وگمور ہونے کی کیوں کہ کرکٹ کے ورلڈ کپ رہے ہیں سکتا ہے سے پہلے میں ہو کے بعد ہیں کہ کے لیے پر بھی اور دو کی طرف
پڑھیں:
3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 جون2025ء) وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کے مشیر خرم شہزاد نے دنیا بھر کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ معاشی ترقی ہونے کا دعوٰی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 3 سال میں دنیا بھر میں گروتھ نیچے گئی لیکن پاکستان میں گروتھ بڑھی ہے۔ ایک انٹرویومیں وزیر خزانہ کے مشیر خرم شہزاد نے کہا کہ ہمارے پاس مہنگائی میں کمی آئی ہے جب کہ کئی ممالک میں مہنگائی جوں کی توں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہیں نا کہیں کچھ نا کچھ بہتری آئی ہے۔ خرم شہزاد نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں گراوٹ پر کی کئی وجوہات ہیں جن میں پانی اور بارش کی کمی بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت مہنگائی پر قابو پا چکی ہے جب کہ ملکی معیشت درست سمت میں جا رہی ہے۔(جاری ہے)
قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بتایا کہ عالمی سطح پر مجموعی پیداوار کی شرح کم ہوئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی کا نمو 2.8 فی صد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ پاکستان کی معاشی ترقی کا نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشی بحالی کو عالمی منظر نامے کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔ دو سال قبل (2023ء میں) ہماری مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فی صد سے بلند ہو چکی تھی، جس کے بعد حکومت نے بڑے فیصلے کیے، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت اب بتدریج بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ افراط زر میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح کم ہوکر اب 4.6 فی صد پر آ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہ رہے ہیں، جس کے لیے کچھ اسٹرکچرل ریفارمز ناگزیر ہیں۔ ٹیکس اصلاحات سب کے سامنے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے معاشی اصلاحات کا پروگرام شروع کیا ہے، میں ان کی تعریف کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ انرجی اصلاحات کو اویس لغاری اور علی پرویز ملک تیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ڈیسکوز کے بورڈ نجی شعبے سے لائے ہیں، اس سے کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ 1.27ٹریلن روپے کے گردشی قرضے کے حل کے لیے بینکوں سے معاہدہ بھی ہوا ہے۔ نگران حکومت میں ہونے والے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ 24 ایس او ایزکو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا ہے۔ پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی۔ پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جاچکے ہیں ۔ لیکیج کا روکنا بہت ضروری ہے، اس سلسلے میں رائٹ سائزنگ کی جارہی ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 43 وزارتیں اور 400 اٹیچ ڈیپارٹمنٹس کی رائٹ سائرنگ کی جارہی ہے۔ بجٹ میں بتاؤں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے۔ اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں۔ ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی گروتھ بڑھی ہے، ترسیلات زر میں اصافہ ہوا ہے۔ 37 سے38 ارب ڈالر اس سال ترسیلات زر رہنے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ گلوبل جی ڈی پی گروتھ مسلسل گروٹ کا شکار رہی ہے، ہماری جی ڈی پی دو ہزار تیس میں منفی میں تھی، رواں سال جی ڈی پی کی گروتھ 2.7 فیصد ہے، عالمی مہنگائی میں اضافے کے باوجود ہماری مہنگائی میں کمی ریکارڈ ہوئی ہے۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری ملک میں مہنگائی 4.6 فیصد تک گرچکی ہے، رواں سال تک شرح سود میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے نگران سے پہلے ایس بی اے کے ذریعے اچھے فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے معاشی میدان میں اچھے اقدامات لیے گئے، جولائی سے مئی کے دوران چھبیس فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوا ہے، چوہتر فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینے چاہتے اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، صنعتوں کی گروتھ میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں دو فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبے محض 0.6 فیصد تک بڑا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایف بی آر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے اصلاحات کی ہیں۔ ہر ٹرانسفارمیشن کے لیے 2 سے 3 سال درکار ہوتے ہیں۔ پاور سیکٹر اصلاحات میں ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ہے۔ رواں مالی سال امپورٹس میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مشینری کی امپورٹ 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔جون کے آخر تک 37 یا 38 ارب ڈالر تک ریکارڈ ہوں گی۔ 2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاونٹس کے ذریعے سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی۔ پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہوکر11 فیصد پر آگیا ہے۔ قرضوں کی شرح68فیصد سے کم ہوکر65 فیصد پر آ چکی ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران ملک کے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد معاشی استحکام لانا ہے۔ ٹیکنالوجی کے زیادہ استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکس ٹوجی ڈی پی5 سال کی بلندترین سطح پرپہنچ گیا، ٹیکس اصلاحات میں ٹیکنالوجی کا بہت استعمال ہے۔ اب تک کی کارکردگی بہتر ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کی شدید مخالفت کی۔ بھارت کی کوشش تھی کہ آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس نہ ہو۔ بھارت کی کوشش تھی آئی ایم ایف بورڈ میں پاکستان کے ایجنڈے کو شامل نہ کیا جائے ، مگر پاکستان نے آئی ایم ایف شرائط پر مکمل عملدرآمد کیا ۔ وزیر خزانہ کے مطابق پاسکو کرپشن کا گڑھ تھا، ہم نے اچھا فیصلہ کیا اور اس سے نکل گئے ہیں۔ درآمدات میں 16 فیصد اضافے کی وجہ زرعی شعبے کی مشینری کی درآمدات میں اضافہ ہے۔ موڈیز کا آؤٹ لک پاکستان سے متعلق بہتر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی حالیہ قسط نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام ثابت کردیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پاک فورسز نے بھارت کو جو شکست دی ہے، اسی طرح معاشی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔ بھارت کے اکنامک ڈائریکٹر نے بہت کوشش کی کہ اجلاس نہ ہو اور اگر ہو تو ہمارا معاملہ ایجنڈے پر نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کا اجلاس اگست میں ہوگا ۔ این ایف سی ایوارڈ میں آبادی کا فارمولا تبدیل کرنے پر غور ہوگا ۔ صوبوں سے مشاورت ہوگی۔ اگر پاکستان کی آبادی 40 کروڑ تک پہنچ گئی تو کیا ہوگا ؟ ہمیں اس بارے میں سوچنا ہوگا۔ اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ1.9ارب ڈالر سرپلس رہاہے۔ جون تک ترسیلات زر38ارب ڈالرتک جانے کا امکان ہے جب کہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس8لاکھ سے تجاوز کرگئے،ان کردار اہم ہے۔ جولائی سے مئی تک ٹیکس ریونیو میں 26فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس فائلرز37لاکھ سے تجاوز کرگئے۔ ہائی ویلیو فائلرزمیں178فیصداضافہ ہوا۔ اس عرصے کے دوران سکوک اور طویل مدتی قرضوں کی میچورٹی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم قرض بہ لحاظ جی ڈی پی کو 65فیصد سے نیچےلانا چاہتے ہیں، ڈیبٹ منیجمنٹ آفس کو بہتر بنارہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مالی سال کے دوران انڈسٹری کی گروتھ4.8فیصد رہی، کیمیکلز،آئرن اسٹیل کے شعبے نیچے گئے ہیں۔ سروسز کے شعبے نے2.9فیصد پر گروتھ کی۔ پچھلے سال یہ2.2فیصد تھا، انفارمیشن اور کمیونیکیشن شعبے نے6.5فیصد پر گروتھ کی۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور رئیل اسٹیٹ3.5فیصد،فوڈ سروسز4.1فیصد اضافہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ بھی بڑھی ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ زراعت نے0.6فیصد گروتھ کی، لائیواسٹاک نے4.7فیصد پر گروتھ کی جب کہ ہدف 3فیصد تھا۔ رواں مالی سال کے دوران چاول، مکئی سمیت بڑی فصلوں میں حکومتی مداخلت ختم کی، زرعی شعبےکےقرضوں میں بھی اضافہ ہوا، زرعی قرضے2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان نے بھارت کیخلاف اپنا لوہا منوایا ہے۔ دوسری طرف اقتصادی محاذ پر بھی جنگ چل رہی تھی۔ معاشی سکیورٹی قومی سلامتی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوکل سرمایہ کار آئیں گے تو غیرملکی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ ایس آئی ایف سی پر توجہ ہے،یہ گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ہمارامقامی وسائل پر دارومدار ہونا چاہیے۔ اگلےسال ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے منصوبے شروع کریں گے۔ اقتصادی سروے پیش کرنے کے دوران سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ جتنا اخراجات پر کٹ لگایا ہے اس سے زیادہ کٹوتی ممکن نہیں تھی۔ آپ کل بجٹ میں دیکھیں گے۔ مالیاتی خسارہ بھی 2022 کا دیکھیں اور آج کا دیکھیں تو واضح فرق نظر آئے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم پرائمری سرپلس کی بات کرتے ہیں۔ اگر پرائمری سرپلس کا نمبر اتنا زیادہ ہے تو پھر یا ریونیو بہت بڑھ گیا ہے یا اخراجات بہت کم ہوگئے ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 14 فیصد تک لے کر جانا ہے۔ہمارے ہمسایے ملک بھارت میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18 فیصد ہے۔