WE News:
2025-07-26@09:20:15 GMT

پاکستان انڈیا میچ: دلی لاہور سے دور کیوں ہوگیا؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

پاکستان اور انڈیا کے میچ کا کیا نتیجہ نکلے گا اس پر بڑے بڑے ماہرین تبصرہ کررہے ہیں، قیاس کے بے لگام گھوڑے دوڑا رہے ہیں، سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی خیال آرائیاں ہیں، تاریخ کے حوالے ہیں اور اعدادوشمار کا گورکھ دھندا۔ اس سب کے بیچ ایک حقیقت جس پر نہ ہونے کے برابر بات ہورہی ہے وہ یہ کہ کرکٹ کا یہ ٹاکرا پاکستان میں ہونا تھا لیکن کھیل کے سیاست کی نذر ہونے کے باعث اب یہ دبئی میں ہو رہا ہے۔

’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘

میچ کا نتیجہ کسی کے حق میں آئے لیکن کرکٹ ہار گئی ہے۔

انگریزی خبروں میں دارالحکومت کی بنیاد پر خبر کی عبارت یوں ہوتی ہے کہ دلی نے یہ فیصلہ کیا یا اسلام آباد کا مؤقف یہ تھا۔ اس طرزِ بیان کی رعایت سے کہا جاسکتا ہے کہ دلی نے پاکستان میں کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ اسے یہ آپشن بھی دی گئی تھی کہ وہ چاہے تو سارے میچ لاہور میں بھی کھیل سکتا ہے۔ لیکن اس نے اس شہر کے ساتھ اپنے تاریخی و تمدنی رشتے سے بے پروا ہوکر ایک بے روح اور بلند بانگ عمارتوں کے شہر میں کرکٹ کھیلنے پر آمادگی ظاہر کی اور وہ شہر جس کے باسیوں نے ہمیشہ انڈین ٹیم کو سر آنکھوں پر بٹھایا وہاں آنے سے چٹا انکار کیا۔ دلی اور لاہور میں قرب و بعد کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔

شاہد احمد دہلوی نے میرا جی کے خاکے میں لکھا ہے:

’دلی اور لاہور ہمارے لیے گھر آنگن تھا۔ جب چاہا منہ اٹھایا اور چل پڑے۔ کھانے دانے سے فارغ ہوکر رات فرنٹیر میل میں سوار ہوئے اور سوگئے۔ آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ گاڑی لاہور پر کھڑی ہے، سال میں کئی پھیرے لاہور کے ہو جاتے تھے۔‘

یہ تقسیم سے پہلے کا نقشہ تھا بعد میں جو ایسا بگڑا کہ بس نہ پوچھیے۔ جوش ملیح آبادی نے پاکستان ہجرت سے پہلے کے زمانے میں حبیب اشعر دہلوی کو لاہور کے پتے پر خط میں لکھا تھا:

’لاہور اور دلی کے درمیان مسافت ہی کیا ہے صرف چند سو میل لیکن ماحولی و واقعاتی مسافت۔ العظمتہ اللہ۔

’میان کعبہ و بت خانہ فصل یک گامے

میان شیخ و برہمن ہزارہا فرسنگ‘

(کعبہ و بت خانہ ایک قدم کی دوری پر ہیں، شیخ اور برہمن کے درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہے)

یہ ساری باتیں اس رنج فراواں کی تمہید ہیں جو انڈیا کے پاکستان میں چیمپیئنز ٹرافی کھیلنے سے انکار سے پیدا ہوا ہے۔ اب ہم اس کے کرکٹ اور سیاست پر اثرات اور مضمرات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس کا آغاز ان بوالعجبیوں سے کرتے ہیں جو انڈیا کے پاکستان میں نہ کھیلنے کی ضد سے پیدا ہوئی ہیں۔

اس بات کا بہت چرچا ہے کہ 1996 کے ورلڈ کپ کے بعد 29 سال بعد پاکستان آئی سی سی کے کسی ایونٹ کی میزبانی کررہا ہے، لیکن تب اور اب کی میزبانی میں بڑا فرق ہے۔ 1996 میں یہ بات ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے طے تھی کہ ورلڈ کپ کا فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں ہوگا لہٰذا اسے نیا روپ دینے کے لیے خوب پیسہ بہایا گیا تھا۔ اس دفعہ چیمپیئنز ٹرافی کے لیے بھی بہت اہتمام کیا گیا اور اسٹیڈیم کی نئی چھب نکل آئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ابھی یہ طے نہیں کہ ٹورنامنٹ کا فائنل لاہور میں ہی ہوگا کیوں کہ ایسا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انڈین ٹیم فائنل میں پہنچ نہ پائے۔ 1996 میں ایسی کوئی شرط نہیں تھی، اس لیے انڈیا اگر سری لنکا سے کلکتہ میں سیمی فائنل جیت لیتا تو اسے فائنل کے لیے لاہور آنا ہی آنا تھا۔ 29 برس بعد ہم پرپیچ رستے پر چلتے ہوئے کہاں آن پہنچے ہیں اس کے بارے میں معروف شاعر عباس تابش کا شعر ملاحظہ کیجیے:

ہمارے پاؤں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا

بہت آ گے گئے لیکن بہت پیچھے نکل آئے

انڈیا کو ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے معلوم ہے کہ اسے فائنل اور سیمی فائنل کس مقام پر کھیلنا ہے لیکن دیگر ٹیموں کے لیے یہ معما فائنل سے فقط چند روز پہلے ہی حل ہو سکے گا کہ انہوں نے یو اے ای میں قسمت آزمانی ہے یا پاکستان میں۔

انڈیا نے ایک ملک اور ایک میدان میں کھیلنا ہے اور کسی دوسری جگہ جانے کی زحمت گوارا نہیں کرنی جبکہ اس کے حریف دو ملکوں کے مہمان بنیں گے اور دو مختلف طرح کے ماحول میں ایڈجسٹ ہونے کی کوشش کریں گے۔

2021 میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے چیمپیئنز ٹرافی کے 15 کے 15 میچ پاکستان کی سرزمین پر کروانے کی منظوری دی تھی جو انڈیا کے پاکستان میں کھیلنے سے انکار کے بعد ہائبرڈ ماڈل کے تحت دبئی منتقل ہوگئے جبکہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے انڈیا میں آئی سی سی کے مقابلوں میں شریک ہوتا رہا تھا۔ اس سلسلے کی آخری مثال 2023 کا ون ڈے ورلڈ کپ ہے جس کے 9 میچ پاکستان ٹیم نے انڈین سرزمین پر کھیلے تھے۔ کاش اس سپرٹ کے تحت انڈین ٹیم پاکستان میں کھیلنے کے لیے آتی تو اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہونے کی امید جاگتی اور کرکٹ کے دیوانے اس پر جھوم جھوم جاتے لیکن افسوس یہ سنہری موقع ضائع کردیا گیا۔

کرکٹ میں انڈیا کی چودھراہٹ کے بارے میں مختلف تحریریں میری نظر سے گزری ہیں لیکن ان میں سے دو زیادہ قابلِ توجہ ہیں کیوں کہ ان میں ایک تو نام نہاد قوم پرستی نہیں اور دوسرے زیادہ سے زیادہ پڑھوائے جانے کا مسالہ بھی نہیں، مؤقف جذبات کے بجائے دلیل کی بنیاد پر استوار کیا گیا ہے۔

پہلا مضمون معروف کرکٹ رائٹر ٹم وگمور کا ہے جو ٹیلی گراف میں 23 دسمبر 2024 کو شائع ہوا تھا اور دوسرا 14 فروری کو عرب نیوز میں ممتاز پاکستانی صحافی زاہد حسین کا وہ کالم ہے جو فیض فیسٹول میں بھی زیرِ بحث رہا۔

پہلے ہم ٹم وگمور کے مضمون کی بات کر لیتے ہیں جنہوں نے لکھا کہ کرکٹ کی ساکھ کو انڈیا کی خاطر قربان کردیا گیا۔ میزبان ملک میں ٹورنامنٹ کے فائنل کا انعقاد بھی اس صورت میں ہوگا جب انڈیا اس تک رسائی حاصل نہیں کر پائے گا۔ وگمور کے خیال میں انڈیا کی طرف سے یہ کرکٹ کی دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق جھکانے کی صلاحیت کا اظہار ہے۔ وہ کرکٹ اور سیاست کے تعلق پر بھی بات کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں پہلے انڈین کرکٹ اور سیاست ایک دوسرے میں اس طرح گتھے ہوئے نہیں تھے۔ وہ انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی بی سی سی آئی کے سیکریٹری کا عہدہ چھوڑنے کے بعد آئی سی سی کی سربراہی سنبھالنے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں۔

ٹم وگمور نے ماضی کے بعض دوسرے معاملات پر بھی بات کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ 2019 کے ورلڈ کپ میں آئی پی ایل کی وجہ سے انڈیا کے پہلے میچ کو معرضِ التوا میں ڈالا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ 2021 اور 2022 کے ٹی20 ورلڈ کپ مقابلوں میں انڈیا جس گروپ میں تھا اس کا آخری میچ اسے ہی کھیلنا تھا تاکہ اگر رن ریٹ کی بنیاد پر ناک آؤٹ کے مرحلے میں داخل ہونا پڑے تو اسے پہلے سے علم ہو کہ یہ مرحلہ کس طرح پار کرکے وہ آگے جا سکتا ہے اور دونوں موقعوں پر اس بات کا التزام بھی تھا کہ کمزور ترین ٹیموں سے اس کا واسطہ پڑے۔ اس لیے 2021 میں اس کا مقابلہ نمیبیا سے تھا تو 2022 میں زمبابوے سے۔ اسی طرح 2023 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں اس نے اپنا آخری گروپ میچ نیدر لینڈ سے کھیلا۔

وگمور سمجھتے ہیں کہ چیمپیئنز ٹرافی وہ بڑا مقابلہ تھا جس میں دنیائے کرکٹ اجتماعی طور انڈیا کے سامنے کھڑے ہونے کی جرات دکھا سکتی تھی لیکن اب یہ ٹورنامنٹ محض کرکٹ پر انڈیا کے تصرف کی ایک اور نشانی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

زاہد حسین سیاسی مبصر ہیں، پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کی تاریخ سے واقف ہیں، اور بیک چینل ڈپلومیسی کا حصہ رہے ہیں۔

زاہد حسین نے لکھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی کشیدگی سے کھیلوں کے مقابلے بھی متاثر ہو رہے ہیں جس کی دنیا میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان انڈیا میں بین الاقوامی مقابلوں میں اپنی شرکت کو یقینی بناتا رہا لیکن اس کے باوجود انڈیا چیمپیئنز ٹرافی میں شرکت کی غرض سے پاکستان نہیں آیا جس سے پاکستان میں شائقین اس اہم مقابلے میں کرکٹ کے دو بڑے حریفوں کو دیکھنے سے محروم ہوگئے۔ آئندہ پاکستان بھی آئی سی سی کے کسی ایونٹ کے انڈیا میں منعقد ہونے کی صورت میں اپنے میچ نیوٹرل وینیو پر ہی کھیلے گا۔

زاہد حسین نے کرکٹ ڈپلومیسی کی تاریخ بھی بیان کی ہے جو دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرتی رہی ہے۔ وہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی فضا میں 1987 میں ٹیسٹ کے دوران ضیاالحق کے دورہ بھارت کا حوالہ دیتے ہیں جسے کرکٹ برائے امن سے تعبیر کیا گیا تھا۔ کرکٹ ڈپلومیسی کے اعتبار سے وہ 2003 سے 2008 تک کے عرصے کو سب سے بہتر قرار دیتے ہیں جب دونوں ٹیموں نے ایک دوسرے کے ملک میں دو دفعہ ٹیسٹ سیریز کھیلی لیکن بمبئی حملوں کے بعد صورت حال تبدیل ہوگئی اور دونوں ملکوں کے درمیان خراب تعلقات کا اثر کھیل پر بھی پڑا۔ انڈیا نے دائیں بازو کی حکومت آنے کے بعد سخت مؤقف اپنایا جس سے کرکٹ ڈپلومیسی کی موت واقع ہوگئی۔ زاہد حسین کے خیال میں اگر انڈین حکومت کرکٹ اور سیاست کو خلط ملط نہ کرتی تو چیمپیئنز ٹرافی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی تھی۔

وہ انڈین حکومت کے اس مؤقف کو رد کرتے ہیں کہ انڈین ٹیم کو سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں بھیجا گیا، ان کے بقول کئی مبصرین کی دانست میں انڈین ٹیم کے پاکستان نہ آنے کی یہ حقیقی وجہ نہیں ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر باقی ٹیمیں کیوں پاکستان آتیں جبکہ گزشتہ برسوں میں تقریباً ہر اہم ٹیم پاکستان کا دورہ کرچکی ہے اور کسی کے ساتھ سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

زاہد حسین نے لکھا ہے کہ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق انڈیا کے پاکستان ٹیم نہ بھیجنے کی صرف سیاسی وجہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے حریف کو اس بڑے مالی فائدے سے محروم کرنا بھی ہے جو اسے انڈیا سے اپنی سرزمین پر میچ کی صورت میں پہنچنا تھا۔

ٹم وگمور اور زاہد حسین نے بڑے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اضافے کی گنجائش کم نکلتی ہے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انڈیا کی طرف سے پاکستان ٹیم نہ بھیجنے کی بنیادی وجہ سیاست اور وہاں انتہا پسند سیاسی جماعت کا اقتدار ہے۔ گزشتہ الیکشن میں اس جماعت یعنی بی جے پی کی سیاست کمزور ہوئی ہے جسے وہ نفرت کے ذریعے مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ رہی بات کسی واقعے کو بنیاد بنا کر پاکستان میں نہ آنے کی تو یہ کوئی جواز نہیں کیوں کہ طویل وقفے سے سہی لیکن دونوں ملکوں میں جنگوں کے بعد بھی کرکٹ ہوئی ہے۔ کارگل کے چند سال بعد اس آپریشن کے معمار اعظم جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں کرکٹ ڈپلومیسی کا سب سے اچھا دور ہم نے دیکھا ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کے مقابلوں کی سب سے خوب صورت بات یہ ہے کہ یہ ٹیمیں جب ایک دوسرے کے ملک میں کھیلتی ہیں تو عوام جتا دیتے ہیں کہ ان کے درمیان دوری کی مصنوعی دیواریں کھڑی ہیں جن کو مسلسل روابط سے ڈھایا جا سکتا ہے۔ بس یہی امکان سیاست کے شیخ و برہمن کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتا ہے۔

عام آدمی تو عام آدمی کرکٹ کے کھلاڑی بھی مخاصمت میدان میں چھوڑ آتے ہیں، اس لیے میڈیا میں انہیں جب جب موقع ملتا ہے وہ حریف کھلاڑیوں کی کھیل میں مہارت کا فراخ دلانہ اعتراف کرتے ہیں۔ کرکٹ کے امور میں ایک دوسرے کی مشکل وقت میں مدد کرنے میں بھی انہیں کبھی عار نہیں رہی۔

برصغیر میں کرکٹ ان لوگوں کی توجہ بھی حاصل کر لیتی ہے جنہیں اس کھیل سے کد ہو، اس کی ایک مثال مشہور سوشلسٹ رہنما رام منوہر لوہیا کی ہے۔ انڈیا کے نامور لکھاری اور دانشور رام چندر گوہا نے ’اے کارنر آف اے فارن فیلڈ‘ میں ان کے بارے میں بتایا ہے کہ انہیں کرکٹ سے خدا واسطے کا بیر تھا، وہ اسے نو آبادیاتی دور کی یادگار گردانتے تھے۔

61-1960 میں پاکستان کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورے پر گئی تو بمبئی ٹیسٹ کے دوسرے روز جہاں ایک طرف ہزاروں تماشائی اسٹیڈیم میں میچ دیکھ رہے تھے، دوسری طرف رام منوہر لوہیا پریس کانفرنس کررہے تھے جس میں وہ نہرو کے ساتھ ساتھ کرکٹ پر بھی خوب برسے۔

پریس کانفرنس کے بعد صحافی تتر بتر ہوگئے تو وہ ہوٹل سے باہر آئے۔ قریب میں پان کی دکان پر پہنچے، پان لیا اور پھر اسے چباتے ہوئے، دکان دار سے پوچھا:

’حنیف آﺅٹ ہوگیا کیا؟‘

آخر میں یہ عرض کرنی ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کے لیے بند کھڑکیوں کو کھولا جائے نہ کہ پہلے سے کھلی کھڑکی بند کردی جائے، کرکٹ وہ روزن دیوار ہے جس سے پہلے بھی امید کی کرنیں پھوٹتی رہی ہیں، اسے بند کرنے سے تیرگی ہی امڈے گی۔

دونوں ٹیمیں آج میچ کھیل لیں گی، شائقین اسے دیکھ بھی لیں گے لیکن بہر حال وہ اس لذت سے محروم رہیں گے جو انہیں پاکستان میں میچ ہونے کی صورت میں ملتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews آئی سی سی بیک ڈور ڈپلومیسی پاک بھارت تعلقات پاکستان انڈیا میچ پی سی بی چیمپیئنز ٹرافی حکومتیں دبئی دلی سیاستدان شائقین کرکٹ لاہور وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاک بھارت تعلقات پاکستان انڈیا میچ پی سی بی چیمپیئنز ٹرافی حکومتیں دلی سیاستدان شائقین کرکٹ لاہور وی نیوز پاکستان اور انڈیا کے انڈیا کے پاکستان چیمپیئنز ٹرافی دونوں ملکوں کے کرکٹ اور سیاست زاہد حسین نے پاکستان میں سے پاکستان ایک دوسرے کے درمیان انڈین ٹیم لاہور میں کرتے ہیں کی بنیاد میں کرکٹ انڈیا کی ٹم وگمور ہونے کی کیوں کہ کرکٹ کے ورلڈ کپ رہے ہیں سکتا ہے سے پہلے میں ہو کے بعد ہیں کہ کے لیے پر بھی اور دو کی طرف

پڑھیں:

کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 جولائی 2025ء) پاکستان نے وقتاً فوقتاً کئی بڑے اور بین الاقوامی منصوبوں پر دستخط کیے لیکن ان کا مستقبل تاحال غیر یقینی ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف پاکستان کی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر رابطوں میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔

تاہم گیس پائپ لائنوں، بجلی کی ترسیل اور ریلوے لائنوں جیسے یہ بڑے منصوبے مختلف وجوہات کی بنا پر التوا کا شکار ہیں۔

ان میں سے چند اہم منصوبوں کا جائزہ درج ذیل ہے۔ ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریل منصوبہ

سن 2023 میں طے پانے والے اس منصوبے کا مقصد وسطی ایشیا کو پاکستان کے ذریعے یورپ سے جوڑنا ہے۔ فزیبلٹی اسٹڈی کے معاہدے پر دستخط ہو چکے ہیں لیکن اس کی تکمیل کے بارے میں ماہرین کی رائے منقسم ہے۔

(جاری ہے)

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ ایک حد سے زیادہ پُرعزم منصوبہ ہے اور بظاہر یہ عملی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔

اس منصوبے کے حوالے سے کئی سوالات ہیں، جیسے کہ اس کی لاگت کون برداشت کرے گا اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کا کیا ہوگا، جو پہلے سے طے شدہ کئی منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔‘‘

دوسری جانب معروف معاشی تجزیہ کار عابد قیوم سلہری کہتے ہیں، ''ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے منصوبہ پاکستان کو یورپ سے جوڑ سکتا ہے اور کاروباری طبقہ وسطی ایشیائی ممالک کو یورپ کے ساتھ تجارت کے لیے ایک اسٹاپ اوور کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

‘‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ سکیورٹی خدشات کو رکاوٹ بنانے کے بجائے کام شروع کر دینا چاہیے کیونکہ حالات وقت کے ساتھ بہتر ہو سکتے ہیں۔

ترکمانستان-افغانستان-پاکستان-بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن

سن 2010 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ ترکمانستان سے پاکستان تک گیس کی فراہمی کے لیے تھا لیکن بھارت کے الگ ہونے اور افغانستان کی سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہے۔

عابد قیوم سلہری کے مطابق سکیورٹی مسائل اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہیں۔ ایران-پاکستان گیس پائپ لائن

سن 2010 کے معاہدے کے تحت ایران نے اپنی سرزمین پر پائپ لائن مکمل کر لی ہے لیکن پاکستان بین الاقوامی پابندیوں کے خوف سے اپنا حصہ مکمل نہیں کر سکا۔ اس تناظر میں مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، ''ہماری حکومت بغیر مکمل تیاری اور مناسب ہوم ورک کے جلد بازی میں معاہدے کر لیتی ہے اور یہی ان کے ناکام ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

‘‘ کاسا-1000 منصوبہ

سن 2015 میں شروع ہونے والا یہ منصوبہ کرغزستان اور تاجکستان سے پن بجلی کی ترسیل کے لیے تھا لیکن اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مفتاح اسماعیل کے مطابق پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی صلاحیت کے پیش نظر یہ منصوبہ اب غیر اہم ہو سکتا ہے۔

سی پیک - ایم ایل-1 ریلوے منصوبہ

سن 2013 میں طے پانے والا یہ منصوبہ فنڈنگ مسائل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے تاہم سن 2024 میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر خاقان نجیب کہتے ہیں، ''پاکستان میں میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں چیلنجز ضرور ہیں، جن میں کمزور طرزِ حکمرانی، مالیاتی پیچیدگیاں، علاقائی سلامتی کے خدشات اور سیاسی عدم استحکام شامل ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر عمل درآمد کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تو بروقت تکمیل ممکن ہے۔ کیا یہ منصوبے مکمل ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبے پاکستان کی معیشت اور عالمی رابطوں کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن ان کی تکمیل کے لیے مستقل پالیسیوں اور عزم کے ساتھ کام جاری رکھنا ہو گا۔

ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق حالیہ برسوں میں ایم ایل-1 جیسے منصوبوں پر پیش رفت امید کی کرن ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کمزور حکمرانی اور مالیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے شفاف اور مربوط نظام کی ضرورت ہے جبکہ علاقائی تعاون بھی ضروری ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سکیورٹی چیلنجز کو کم کرنے کے لیے افغانستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • کیا پاکستان کے یہ اسٹریٹیجک منصوبے مکمل ہو سکیں گے؟
  • بھارت بھاگ نکلا!
  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • ’حکومتِ پاکستان غریب شہریوں کے لیے وکلاء کی فیس ادا کرے گی‘