Express News:
2025-06-05@23:53:57 GMT

پارلیمنٹ عملی طور پر سپریم بنائیں

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

دوسری بڑی حکومتی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کے رولز میں بڑی تبدیلی کے لیے اہم ترمیم لے آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نے رولز 247, 39 اور دو میں ترمیم تجویز کر دی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت پارلیمانی سیکریٹریوں کے اختیارات کو محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو اگر منظور ہو گئی تو وفاقی کابینہ آرٹیکل 91 کے تحت قومی اسمبلی کو جواب دہ ہوگی اور پارلیمانی سیکریٹری کو جاری نوٹس کی میعاد متعلقہ وزارت یا ڈویژن کے ضمن میں ختم ہوگی۔ پی پی کی طرف سے رولز میں ترمیم کی تجاویز پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر نے جو قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے نے مجوزہ ترمیم قومی اسمبلی کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دی ہے جس کے بعد ترمیم کمیٹی اپنے اجلاس میں فیصلہ کرے گی۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر کی ذمے داری فل ٹائم اسپیکر کی ہوتی ہے جن کی غیر موجودگی میں ڈپٹی اسپیکر ایوان میں اجلاس کی صدارت کرتے ہیں اور یہ دونوں نہ ہوں تو صدارت کے لیے چیئرمین پینل کے لیے ارکان کا تقرر ہوتا ہے۔

عام طور پر ہر حکومت قومی اسمبلی میں مرضی کی قانون سازی اور کارروائی کے لیے اپنے اعتماد کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر منتخب کراتی ہے جو اس کی اپنی یا اتحادی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جن کی وجہ سے حکومت مطمئن رہتی ہے کہ ایوان میں حکومتی مرضی کے خلاف کچھ نہیں ہوگا اور اگر ایوان میں حکومتی ارکان کم اور اپوزیشن کے زیادہ ہوں تو کسی وجہ سے حکومت کی شکست کا خدشہ ہو تو اسپیکر اور قومی اسپیکر حالات سنبھال لیتے ہیں اور کسی جواز پر اجلاس ملتوی کر دیتے ہیں۔

پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں سینیٹ کے مقابلے میں کورم کا مسئلہ زیادہ رہتا ہے جب کہ وہاں تعداد 344 ہے اور سینیٹ میں چاروں صوبوں کی نمایندگی یکساں ہے اور سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر زیادہ موجود ہوتے ہیں اور قومی اسمبلی کے مقابلے میں وہاں ہنگامہ آرائی اور کورم کا مسئلہ ہوتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے جس اجلاس میں رولز میں تبدیلی کی ترمیم پیش کی اس روز اسپیکر قومی اسمبلی موجود نہیں تھے اور وزرا ویسے بھی اجلاسوں میں دلچسپی نہیں لیتے اور قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں شرکت کے بجائے اپنے دفتر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایوان میں بہت ہی کم آتے ہیں جس کی وجہ سے ارکان قومی اسمبلی بھی ایوان سے غیر حاضر رہ کر وزیروں کے آئین کے تحت ارکان اسمبلی کی ذمے داری ایوان میں موجودگی زیادہ اہم ہے کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے ہیں مگر اجلاسوں کے دوران اگر ان کی حاضری چیک کی جائے تو وہ کم اور وزیروں کے دفاتر میں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ انھیں وزیروں سے اپنے کام لینے ہوتے ہیں۔

اس لیے وہ اپنا اصل کام نہیں کرتے۔ اگر قومی اسمبلی آئیں تو حاضری لگا کر الاؤنس پکا کر لیتے ہیں اور ایوان میں منہ دکھا کر چلے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم قومی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد اپنا زیادہ وقت پارلیمنٹ سے باہر کی مصروفیات کو دیتے ہیں۔ بجٹ یا اہم مسئلے پر ایوان میں آتے ہیں۔

وزیر اعظم کے اگر ایوان میں آنے کی خبر پکی ہو تو اسپیکر، وزرا سمیت ارکان کی بڑی تعداد ایوان میں موجود ہوتی ہے اور ارکان قومی اسمبلی کو بھی وزیر اعظم سے ملنے اور چہرہ دکھانے کا موقعہ مل جاتا ہے اور اپنا کام بھی کرا لیتے ہیں کیونکہ وزیر اعظم سے تو ان کی مہینوں ملاقات ممکن نہیں ہوتی اور ان کے لیے یہی موقعہ وزیر اعظم سے ملنے کا ہوتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی اور ظفر اللہ جمالی پارلیمنٹ زیادہ آتے تھے تو ان سے ارکان کو ملنے کا زیادہ موقعہ ملتا تھا جب کہ باقی وزرائے اعظم صرف کابینہ کو اہمیت دیتے تھے اور پارلیمنٹ آنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

 پارلیمنٹ خود کو سپریم اس لیے سمجھتی ہے کہ وہ قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے جب کہ سپریم وہ نام کی ہے کیونکہ جب وزیر اعظم، وزرا اور ارکان قومی اسمبلی اپنے ادارے کو اہمیت نہیں دیتے اور اکثر غیر حاضر رہتے ہیں کورم پورا نہ ہونے کی شکایات ہمیشہ ہی رہتی ہیں۔

وزرا کی طرف سے پارلیمانی سیکریٹری ایوان میں ادھورے جوابات دیتے ہیں جس سے ارکان کو ان کے سوالوں کے مکمل جواب نہیں ملتے تو پارلیمانی سیکریٹریوں کے تقرر کا کوئی فائدہ نہیں۔ حکومت نوازنے کے لیے ان پارلیمانی سیکریٹریوں کو گاڑیاں اور مراعات بھی دیتی ہے جب کہ وہ خزانے پر اضافی بوجھ ہوتے ہیں اور وزیر ایوان میں آنا ضروری نہیں سمجھتے، ان کی وزارتیں بھی پارلیمانی سیکریٹریوں کو اہمیت دیتی ہیں نہ مکمل معلومات جس کی وجہ سے ارکان کو ہمیشہ وزارتوں سے سوالات کے جواب نہ ملنے کی شکایت رہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی مجوزہ تجویز وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کی ہے جو اچھی تجویز ہے جس کی منظوری سے وزرا تو ایوان میں آنے کے پابند ہو جائیں گے مگر وزیر اعظم پابند نہیں ہوں گے جب کہ وزیر اعظم اگر قومی اسمبلی خود آئیں تو کورم کا مسئلہ خود حل ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے پاس تو دیگر سرکاری مصروفیات کا جائز جواز ہو سکتا ہے مگر وزیروں اور ارکان اسمبلی کو بھی ایوان کو جواب دہ بنانے کی اشد ضرورت ہے تب ہی پارلیمنٹ خود کو سپریم کہلانے کی حق دار ہوگی۔ قومی اسمبلی میں کبھی وزیر آ بھی جاتے ہیں مگر سینیٹ میں آنا وہ اپنی توہین سمجھتے ہیں جب کہ سینیٹ بھی پارلیمنٹ ہے مگر سینیٹ سے لیے گئے وزیر بھی سینیٹ سے دور ہو جاتے ہیں۔

پارلیمنٹ کو حقیقی طور سپریم بنانے کے لیے وفاقی کابینہ کو ایوان میں جواب دہ بنانے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم کی غیر موجودگی میں وزیروں پر اپنے دفاتر میں بیٹھنے پر پابندی بھی لگائیں کہ وہ اپنے دفاتر کے بجائے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں لازمی طور اجلاس جاری رہنے تک موجود رہیں جس سے ارکان بھی وزیروں سے وہیں مل لیا کریں گے اور ایوانوں میں کورم نہ ہونے کا اہم و دیرینہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔  

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کے پیپلز پارٹی اجلاس میں ایوان میں کے اجلاس دیتے ہیں سے ارکان ہوتے ہیں جواب دہ ہیں اور ہے اور

پڑھیں:

وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے ، وزیراعظم شہبازشریف کا اجلاس سے خطاب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 جون2025ء) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ریلوے کو جدید بنیادوں پر ترقی دینے کو قومی پالیسی کا اہم جزو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معاشی اور صنعتی ترقی کے لئے ملک بھر کے ریلوے انفراسٹرکچر کی پائیدار بنیادوں پر تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے ، وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دے۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو اپنی زیر صدارت پاکستان ریلویز سے متعلق امور پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ریلوے نظام کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،ملکی معاشی اور صنعتی ترقی کے لئے ملک بھر کے ریلوے انفراسٹرکچر کی پائیدار بنیادوں پر تعمیر نو کرنے کی ضرورت ہے، علاقائی تجارت و روابط کے لئے ریلوے کو جدید بنیادوں پر ترقی دینا قومی پالیسی کا اہم جز ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے ہدایت کی کہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے کو اپنا نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے حوالے سے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔وزیر اعظم نے گوادر کو پاکستان ریلویز نیٹ ورک سے منسلک کرنے کا کام تیز تر کرنے کی بھی ہدایت کی ۔ وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے وزیر اعظم کو پاکستان ریلویز میں جاری اصلاحات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ریلویز میں مزید سرمایہ کاری کی بے پناہ استطاعت ہے، بڑے اور اہم ریلوے سٹیشنز پر جدید انفارمیشن ڈیسک بنائے جا رہے ہیں، لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے ریلوے سٹیشنز پر صفائی ستھرائی کا نظام آؤٹ سورس کیا گیا ہے،ٹرینز اور ریلوے سٹیشنز میں فراہم کی جارہی خوراک کی نگرانی کے حوالے سے ریلویز اور صوبائی فوڈ اتھارٹیز مل کر کام کر رہی ہیں۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ عوام کی سہولت کے لئے عرصہ دراز سے بند سروسز کا دوبارہ آغاز کیا گیا ہے، بولان میل کو حال ہی میں روزانہ سروس کی بنیاد پر شروع کیا گیا ہے جبکہ ڈیرہ غازی خان اور خوشحال خان خٹک ایکسپریس کو بھی بحال کیا گیا ہے، ریلوے کی سکھر، خانیوال اور کوہاٹ میں موجود کنکریٹ سلیپر فیکٹریز کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، ملتان اور سکھر میں موجود ریلوے کے ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور ریسٹ ہاؤسز کو ریونیو شئیرنگ کی بنیاد پر آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے، رائل پام گالف اینڈ کنٹری کلب لاہور کو نیلام کیا جا رہا ہے جہاں پر فائیو سٹار ہوٹل قائم ہونے کی تمام تر استطاعت موجود ہے ۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ریلویز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے ڈیجیٹائزیشن کا کام تیزی سے کیا جا رہا ہے، ریلوے کے آئی ٹی ڈائریکٹوریٹ کی ری اسٹرکچرنگ کا کام تیزی سے جاری ہے، ٹرینز میں مفت وائی فائی سروسز فراہم کی جارہی ہیں ، رابطہ موبائل فون ایپلی کیشن کو بھی جدید بنایا جا رہا ہے جس کے تحت ٹرین ٹکٹس بک کئے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ 155 ریلوے سٹیشنز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے جس سے حکومت کو کئی ملین روپے کی بچت ہوگی، رائٹ سائزنگ پالیسی کی تحت 17101 آسامیاں ختم کی گئی ہیں جبکہ مزید 5695 آسامیاں مستقبل میں ختم کی جائیں گی، بریفنگ کے مطابق پاکستان ریلویز ایڈوائزری اینڈ کنسلٹنسی سروسز، ریل کاپ، پاکستان ریلویز فریٹ ٹرانسپورٹ کمپنی اور پراجیکٹ امپلی منٹیشن یونٹ ختم کر دیئے گئے، 10 ارب روپے کی مالیت کی ریلوے کی زمین واگزار کرائی جا چکی ہے، حکومت پنجاب کے ساتھ مل کر لاہور سے راولپنڈی کے درمیان ہائی سپیڈ ٹرین سروس ، لاہور اور راولپنڈی سٹیشنز کی اپ گریڈیشن اور ریلوے کی پنجاب میں موجود آٹھ برانچ لائنز پر سب اربن ٹرین سروسز کے منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ شاہدرہ باغ سے کوٹ لکھپت تک ریلوے لائن کے دونوں اطراف گرین بیلٹ بنائی جائے گی جبکہ مین لائنز کے دونوں اطراف پنجاب کے محکمہ جنگلات کے تعاون سے پھل دار درخت لگائے جائیں گے، حکومت بلوچستان کے ساتھ مل کر سریاب-کچلاک اور کوئٹہ-چمن ریلوے لائنز سیکشنز کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔بیان کے مطابق وزیراعظم نے پاکستان ریلویز میں جاری اصلاحات اور نئے منصوبوں کی رفتار پر وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کو شاباش دی ۔ اجلاس میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی ، وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ ، وزیر مملکت برائے ریلوے بلال اظہر کیانی اور متعلقہ اعلیٰ سرکاری افسران نے شرکت کی۔\932

متعلقہ مضامین

  • نیوزی لینڈ؛ اسمبلی میں ’ہاکا‘ احتجاج کرنے پر قبیلہ ماؤری کے 3 ارکان معطل
  • اپوزیشن کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی کے لیے 6 نام تجویز
  • وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس، ایک ہزار ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری
  • وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اہم اجلاس، بجٹ اہداف کی منظوری سے متعلق غور
  • وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی مجلسِ عاملہ کی ملاقات
  • وزیر اعظم کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس، بجٹ اہداف کی منظوری دی جائے گی
  • وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے کے لئے ریلوے اپنے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے ، وزیراعظم شہبازشریف کا اجلاس سے خطاب
  • عمر ایوب کا اسپیکر قومی اسمبلی کو خط، ریفرنس کی تفصیلات طلب
  • بجٹ 2025ء صدر نے قومی اسمبلی کا اجلاس 10 جون کو طلب کر لیا 
  • وفاقی بجٹ 2025-26کی تیاریاں مکمل، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بجٹ اجلاس طلب