ٹرمپ کا دل کون جیتے گا: پاکستان یا بھارت ؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار امریکی صدارت کا منتخب تاج پہن کر امریکا سمیت ساری دُنیا میں تھر تھلی مچا رہے ہیں۔ٹرمپ نے آتے ہی صاف صاف کہہ دیا تھا کہ جو اُن کے اور امریکی مفادات میں نہیں ہے ، وہ فرد ہو، گروہ ہو، ادارہ ہو یا کوئی حکومت یا حکمران ، اُس کے وہ دوست نہیں ہیں ۔
انھوں نے سعودی ولی عہد، جناب محمد بن سلمان، کی تعریف کرتے ہُوئے انھیں اچھا دوست قرار دیا ہے کہ سعودی کراؤن پرنس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے کی مبارکباد دیتے ہی وعدہ کیا کہ وہ امریکا میں600ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے ۔ ٹرمپ کو اِس پر شکر گزار ہونا چاہیے تھا لیکن انھوں نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے برسرِ مجلس کہا ہے :’’ سعودی عرب کو امریکا میں ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ سعودی عرب کو تیل کے نرخ بھی نیچے لانے چاہئیں تاکہ رُوس کو یوکرائن میں جنگ بند کرنے پر مجبور کیا جا سکے ۔
یہ ہیںاصل ٹرمپ صاحب!موصوف بین السطور بات کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ امریکا میں مقیم لاکھوں غیر قانونی ،غیر ملکی افراد کوٹرمپ نکال باہر کرنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے غزہ غصب کرنے کی بات بھی کی ہے، اپنے ہمسائے کینیڈا کو بھی دھمکایا ہے اور میکسیکو کو بھی ۔ چین پر بھی نیا دباؤ ڈالا ہے اور بہت دُور واقع ڈنمارک کو بھی، یہ کہہ کر کہ تمہارا ’’ویران‘‘ جزیرہ(گرین لینڈ) امریکا لینا چاہتا ہے۔
برطانوی اخبار (فنانشل ٹائمز) نے خبر دی ہے کہ صدر ٹرمپ اور ڈنمارک کی وزیر اعظم (Mette Frederiksen) کے درمیان، فون پر، گرین لینڈ کے مسئلے پر خاصی گرما گرمی ہُوئی ہے ۔ایسے میں ہمارے ہاں سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ہمدرد ہوں گے یا بھارت کے ساتھی اور ساجھی؟ ٹرمپ نے اپنی کابینہ اور انتظامیہ میں جس طرح بے تحاشہ بھارتی نژاد ہندو امریکیوں کو شامل کیا ہے ، اِس سے بھی صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ بھارت کو کیا مقام دے رہے ہیں ۔ پھر پاکستان کیا کرے ؟
غیر موافق اور ناموزوں حالات کے باوصف پاکستان ٹرمپ صاحب اور اُن کی انتظامیہ سے مایوس نہیں ہے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف ٹرمپ کو صدر بننے کی مبارکباد بھجوا چکے ہیں ۔ ٹرمپ کے صدارتی حلف اُٹھاتے ہی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، شفقت علی خان، کی جانب سے کہا گیا:’’ پاکستان کے لیے امریکا سے (بہتر) تعلقات بہت اہم ہیں۔یہ دہائیوں پرانی اور مضبوط میراث پر مبنی ہیں۔ ہم اِنہی تعلقات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نئی امریکی انتظامیہ سے منسلک رہنے کے منتظر ہیں۔
اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اصول برقرار رکھنے پر بھی زور دیتے ہیں۔ اِنہی اصولوں پر ریاستی تعلقات کی تشکیل ہوتی ہے ۔‘‘ ڈپلومیسی کی زبان میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ ٹرمپ انتظامیہ کو جو محتاط پیغام دے سکتی تھی، دے دیا ہے ۔ پاکستان کے کرتا دھرتا بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت کے مقابلے میں واشنگٹن میں پاکستان کی کیا اور کتنی حیثیت ہے ، لیکن ریاستیں تمام تر نازک حالات کے باوجود عالمی طاقتوروں سے اپنے تعلقات منقطع ہونے یا خراب کرنے کا رسک نہیں لے سکتیں ۔ پاکستان بھی اِسی اصول پر گامزن ہے ۔
پاکستان کے دانشور حلقوں میں مگر کہیں نہ کہیں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ ٹرمپ کے آنے پر بھارت کے مقابل امریکا، پاکستان سے کیسے تعلقات رکھے گا؟ اِسی سوچ اور تشویش پر مبنی گزشتہ روز اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک (CISS) میں گول میز کانفرنس منعقد ہُوئی ہے ۔ اِس کا موضوع یہ تھا Trump 2.
مسعود خالد جو چین میں پاکستان کی سفارتکاری کے فرائض انجام دے چکے ہیں ۔مذکورہ تمام سابق اور بزرگ سفارتکاروں نے مشترکہ طور پر تشویش کا اظہار کرتے ہُوئے کہا: ’’ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت کے دوران پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات محدود رہیں گے ۔ ‘‘ یہ بھی کہا گیا:’’ بھارت اور امریکا کے بڑھتے تعاون اور امریکا و چین کے درمیان بڑھتی ہُوئی عداوت کے تناظر میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں متوقع گرمجوشی کا عنصر مفقود ہی رہے گا۔‘‘ پاکستان کے مذکورہ تجربہ کارسابق سفارتکاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’واشنگٹن ، اسلام آباد کی تزویراتی اہمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان کو بنیادی طور پر بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات کی عینک سے دیکھتا ہے ۔‘‘
بھارت سے پاکستان کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں۔ جب سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھی بھارتی آئین سے ختم کر دی ہے، تب سے یہ تعلقات مزید نچلی ترین سطح پر آ چکے ہیں ۔ سفارتکاری بھی بند ہے اور تجارت بھی ۔ اِس عمل کو 5 سال گزر چکے ہیں۔ اب ٹرمپ انتظامیہ کا جھکاؤ اگر واضح طور پر نئی دہلی کی جانب چلا جاتا ہے تو پاکستان کو نئے سرے سے اپنی حرکیات کا جائزہ لینا پڑے گا۔
بھارتی وزیرخارجہ، ڈاکٹر جئے شنکر، نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی واشنگٹن جا کر بھارتی سفارتخانے میں اخبار نویسوں سے جو گفتگو کی ہے، اس میں تو موصوف نے غیر مبہم الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ’’بھارت کا ابھی پاکستان سے تجارت کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے، اس لیے کہ یہ پاکستان ہے جس نے خود پاک بھارت تجارتی تعلقات منقطع کیے تھے ۔‘‘ یہ بھارتی تیور ہیں ۔ اور اِن تیوروں کے عقب میں ہم امریکی تیوروں کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تیور پاکستان کے مفاد میں تو ہر گز نہیں ہیں ۔
اوریہ بھارت ہے جس کے وزیر خارجہ، جئے شنکر، نے ٹرمپ کے صدارتی حلف اُٹھاتے ہی نئے امریکی وزیر خارجہ ( مارکو روبیو) سے فوراً اور پاکستان سے پہلے ملاقات کر لی ہے ۔ اِسی سے ہم امریکی اور بھارتی قربتوں اور ترجیحات کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ ملاقات کے بعد مارکو روبیو اور جئے شنکر نے واشنگٹن میں مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی ۔ اِس کانفرنس میں شریک جملہ اخبار نویسوں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ جئے شنکر کی موجودگی میں مارکو روبیو اپنی گفتگو میں ایسے اشارے بار بار دیتے رہے جن کا معنی اور مقصد یہ لیا گیا کہ امریکا ایشیا بحرالکاہل (Asia Passific) میں بھارتی کردار کو آگے بڑھانے کا خواہاں ہے ۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ جب مارکو روبیو سینیٹر تھے ، تب بھی انھوں نے بھارت کو امریکا کا اہم اتحادی بنانے کے لیے قانون سازی کی زبردست حمائت کی تھی ۔ روبیو کے بھارت کی جانب اِس جھکاؤ سے پاکستان بجا طور پر تشویش میں مبتلا ہے ۔ شاید اِسی لیے واشنگٹن میں ایک معروف تھنک ٹینک (Wilson Center) سے وابستہ جنوبی ایشیا امور کے ماہر(Michael Kugelman) کا کہنا ہے :’’ ٹرمپ کا وہائیٹ ہاؤس ممکنہ طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کم ترجیح دے گا۔ اِس سے اسلام آباد پر دباؤ بڑھ سکتا ہے ۔‘‘ ایسے میں چاہیے تو یہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے پاکستان کے وزیر خارجہ ( اسحاق ڈار) کو بھجوایا جاتا ، مگر ڈار صاحب بوجوہ اِس تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔اور اب14فروری2025کو واشنگٹن میں ٹرمپ اور نریندر مودی کی مبینہ بھرپور ملاقات ہو گئی ہے ۔
دونوں کی ملاقات کے بعد ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان کے خلاف جو الزام لگایا گیا ہے ، پاکستان نے اِسے مسترد کر دیا ہے ۔ مودی کو ٹرمپ سے ملاقات میں کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں اور کئی ناکامیاں بھی ۔تشویش کی بات یہ ہے کہ امریکا سے نہائت جدید اسلحہ خریدنے کی ڈِیل میں بھارت کامیاب ہو گیا ہے ۔ یہ بھی ساتھ ہی مگر کہا جارہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مودی کو امریکی اسلحہ خریدنے پر مجبور کیا ہے ۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی ٹرمپ کا دل جیتنے کی نئی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پاکستان واشنگٹن میں پاکستان کے پاکستان کی کرنے کے چکے ہیں ٹرمپ کے رہے ہیں کو بھی یہ بھی دیا ہے
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
پاک افغان تعلقات میں بہتری کی بنیادی کنجی باہمی اعتماد کا ماحول،دو طرفہ بات چیت،باہمی ہم آہنگی،ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی موثرحکمت عملی سے جڑی ہوئی ہے۔ پاک افغان تعلقات میں موجود بداعتمادی کا ماحول، جنگ و جدل اور تنازعات کو آگے بڑھا کر پورے خطے کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ کچھ عرصے قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں مکمل طور پر ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرنے پر تیار نہیں ہیں۔لیکن اب حالات بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور دونوں طرف سے سیاسی جمود ٹوٹا ہے۔
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا دورہ کابل اور افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند سمیت افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے باہمی امور پر تفصیلی ملاقاتیں اور بات چیت کا عمل برف پگھلنے کا واضح اشارے دے رہا ہے۔اگرچہ فوری طور پر پاک افغان تعلقات میں بہت بڑے بریک تھرو ہونے کے امکانات محدود ہیں۔لیکن اب اگردو طرفہ بات چیت کا عمل آگے بڑھتا ہے اور دونوں ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ دو طرفہ معاملات پر زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر خطے میں بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں گے۔لیکن اس بات کا انحصار دونوں ملکوں کی باہمی سفارت کاری اور ڈپلومیسی پر ہے کہ وہ کس طریقے سے دو طرفہ معاملات میں موجود مسائل پر سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کے بعد آگے لے کر چلتے ہیں۔
اس وقت پاک افغان تعلقات میں خسارے یا بداعتمادی کا بنیادی نقطہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی ہے۔پاکستان طالبان حکومت کو ثبوت بھی پیش کر چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی کو افغان افغان حکومت کی جانب سے بھی مختلف نوعیت کی سہولت کاری حاصل ہے۔ یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کو اس امریکی اسلحہ تک بھی رسائی حاصل ہے جو 2021 میں امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا تھا۔
پاکستان کا یہ موقف ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس امریکی اسلحے تک ٹی ٹی پی کی رسائی کو ناممکن بنایا جائے جب کہ امریکا افغان طالبان سے افغانستان میں اپنا چھوڑا ہوا اسلحہ واپس لے۔ پاکستان بار بار اس موقف کا اعادہ افغانستان سمیت عالمی دنیا میں کر رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن گئی ہے ۔ اسحاق ڈار کے دورہ کابل میں بھی سرحد پار دہشت گردی گفتگو کا سرفہرست نقطہ تھا۔ اسحاق ڈار نے افغانستان میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی مختلف سرگرمیوں اور مطلوب افراد کی حوالگی کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔
پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی جو لہر ہے یا بلوچستان اور خیبر پختون کے سیکیورٹی سے جڑے حالات ہیں ان کا تعلق عملی طورپرافغانستان سے جڑا ہوا ہے۔کیونکہ جب تک افغانستان کی حکومت ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرکے انھیں ختم نہیں کرتی اور مطلوبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے نہیں کرتی، اس وقت تک پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا اور یہ کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی ۔
دیکھنا یہ ہوگا کہ اس دورے کے بعد طالبان حکومت، پاکستان کے جو بھی تحفظات ہیںاس پر کس طرز کے سنجیدہ اقدامات اٹھاتی ہے اور کیسے باہمی معاملات کو بہتر بنانے میں اپنی کوششیں دکھاتی ہے۔کیونکہ پاک افغان تعلقات کا حل محض باتوں سے ممکن نہیں ہے جب تک افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کے خلاف موثر اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے بہتری کا حل آسانی سے سامنے نہیں آئے گا۔
پاکستان کی یہ سوچ تھی کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے گی تو وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی اور خطے میں پاکستان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش بھی اس کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو گی۔لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہو سکا اور ہم کو پاکستان افغانستان تعلقات میں مختلف نوعیت کے بگاڑ دیکھنے کو مل رہے ہیں۔پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی بہتری میں ایک بڑا چیلنج دہشت گردی ہی ہے۔ افغانستان کے داخلی مسائل کا جائزہ لیں تو وہاں جمہوریت نہیں ہے، جب کہ دہشت گرد گروہوں کی موجودگی جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
افغان حکومت ب مختلف گروپ بندیوں کا شکار ہے، اور پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی واضح نہیں ہے اور اسی وجہ سے ہمیں افغانستان کی اپنی پالیسی میں تضادات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ افغان میڈیا نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ افغان حالات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے۔افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملے کو بھی افغان میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔خود بھارت بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور افغانستان تعلقات میں بہتری کے پہلو سامنے آئیں۔ بھارت کی کوشش ہوگی کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی موجود رہے تاکہ پاکستان افغانستان کے دباؤ میں رہے اور اس کا فائدہ بھارت کو ہو۔
پاکستان کو یہ بھی سمجھناہوگا کہ امریکا بھی افغان پالیسی میں تبدیلی لارہا ہے اور پاکستان پر حد سے زیادہ انحصار کرنے کی بجائے وہ عملا متبادل آپشن دیکھ رہا ہے۔اس لیے پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے وقت کے تقاضے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے ۔پاکستان کو افغان قیادت یا حکومت میں اس تاثر کو مضبوط بنانا ہوگا کہ ہم بطور ریاست افغانستان کو مضبوط بنیادوں پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اسی طرح افغان حکومت ضرور بھارت سے تعلقات کو بہتر بنائے مگر یہ پاکستان کی قیمت یا پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے سے نہیں جڑا ہونا چاہیے۔
جہاں ہمیں علاقائی ممالک کا تعاون درکار ہے وہیں عالمی قوتوں کے بغیر بھی یہ جنگ نہیں جیتی جا سکے گی۔اب اگر دونوں ممالک نے بات چیت کا دروازہ کھولا ہے تواسی راستے کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا دونوں ہی ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس لیے مذاکرات کے دروازے کو دونوں اطراف سے بند نہیں ہونا چاہیے اور جو بھی قوتیں پاکستان افغانستان تعلقات میں خرابی یا رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتی ہیں ان کا مقابلہ دونوں ممالک کی مشترکہ کوششوں سے ہی ممکن ہے۔اچھی بات یہ ہے حالیہ دو طرفہ گفتگومیں افغانستان نے پاکستان کو یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی جو یقینی طورپر امید کا پہلو ہے کہ افغانستان حکومت بھی سمجھتی ہے کہ ٹی ٹی پی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میںبگاڑ بڑھ رہا ہے۔