’’فلم انڈسٹری میں کامیابی کےلیے صرف محنت کافی نہیں!‘‘ تاپسی پنو کا تلخ انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
بالی ووڈ کی معروف اداکارہ اور پروڈیوسر تاپسی پنو جو اپنی بے باک گفتگو اور صاف گوئی کےلیے مشہور ہیں، انھوں نے شوبز انڈسٹری کا ایک تلخ رخ دکھایا ہے۔
تاپسی کا کا تعلق کسی فلمی گھرانے سے نہیں ہے، اس لیے وہ نئے فنکاروں کو اپنے تجربات کی بنیاد پر قیمتی مشورے دیتی ہیں۔ حال ہی میں ایک انٹرویو میں انہوں نے فلم انڈسٹری میں کامیابی کےلیے محنت کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل پر بھی روشنی ڈالی۔
تاپسی پنو نے ممبئی میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ محنت کرنے سے ہر چیز حاصل ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’اگر آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ سب کچھ برابر اور انصاف کے ساتھ ہوگا، تو ایسا نہیں ہے۔‘‘
تاپسی کا کہنا تھا کہ ’’فلمی دنیا میں ناانصافی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کئی تلخ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کڑوی باتیں سننا پڑتی ہیں۔ اس لیے اپنی انا کو سائیڈ پر رکھ کر کام کرنا ہوگا۔ اگر آپ اپنی عزت نفس کو خاطر میں لائیں گے، تو پھر آپ جلد ہی مایوس ہو جائیں گے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف بالی وڈ میں نہیں ہوتا، بلکہ ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاپسی نے واضح کیا کہ وہ خود کو فلم انڈسٹری کا شکار نہیں سمجھتیں، بلکہ انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا مقام بنایا ہے۔
تاپسی پنو نے نئے فنکاروں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے کیریئر میں ناکامی کی صورت میں ایک بیک اپ پلان ضرور رکھیں۔ انہوں نے کہا، ’’میرے پاس پلان بی موجود تھا۔ میں نے انجینئرنگ کی تھی، میرے پاس نوکری تھی، اور میں ایم بی اے کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے اپنے تمام آپشنز کو کھلا رکھا ہوا تھا۔‘‘
تاپسی نے کہا کہ فلم انڈسٹری میں باہر سے آنے والے اداکاروں کی کامیابی صرف ٹیلنٹ پر نہیں، بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ ناظرین ان کے کام کو کیسے قبول کرتے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی، ’’ہماری حیثیت کا انحصار ناظرین پر ہے۔ اگر ناظرین سینما گھروں میں ہیرو سینٹرک فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں اور ہماری نہیں، تو ہم کیسے کامیاب ہوں گے؟ یہ نہیں ہے کہ انڈسٹری ہمیں باہر نکال دیتی ہے، بلکہ وہ ہمیں مواقع دیتی ہے۔‘‘
تاپسی پنو کا فلمی کیریئر محنت، لگن اور ورسٹائل اداکاری کی بہترین مثال ہے۔ انہوں نے نہ صرف ہندی سنیما، بلکہ تامل، تیلگو اور ملیالم فلم انڈسٹری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: فلم انڈسٹری میں تاپسی پنو
پڑھیں:
سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔
قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔
آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔
آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔