صرف اپنے ملک کی فکر کیجیے!
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
متحدہ عرب امارات، سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے۔ آبادی بھی ہمارے مقابلہ میں بس واجبی سی ہے۔ صرف ایک کروڑ نفوس، جس میں سے نوے فیصد لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں یعنی غیرملکی ہیں۔
سات ریاستوں میں دوبئی کو تقریباً پوری دنیا جانتی ہے۔ دراصل دوبئی تضادات کا ایک مجموعہ ہے جس کی مثال دنیا میں شاید کہیں موجود ہو، مگر اسلامی دنیا میں اس طرح کا بھرپور شہر دیکھنے میں نظر نہیں آتا۔ دوبئی ایک حددرجہ ترقی یافتہ اور زندہ دل شہر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کا خیال ہو کہ دوبئی، تیل کی آمدنی کی بدولت ترقی کی اوجِ ثریا پر براجمان ہے۔ مگر یہ گمان مکمل طور پر ناقص ہے۔ سات ریاستوں پر مشتمل اس ملک میں دوبئی، وہ واحد ریاست ہے جہاں تیل کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی جو زمینی دولت، ابوظہبی یا متصل ریاستوں کو حاصل ہے، دوبئی اس سے یکسر محروم ہے۔ مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبئی، تیل کے بغیر محیرالعقول ترقی کیسے کر گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات، مکمل طور پر اسلامی مملکت ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کے قوانین بھی اسلامی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں مغربی مالک سے گورے، ہر جانب نظر آتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر ملک سے لوگ آ بھی رہے ہیں اور روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دراصل اس ملک کی اصل کامیابی اس کے حکمرانوں کی وہ حددرجہ ترقی پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے کی عملی پالیسیاں ہیں، جس کی مثال اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔دراصل ہوا یہ ہے کہ دوبئی کے حکمرانوں نے یہ ٹھان لی کہ وہ کسی لحاظ سے بھی دنیا سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ جدید دنیا کے تمام تقاضے پورے کریں گے اور پھر ریاست، ان معاملات پر پہرا دے گی۔
دوبارہ عرض کروں گا کہ انھوں نے دین کو ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا۔ ہمارے جیسے ملکوں سے مزدور منگوائے اور ایک مستحکم انفرااسٹرکچر بنا ڈالا۔ ماڈرن سڑکیں، جدید ہوٹل، فقید المثال شاپنگ مالز قائم کیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ اتنی سختی سے قائم کی کہ کوئی کار، رات کو بھی سرخ بتی کراس کی جسارت نہیں کر سکتی۔ امن وامان اتنے جبر سے مستحکم کیا کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ سرمایہ کو غیرمعمولی تحفظ دے ڈالا۔ مگر معاملہ صرف اس مقام پر نہیں رکتا۔ دوبئی کے حکمرانوں نے پورے ملک میں بارز، شراب خانے، نائٹ کلب اور Personal Pleasures پر کسی قسم کی قدغن نہیں رکھی۔ یہ نازک نکتہ کم ازکم ہمارے جیسے دقیانوس ملک کے لیے کافی معنی خیز ہے۔
نتیجہ کیا ہوا۔ پوری دنیا سے سرمایہ دوبئی پہنچنا شروع ہو گیا۔ کرہ ارض پر جتنے بھی امیر لوگ ہیں، انھوں نے اپنے گھر دوبئی میں بنا لیے۔ ہمارے ملک کے صدور، وزراء اعظم اور بڑے آدمی، تمام کے تمام، آج بھی دوبئی میں جائیداد خریدنا محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھتے ہیں۔ نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کے ہر صحیح یا غلط طریقے سے امیر بننے والے شخص کا دوبئی میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ موجود ہے۔ دوبئی ہلز میں، بڑے بڑے محلات، پاکستانیوں کے زیرتصرف ہیں۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ کون سا محل کس کا ہے۔
بہرحال دوبئی آج کی دنیا کا تیزرفتار ترقی کرنے کا ایک شاندار نمونہ بن چکا ہے۔ ہاں ایک عرض کرتا چلوں۔ وہاں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز، قطعاً حکومت کے خلاف ایک لفظ لکھ یا بول نہیں سکتے۔ مگر ترقی کی قیمت اگر اظہار رائے پر سخت پابندی ہے، تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ ہمارے بدنصیب ملک میں اظہار رائے پر ڈھیل پرویز مشرف کے دور میں برپا ہوئی اور اب تو یہ سوشل میڈیا کی اس غلاظت میں بدل چکی ہے جس نے ملک کو بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر بے مثال ترقی، اس مجنونانہ اظہار رائے پر مکمل پابندی سے برپا ہوتی ہے تو پھر ہمیں ترقی کو چن لینا چاہیے۔ آپ دوبئی کو رہنے دیجیے۔ کیا چین کی خیرہ کن ترقی کے ساتھ ساتھ میڈیا کا عنصر موجود ہے، جواب مکمل نفی میں ہے۔
دوبئی کی داخلی ترقی سے ہٹ کر اب میں ایک حددرجہ نازک نکتہ کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ اور وہ متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی ہے۔ ان کی بیرونی ساکھ کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ ہمارا ملک کسی بھی ملک کا دشمن نہیں۔ کسی بھی مذہبی ریاست سے ہمارا کوئی تنازع نہیں۔ ہم سب کے دوست ہیں اور کھلے بازوؤں سے ہر ایک کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ جو فکری اختلاف تھا یا ہے، اسے بھی انھوں نے تجارت کے ذریعے ختم کر ڈالا۔ ایران پر بھرپور پابندیوں کے باوجود، ایرانی تیل کی بین الاقوامی نقل وحرکت، دوبئی کی بندرگاہوں سے ہی ہوتی ہے۔
کیا یہ خارجہ پالیسی کی معراج نہیں کہ وہ ہندوستان سے بھی قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور پاکستانی بھی دوبئی کو اپنا دوسرا گھر گردانتے ہیں۔ سعودی عرب بھی وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے دشمن ممالک، دوبئی کے ساتھ حددرجہ خوشگوار تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آپ دوبئی جایئے، تو آپ کو ان گنت مقامات پر پاکستانی اور ہندوستانی اکٹھے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ یہودی مرد اور خواتین، اپنے روایتی لباس میں بڑے سکون سے چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مغربی ممالک کی خواتین اسکرٹ پہنے ہوئے محفوظ طریقے سے چہل قدمی کرتی نظر آئیں گی۔ یعنی کہ دنیا کے ان گنت ممالک سے مرد اور خواتین اپنی مرضی کا لباس پہن کر باہر آ سکتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔
اب میں اپنے اس بیانیہ کو الٹا کر کے پاکستان کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہمارے ملک کو ستر برس سے ایک ادنیٰ لیبارٹری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہماری درسی کتب میں باور کروایا جاتا ہے کہ ہمارا ملک، اسلام کا قلعہ ہے۔ اس فقرے کا مطلب کوئی بھی باشعور انسان نہیں سمجھ پاتا اور نہ دوسرے کو سمجھا سکتا ہے۔ ہم اور دیگر بہت سارے مسلمان ملک ہیں۔ مگر ہم اسلام کا قلعہ کیسے بن گئے۔ ہندوستان میں بھی اتنے ہی مسلمان ہیں، جتنے پاکستان میں۔ پھر ہماری صف بندی، اتنی مختلف کیوں ہے۔ اور اس مفروضے پر عمل کرنے یا اسے ترویج دینے سے ہمارے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ اگر ہمارے اردگرد مذہب کی فصیلیں ہیں تو پھر شدت پسند، جہادی مسلمان، وہ ہم پر حملہ آور کیوں ہیں؟ دراصل ضیاء الحق نے ہمارے معاشرے کی سماجی اور مذہبی ترکیب ہی بدل ڈالی ہے۔ اور شاید اب ہمیں نارمل ہونا آتا ہی نہیں ہے۔
عجیب معاملہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ پوری دنیا کی فکر ہے۔ مگر اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ فلسطین سے لے کر برما کے روہنگیا مسلمان ہوں یا چین کے اوگر لوگ، ہم ہر طرف لفظی بیان بازی اور شور مچانے سے گریز نہیں کرتے۔ اپنے ملک کی خیرخواہی سے ہمیں کوئی یارا نہیں۔ آج تک کیا کسی فلسطینی مسلما ن نے کہا ہے یا حماس یا حزب اللہ نے فرمایا ہے کہ جو دہشت گرد، پاکستان سے لڑر ہے ہیں، ہم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان دہشت گردوں کو نیست ونابود کر دیں گے؟ کم ازکم میری نظر سے ایسا کوئی بیان گزشتہ چالیس پچاس برس سے نہیں گزرا۔ مگر ہم ان لوگوں کے لیے ہلکان ہیں جو ہمارے کسی مسئلہ پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے۔
اپنے ملک کو خوشحالی کی ٹرین پر گامزن کرنا چاہیے۔ یکسو ہو کر، ایک مضبوط اور متوازن خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس کا واحد مقصد خطے سے منسلک تنازعات سے دور رہنا ہو۔ مگر یہ کبھی نہیں ہو گا۔ ہم نے ہر وہ قدم اٹھانا ہے جو ہماری استطاعت سے بھی باہر ہو، اور جس سے ساری دنیا ہمارا ٹھٹھا لگا سکے۔ اپنے ملک کی ترقی تو ہمارے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے؟ ابھی بھی وقت ہے، ہمیں جدید فکر کو اپنا کر اپنے ملک کی خیرخواہی پر حددرجہ محنت کرنی چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اپنے ملک کی ترقی کی ہیں اور کے ساتھ ملک کو سے بھی
پڑھیں:
عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جولائی 2025ء) ندیم افضل چن نے اعتراف کیا ہے کہ عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے، سوشل میڈیا پر ہماری ویڈیوز پر عوام نے گالیاں لکھی ہوتی ہیں، ہم سیاستدان تو شطرنج کے پیادے ہیں اصل حکمران تو کوئی اور ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما ندیم افضل چن نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے، ہم جب شو کر کے جاتے ہیں اور اس کا کلپ سوشل میڈیا پر آتا ہے تو نیچے عوام نے گالیاں لکھی ہوتی ہیں، تو کیا اب ہر ایک گھر جا کر لوگوں کو مارو گے؟ ہم سیاستدان تو شطرنج کے پیادے ہیں اصل حکمران تو کوئی اور ہے۔ بانی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ جیل میں ہونے والے مبینہ ابتر سلوک کے حوالے سے ندیم افضل چن نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ عدل نہیں ہو رہا ہے، محرم کا مہینہ ہے، اور جھوٹ بولنے والے پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔(جاری ہے)
اس وقت بالکل عدل نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعطم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ کرپشن انتہا کو پہنچ گئی۔
مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال گزرنے کے بعد اب نو مئی کے فیصلے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ اس طرح کے فیصلے پہلے بھی اس ملک میں آئے، نہ انہیں سیاستدان قبول کرتے ہیں اور نہ ہی قانون دان مانتے ہین، نو مئی بڑا واقعہ ہے لیکن جب دو سال گزر جائیں تو کوئی فیصلے قبول نہیں کرے گا، جس ملک کا چیف جسٹس آئینی درخواست سُن ہی نہ سکتا ہو تو وہاں پر پھر کون سا انصاف رہ گیا ہے؟ اور جس ملک میں قانون نہ ہو وہ نہیں چلتا یہ تاریخ کا سبق ہے۔ سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ بے شک سارے اختیارات اپنے پاس رکھ لیں، 26 کے بعد 27 ویں ترمیم کر لیں لیکن اگر صلاحیت نہیں تو ملک نہیں چلا سکتے، حکومت ناکام ہے اور اسے خود اپنے آپ سے چیلنج ہے، یہ جتنے برس بھی رہیں ملک آگے نہیں بڑھے گا، آج جتنے چیلنجز پاکستان کو درپیش ہیں یہ پہلے کبھی نہیں تھے، ملک کو آگے لے جانے کی بات کریں کیوں کہ ملک اس وقت ترقی نہیں کر رہا، سیاسی ڈائیلاگ کریں جس میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کرپشن حد سے زیادہ ہے گورننس نہیں ہے، پنجاب کی حقیقت بھی وہی ہے جو باقی صوبوں کی ہے، ایک بات ہوئی کہ سفارش کا خاتمہ ہوگیا، درحقیقت کرپشن انتہا کو پہنچ گئی ہے، اسلام آباد میں سڑک دبئی سے مہنگی بنتی ہے اور چار مہینے نہیں چلتی، پھر وہ پیسہ کہاں جاتا ہے؟ اب سیدھا پیسے لگائیں، انصاف بھی پیسے سے ملتا ہے، پولیس، گورننس اور ترقیاتی کام سب پیسے سے ہے، ماضی میں گیس ڈویلپمنٹ چارجز لگائے 6 سو ارب حکومت کو چلے گئے، کاربن لیوی بھی یہی ہے، معاشی اعشارے اسٹاک مارکیٹ غریب کی میز پر کھانا نہیں رکھتے، ترقی نہیں ہو رہی تو ملک آگے نہیں جائے گا۔