Express News:
2025-06-09@22:12:13 GMT

صرف اپنے ملک کی فکر کیجیے!

اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT

متحدہ عرب امارات، سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے۔ آبادی بھی ہمارے مقابلہ میں بس واجبی سی ہے۔ صرف ایک کروڑ نفوس، جس میں سے نوے فیصد لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں یعنی غیرملکی ہیں۔

سات ریاستوں میں دوبئی کو تقریباً پوری دنیا جانتی ہے۔ دراصل دوبئی تضادات کا ایک مجموعہ ہے جس کی مثال دنیا میں شاید کہیں موجود ہو، مگر اسلامی دنیا میں اس طرح کا بھرپور شہر دیکھنے میں نظر نہیں آتا۔ دوبئی ایک حددرجہ ترقی یافتہ اور زندہ دل شہر ہے۔ ہو سکتا ہے کہ عام لوگوں کا خیال ہو کہ دوبئی، تیل کی آمدنی کی بدولت ترقی کی اوجِ ثریا پر براجمان ہے۔ مگر یہ گمان مکمل طور پر ناقص ہے۔ سات ریاستوں پر مشتمل اس ملک میں دوبئی، وہ واحد ریاست ہے جہاں تیل کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یعنی جو زمینی دولت، ابوظہبی یا متصل ریاستوں کو حاصل ہے، دوبئی اس سے یکسر محروم ہے۔ مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوبئی، تیل کے بغیر محیرالعقول ترقی کیسے کر گیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ متحدہ عرب امارات، مکمل طور پر اسلامی مملکت ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ ان کے قوانین بھی اسلامی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ یہاں مغربی مالک سے گورے، ہر جانب نظر آتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ہر ملک سے لوگ آ بھی رہے ہیں اور روزگار بھی حاصل کر رہے ہیں۔ دراصل اس ملک کی اصل کامیابی اس کے حکمرانوں کی وہ حددرجہ ترقی پسند اور زمانے کے ساتھ چلنے کی عملی پالیسیاں ہیں، جس کی مثال اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں کہیں بھی نظر نہیں آتی۔دراصل ہوا یہ ہے کہ دوبئی کے حکمرانوں نے یہ ٹھان لی کہ وہ کسی لحاظ سے بھی دنیا سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ جدید دنیا کے تمام تقاضے پورے کریں گے اور پھر ریاست، ان معاملات پر پہرا دے گی۔

دوبارہ عرض کروں گا کہ انھوں نے دین کو ترقی کی راہ میں آڑے نہیں آنے دیا۔ ہمارے جیسے ملکوں سے مزدور منگوائے اور ایک مستحکم انفرااسٹرکچر بنا ڈالا۔ ماڈرن سڑکیں، جدید ہوٹل، فقید المثال شاپنگ مالز قائم کیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی رٹ اتنی سختی سے قائم کی کہ کوئی کار، رات کو بھی سرخ بتی کراس کی جسارت نہیں کر سکتی۔ امن وامان اتنے جبر سے مستحکم کیا کہ چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی۔ سرمایہ کو غیرمعمولی تحفظ دے ڈالا۔ مگر معاملہ صرف اس مقام پر نہیں رکتا۔ دوبئی کے حکمرانوں نے پورے ملک میں بارز، شراب خانے، نائٹ کلب اور Personal Pleasures پر کسی قسم کی قدغن نہیں رکھی۔ یہ نازک نکتہ کم ازکم ہمارے جیسے دقیانوس ملک کے لیے کافی معنی خیز ہے۔

نتیجہ کیا ہوا۔ پوری دنیا سے سرمایہ دوبئی پہنچنا شروع ہو گیا۔ کرہ ارض پر جتنے بھی امیر لوگ ہیں، انھوں نے اپنے گھر دوبئی میں بنا لیے۔ ہمارے ملک کے صدور، وزراء اعظم اور بڑے آدمی، تمام کے تمام، آج بھی دوبئی میں جائیداد خریدنا محفوظ ترین سرمایہ کاری سمجھتے ہیں۔ نام لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پاکستان کے ہر صحیح یا غلط طریقے سے امیر بننے والے شخص کا دوبئی میں کوئی نہ کوئی ٹھکانہ موجود ہے۔ دوبئی ہلز میں، بڑے بڑے محلات، پاکستانیوں کے زیرتصرف ہیں۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ کون سا محل کس کا ہے۔

بہرحال دوبئی آج کی دنیا کا تیزرفتار ترقی کرنے کا ایک شاندار نمونہ بن چکا ہے۔ ہاں ایک عرض کرتا چلوں۔ وہاں کے اخبارات اور ٹی وی چینلز، قطعاً حکومت کے خلاف ایک لفظ لکھ یا بول نہیں سکتے۔ مگر ترقی کی قیمت اگر اظہار رائے پر سخت پابندی ہے، تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔ ہمارے بدنصیب ملک میں اظہار رائے پر ڈھیل پرویز مشرف کے دور میں برپا ہوئی اور اب تو یہ سوشل میڈیا کی اس غلاظت میں بدل چکی ہے جس نے ملک کو بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر بے مثال ترقی، اس مجنونانہ اظہار رائے پر مکمل پابندی سے برپا ہوتی ہے تو پھر ہمیں ترقی کو چن لینا چاہیے۔ آپ دوبئی کو رہنے دیجیے۔ کیا چین کی خیرہ کن ترقی کے ساتھ ساتھ میڈیا کا عنصر موجود ہے، جواب مکمل نفی میں ہے۔

دوبئی کی داخلی ترقی سے ہٹ کر اب میں ایک حددرجہ نازک نکتہ کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ اور وہ متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی ہے۔ ان کی بیرونی ساکھ کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ ہمارا ملک کسی بھی ملک کا دشمن نہیں۔ کسی بھی مذہبی ریاست سے ہمارا کوئی تنازع نہیں۔ ہم سب کے دوست ہیں اور کھلے بازوؤں سے ہر ایک کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ جو فکری اختلاف تھا یا ہے، اسے بھی انھوں نے تجارت کے ذریعے ختم کر ڈالا۔ ایران پر بھرپور پابندیوں کے باوجود، ایرانی تیل کی بین الاقوامی نقل وحرکت، دوبئی کی بندرگاہوں سے ہی ہوتی ہے۔

کیا یہ خارجہ پالیسی کی معراج نہیں کہ وہ ہندوستان سے بھی قریبی تعلقات رکھتے ہیں اور پاکستانی بھی دوبئی کو اپنا دوسرا گھر گردانتے ہیں۔ سعودی عرب بھی وہاں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اور اسرائیل کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کے دشمن ممالک، دوبئی کے ساتھ حددرجہ خوشگوار تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں۔ آپ دوبئی جایئے، تو آپ کو ان گنت مقامات پر پاکستانی اور ہندوستانی اکٹھے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایک ساتھ کھانا کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ یہودی مرد اور خواتین، اپنے روایتی لباس میں بڑے سکون سے چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مغربی ممالک کی خواتین اسکرٹ پہنے ہوئے محفوظ طریقے سے چہل قدمی کرتی نظر آئیں گی۔ یعنی کہ دنیا کے ان گنت ممالک سے مرد اور خواتین اپنی مرضی کا لباس پہن کر باہر آ سکتے ہیں اور ان پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔

اب میں اپنے اس بیانیہ کو الٹا کر کے پاکستان کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہمارے ملک کو ستر برس سے ایک ادنیٰ لیبارٹری میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ ہماری درسی کتب میں باور کروایا جاتا ہے کہ ہمارا ملک، اسلام کا قلعہ ہے۔ اس فقرے کا مطلب کوئی بھی باشعور انسان نہیں سمجھ پاتا اور نہ دوسرے کو سمجھا سکتا ہے۔ ہم اور دیگر بہت سارے مسلمان ملک ہیں۔ مگر ہم اسلام کا قلعہ کیسے بن گئے۔ ہندوستان میں بھی اتنے ہی مسلمان ہیں، جتنے پاکستان میں۔ پھر ہماری صف بندی، اتنی مختلف کیوں ہے۔ اور اس مفروضے پر عمل کرنے یا اسے ترویج دینے سے ہمارے ملک کو فائدہ ہوا یا نقصان؟ اگر ہمارے اردگرد مذہب کی فصیلیں ہیں تو پھر شدت پسند، جہادی مسلمان، وہ ہم پر حملہ آور کیوں ہیں؟ دراصل ضیاء الحق نے ہمارے معاشرے کی سماجی اور مذہبی ترکیب ہی بدل ڈالی ہے۔ اور شاید اب ہمیں نارمل ہونا آتا ہی نہیں ہے۔

عجیب معاملہ یہ بھی ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ پوری دنیا کی فکر ہے۔ مگر اپنے ملک کی ترقی اور خوشحالی سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ فلسطین سے لے کر برما کے روہنگیا مسلمان ہوں یا چین کے اوگر لوگ، ہم ہر طرف لفظی بیان بازی اور شور مچانے سے گریز نہیں کرتے۔ اپنے ملک کی خیرخواہی سے ہمیں کوئی یارا نہیں۔ آج تک کیا کسی فلسطینی مسلما ن نے کہا ہے یا حماس یا حزب اللہ نے فرمایا ہے کہ جو دہشت گرد، پاکستان سے لڑر ہے ہیں، ہم افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ان دہشت گردوں کو نیست ونابود کر دیں گے؟ کم ازکم میری نظر سے ایسا کوئی بیان گزشتہ چالیس پچاس برس سے نہیں گزرا۔ مگر ہم ان لوگوں کے لیے ہلکان ہیں جو ہمارے کسی مسئلہ پر ہمارے ساتھ کھڑے ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ زیادہ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کی سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے۔

اپنے ملک کو خوشحالی کی ٹرین پر گامزن کرنا چاہیے۔ یکسو ہو کر، ایک مضبوط اور متوازن خارجہ پالیسی ترتیب دینی چاہیے جس کا واحد مقصد خطے سے منسلک تنازعات سے دور رہنا ہو۔ مگر یہ کبھی نہیں ہو گا۔ ہم نے ہر وہ قدم اٹھانا ہے جو ہماری استطاعت سے بھی باہر ہو، اور جس سے ساری دنیا ہمارا ٹھٹھا لگا سکے۔ اپنے ملک کی ترقی تو ہمارے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہے؟ ابھی بھی وقت ہے، ہمیں جدید فکر کو اپنا کر اپنے ملک کی خیرخواہی پر حددرجہ محنت کرنی چاہیے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنے ملک کی ترقی کی ہیں اور کے ساتھ ملک کو سے بھی

پڑھیں:

تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ
۔۔

ٹالسٹائی کا خیال تھا کہ گذشتہ دو صدیوں کے اندر اخلاقی ترقی ہوئی ہے لیکن حکومتیں بری طرح سے غیر اخلاقی ثابت ہوئی ہیں چنانچہ اس کے نزدیک دنیا کے مظلوم عوام کے مسائل کا واحد حل یہ ہی ہے کہ ان کے اندر وہ اخلاقی جرأ ت پیدا ہوجائے جس سے وہ ظالموں کے استحصال کا عدم تشدد کے ذریعے مقابلہ کرسکیں ۔ وہ کہتا ہے ” یہ دنیا نہ ہنسی مذاق کی جگہ ہے اور نہ دارو رسن کی وادی ہے اور نہ ہی کسی ابدی دنیا کا پیش خیمہ ہے ہماری دنیا خود ایک ابدی حقیقت ہے یہ دنیا خوبصورت اور دلکش ہے ہمیں اسے زیادہ حسین و دلفریب بنانا چاہیے ان لوگوں کے لیے جو ہمارے ساتھ زندہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے جو ہمارے بعد زندہ رہیں گے”۔ ستمبر 1860 میں ایک انگلستان کے عظیم ناول نگار چالس ڈکنس نے یکایک فیصلہ کیا کہ اسے اپنے ماضی سے تمام رشتے منقطع کر لینا چاہیے اور پھر اس نے اپنے بچوں کی موجودگی میں سارے خطوط اور دوسرے کاغذات نذر آتش کر دیئے ۔ ڈکنس کو ”زمانہ ” کی اہمیت کا غیر معمولی احساس تھا۔ زندگی کی جدوجہد میں انسانی فطرت کے جو نمونے ڈکنس نے پیش کیے ہیں وہ شیکسپیئر کے علاوہ کسی دوسرے انگریزادیب کے یہاں مفقود ہیں۔اس نے انسانی زندگی کے تمام اہم پہلوئوں پر غور وفکر کیا۔ اس کاناول Great Expectationایسے افراد کی داستا ن ہے جنہوں نے خود کو سماج اور روز مرہ زندگی سے قطع تعلق کرکے اپنی زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ Miss Havishamاپنی نامرادیوں اور محرومیوں کا بدلہ سماج سے لینا چاہتی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خو دتنہا رہ جاتی ہے اور ایذا رسانی اس کی فطرت بن جاتی ہے ڈکنس کے زمانے میں قدیم روایتی قدریں تیزی سے ختم ہورہی تھیں اور لوگ نہ صرف قدیم بستیوں سے اجڑنے لگے تھے بلکہ صنعتی انقلاب اور مشینی تہذیب کے طفیل مرد، عورت اور بچے ”غیر انسان ” ہوتے جارہے تھے اس ماحول میں انسان محض ”چیز ” بنتا جارہا تھا ۔ اس ناول میں کردار وں کی اہم خصو صیت یہ ہے کہ وہ اس عجیب و غریب دنیا میں جینے پر مجبور ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے بلکہ خود کلامی کے سہارے زندہ رہتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سماجی حالات نے ان کی آواز چھین لی ہے پریشان حال اور پر ا گندہ خیال انسان اپنی چھوٹی سی دنیا الگ بسائے ہوئے ہیں مکانات اپنے اپنے طور بنتے اور گرتے رہتے ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکار نہیں۔
ڈکنس اپنے سماج کے گہرے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ” انسان کے درمیان جنگ زرگری ہی ساری تباہی کی جڑ ہے زرپرستی اور زر کی ہوس نے اگر سماج کے بالا ئی طبقے کو دولت او ر فراغت بخشی ہے تو دوسری جانب غربا کے لیے گھٹن ، تنہائی اور پریشانی کا سامان فراہم کیا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ دولت جمع کرنے کی جدوجہد میں اہل زر بھی محفوظ نہیں رہتے اور خود ان کی زندگی بھی عذاب ہوکر رہ جاتی ہے ۔ شیکسپیئر اپنے ڈرامے King Learمیں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا زندگی کی ماہیت کو نہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اور اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا ۔ سارتر کہتا ہے زندگی چپکنے والی غلاظت ہے جو بہتے بہتے جم گئی ہے جبکہ کیرک گرد کہتا تھا ” میں کبھی بھی بچہ نہیں تھا میں کبھی بھی جوان نہیں ہوا میں کبھی بھی زندہ نہیں رہا میں کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کر سکا زندگی کس قدر کھوکھلی اور لغوہے کوئی کسی کو دفن کرتاہے کوئی میت کے ساتھ جاتا ہے کوئی قبر میں تین بیلچے مٹی کے پھینکتا ہے آخر ستر برس کی عمر کب تک ساتھ دے گی کیوں نہ اس زندگی کا فوری طورپر خاتمہ کردیاجائے کیوں نہ آدمی قبرستان میں ڈیرے ڈال دے کیوں نہ قبر میں گھس جائے ”۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95 فیصد انسانوں کے یہ ہی احساسات و جذبات ہیں کہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ آج پاکستان کے 95فیصد انسانوں کی یہ ہی سو چ ہے کیا یہ بھی سچ نہیں ہے کہ آج ہم Great Expectationکے کردار نہیں بن کے رہ گئے ہیں کیا یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ آج 95 فیصد پاکستانی سارتر کی بات سے متفق ہیں کہ زندگی چپکنے والی غلاظت ہے آج چند سو کو چھوڑ کر کوئی ایک پاکستانی دکھا دو جو دل سے ہنستا ہو جسے کوئی غم نہ ہو کوئی فکر یا پریشانی نہ ہو ۔ جو چین سے سو تا ہے جو پیٹ بھر کے روٹی کھا تا ہو ۔ خدا کے واسطے کسی ایک شخص کا پتہ بتادو جوروز اپنی قبر نہ کھو دتا ہو جس کے اندر ننگی چیخیں نہ چیختی ہوں جو روز نہ مرتا ہو اور روز نہ جیتا ہو ۔ اس وقت اپنے آپ کو پیٹنے کا دل چاہتا ہے ماتم کرنے کا جی کرتا ہے ۔ جب امیرو کبیر ، محلوں او ر اونچے اونچے تختوں پر بیٹھے موٹے موٹے پیٹ والے یہ بکوا س کرتے ہیں کہ ملک ترقی کررہا ہے ملک سے غربت کا خاتمہ ہورہا ہے خو شحالی آرہی ہے ، مہنگائی کم ہورہی ہے لوگوں کا سکون لوٹ رہا ہے ارے کوئی ان اندھوں ، بہروں اور کانوں کو ملک کی گندی اورغلاظت سے بھری بستیاں دکھا دے ۔ خون تھوکتے انسان دکھا دے اپنے آپ کو پیٹتی بہنوں ، اور بیٹیوں کو دکھا دے بھوکے سوتے بچوں کو دکھا دے۔ تڑپتی بلکتی سسکتی مائوں کو دکھا دے ۔ خدارا کوئی تو اٹھے جوان اندھوں، بہروں اور کانوں کو ملک کی بستیوں میں لے جائے ۔ جہاں انسان تڑپ اور بلک رہے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے امیروں ، بااختیاروں ، سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور حکمرانوں تم ہم 95 فیصد انسانوں سے بالکل الگ ہوتم اور ہم کیسے ایک ہوسکتے ہیں جب کہ تم ہمارے غموں ، دکھوں اور تکلیفوں کو محسوس ہی نہیں کرسکتے تم تمہارے جیسے کیسے ہوسکتے ہو۔ تم ہمارے اپنے کیسے ہوسکتے ہو ۔ تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ غربت ، افلاس کس بلاکا نام ہیں فاقوں کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔ بیروزگاری کا غم جسم کو کیسے کاٹتا ہے ۔ اپنے جسم سے نکلنے والا خون دیکھ کر کیسے دل تڑپتا ہے ۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں اور امیدوں کے قتل عام پر کیسے دل روتا ہے ۔ نہیں بالکل نہیں تم اور ہم الگ الگ ہیں اس لیے یہ ڈھکو سلے بازی بند کرو یہ ڈرامہ بازی اب نہیں چلے گی یہ منافقت اب ناقابل برداشت ہوچکی ہے کیونکہ تمہارا پاکستان الگ ہے اور ہمارا پاکستان الگ ہے ۔ تمہارے خون کارنگ الگ ہے اورہمارے خون کا رنگ الگ ہے تمہارے جسم الگ ہیں اور ہمارے جسم الگ ہیں ہمارے سارے المیوں ، ساری ذلالتوں ، سارے غموں اور دکھوں کے تم ہی ذمہ دار ہو۔ ہم صرف تمہاری ہی وجہ سے چیزیں بن کے رہ گئے ہیں ۔جب سکندر اعظم 325قبل از مسیح میں شمالی مغربی ہندوستان میں گھو ما تو اس نے پنجاب میں اور اس کے آس پاس مقامی باشندوں کے ساتھ ساری لڑائیاں جیت لیں لیکن وہ اس قابل نہ ہوسکا کہ اپنے سپاہیوں میں اتنا جو ش و خروش پیدا کرسکے کہ و ہ طاقتور شاہی نند ا خاندان پر حملہ کرسکیں ۔ جو مشرقی ہندوستان کے شہر پٹالی پترا ، ( جو اب پٹنہ کہلا تا ہے ) اور جو ہندوستان کے بیشتر حصے پر حکومت کرتا تھا تاہم سکندر اعظم خاموشی سے یونان واپس جانے کے لیے تیا ر نہیں تھا ایک روز پر جو ش مباحثے میں دنیا کے فاتح نے جین فلسفیوں کے ایک گروہ سے پو چھا کہ وہ اس کی طرف توجہ دینے کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں اس سوال کا جواب اس نے یہ پایا ”بادشاہ سکندر ہر شخص صرف زمین کے اتنے ہی حصے کا مالک ہوسکتا ہے جتنے پر ہم کھڑے ہوئے ہیں آپ بھی ہم میں سے باقی سب کی طرح ایک انسان ہو سوائے اس کے آپ ہر وقت مصروف رہتے ہو اور کسی اچھائی کے لیے نہیں ۔ اپنے گھر سے اتنے میل ہامیل دور سفر کررہے ہو اپنے لیے اور دوسروں کے لیے ایک پریشانی کا باعث ہو، آپ جلد ہی مر جائو گے اور تب آپ صرف اس قدر زمین کے مالک ہوگے جو آپ کو اپنے اندر چھپا نے کے لیے کافی ہوگی ”۔ میر ے ملک کے امیروں ، بااختیاروں ، طاقتوروں ، حکمرانوںیہ ہی بات تمہارے سو چنے کی بھی ہے کہ تم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے پر یشانی کا باعث ہو۔ آج نہیںتو کل تمہیں مر ہی جانا ہے اور اس وقت تم صرف اتنی ہی زمین کے مالک ہوگے جو تمہیں اپنے اندر چھپانے کے لیے کافی ہوگی ۔ باقی تمہاری ساری دولت ساری چیزوں کے مزے دوسرے لے رہے ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • ہمیں ملکر آبی وسائل کی ترقی کے لئے کام کرنا ہوگا، احسن اقبال
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • پہلگام حملے سے سیز فائر تک کئی سوالات برقرار، بھارت کے پاس کوئی جواب نہیں
  • نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی، شرجیل میمن
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہوکر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے: عمر ایوب
  • وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، وفاق سے ڈائیلاگ کرے: شرجیل میمن
  • نہیں لگتا کہ پی ٹی آئی کی کوئی تحریک کامیاب ہوگی:شرجیل میمن
  • پی ٹی آئی کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں، انہیں کچھ نہیں ملے گا، رانا ثناء اللّٰہ
  • تم ہمارے جیسے کیسے ہو سکتے ہو؟